انسانی کتاب: اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں ایک نیا تجربہ

سید عبداللہ علوی

۲؍ نومبر ۲۰۱۸ء کا دن بلاد العروس ’’ممبئی ‘‘ کا اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک تا ریخی دن کی حیثیت سے گذرا۔ اُس روز اُردو زبان و ادب کی ترویج کے حوالے سے ایک ایسا منفرد و بعید از قیاس قدم اٹھا یا گیا جس کا تصور صدیوں سے کسی کے ذہن سے ہوکر نہ گذرا تھا۔ یوں تو اہل زبان ہمیشہ ہی سے اپنی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور بقا کے لیے بے شمار تجربات کرتے رہے ہیں جس پر زبان و ادب کی تواریخ شاہد ہیں لیکن فی زمانہ زبان و ادب سے عوام الناس کی عام عدم دلچسپی اور زمانے کے بدلتے تہذیبی، ثقافتی اور تکنیکی رجحانات و مشاغل نے زبان و ادب کے تجربات کے رخ کو بھی روایت کے برخلاف نئی جہتیں عطا کر دی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہماری زبان، ہمارا ادب زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری زبان و ادب کا یہ شاندار اور کامیاب سفر اِس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اپنے لہوئے دِل سے اس زبان و ادب کی آبیاری کرنے والے دیوانے اب بھی موجود ہیں۔ وہ زبان مارے سے بھی بھلا کیامرے جس کے دیوانے زندہ ہوں۔

اردو زبان و ادب کا سفر سینوں سے صفحات اور صفحات سے کمپیوٹر اور موبائل کی اسکرین تک کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نے اپنی ابتدا کے ساتھ ہیں عالمی زبان و ادب سے بغلگیر ہونا شروع کردیا تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ اس کی بنیاد ہی عالمی زبانوں کے پایوں پر استوار کی گئی۔ شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب ‘ ہماری زبان و ادب نے سارے عالم کے ادب کو گلے لگایا اور انھیں اپنے دامن میں نئی شان و تمکنت کے ساتھ ہیروں کی طرح جڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری زبان کی نثر و نظم میں عالمی پیرایۂ اظہار کی بہت سی اصناف چمکتی نظر آتی ہیں۔ اردو زبان نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں جہاں بے شمار مغربی اصناف ادب کو اپنے قلوب میں ڈھال کر اپنی زبان و ادب کو عالمی زبان و ادب کے درجے پر فائز کیا وہیں آج اکیسویں صدی میں اب بھی یہ زبان اپنی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

  ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘  کا تصور بھی اردو زبان و ادب کے اسی ارتقا ئی سفر کا ایک حصہ ہے۔ اس تصور یا نظریے کو مشہور و معروف ماہر تعلیم پروفیسر عارف کلیم عثمانی صاحب نے پیش کیا۔ اس کی وضاحت سے پہلے ضروری یہ ہے کہ اس نظریے کو جہاں سے مستعار لیا گیا اس پر روشنی ڈالی دی جائے تا کہ اس نظریے کی عالمی حیثیت بھی واضح ہوجائے۔

سن ۲۰۰۰ء میں یورپی ملک ڈنمارک میں ’’The Human Library‘‘ کے نام سے ایک پروگرام رکھا گیا۔ اسے پیش کرنے والوں کے نام Ronni, Dany Abergel, Asma Mouna, Christoffer Erichsen   ہیں۔ اس پروگرام میں ملک کی ایسی وسیع العلم، متبحر، فاضل اور اجلَّ شخصیات کو پہلی مرتبہ بطور ’’The Human Library‘‘کے پیش کیا گیا جواپنے آپ میں معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ تھیں۔ یہ سماج کی ایسی شخصیات تھیں جنھیں زبان، ادب، سیاست، معاشرت حتیٰ کہ عالمی حالات اور ان کے کوائف کا بھی خاصہ علم تھا۔ اِسے پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس اور سماج کی اعلا علمی و ادبی شخصیات، اور سماجی مصلحین و مفکرین جیسے افراد کے مابین گفتگو کرائی جائے جن کے آپس میں بالمشافہ ملاقات کے امکانات نہیں ہوتے ٗ تا کہ عوام الناس ان کے سامنے اپنے ہر طرح کے سوالات رکھ سکیں اور انھیں ان کے سوالوں کے تشفی بخش جوابات مل سکیں۔

  یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا جو آٹھ گھنٹے کے سیشن سے مسلسل چارر وز تک چلتا رہا اوریہ پروگرام بہت کامیاب بھی رہا، اِس پروگرام میں ہر روز ایک ہزار کے قریب افرادشریک رہتے۔ اس کے بعد یہ پروگرام دنیا کے مختلف ممالک میں کیا گیا جہاں اسے خوب پسند کیا گیا۔ اس کی مقبولیت کے پیش نظر اسے باقاعدہ ایک تنظیم کی شکل دے دی گئی ہے جس کی آج دنیا بھر میں تقریباً اسّی (۸۰) ممالک میں شاخیں ہیں۔

یہی وہ تجربہ ہے جس سے مہمیز پاکر پروفیسر عارف کلیم عثمانی صاحب نے اردو زبان و ادب میں ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘ کا خالص علمی وادبی تجربہ کیا۔ چوں کہ اس نظریے کی بنیاد ہی کتب خانہ نما ایک ایسی انسانی شخصیت پر ہے جو علم نہیں مختلف علوم پر خاصی دسترس رکھتی ہو جیسا کہ اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے ایک انگریزی جریدے ’’The Economist‘‘میں کہا گیا ہے: ’’۔ The Human Library Organisation replace pages with people ‘‘ اب وقت تھا اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کا۔ پروفیسر عارف کلیم عثمانی صاحب نے اس ضمن میں اپنے خیالات ادبی نشستوں اور ادبی و علمی ذوق رکھنے والوں کے سامنے وقتا فوقتا مختلف انداز و نشستوں میں پیش کرنا شروع کیا۔ جلد ہی اس منفرد خیال سے اتفاق رائے کرنے والے اراکین کی ایک ٹیم تشکیل پاگئی جن میں مشہور شاعر ’’جناب عرفان جعفری، سماجی خدمتگارو علم دوست جناب سید حسین اکبر(صدر سمرتھن فاؤنڈیشن) اور جناب پرنسپل ضیاء الرحمٰن انصاری ‘‘ نے کلیدی کردار ادا دکیا۔ اب باری تھی بے شمار معززین علم و ادب اور ماہرین علم و فن میں سے کسی ایک ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘ کے انتخاب کی۔ اراکین کی جانب سے بڑے تدبّر کے ساتھ اردو زبان و ادب کی ایک ایسی شخصیت جو بیک وقت شاعر، ادیب اورنقاد جیسی اعلا ادبی، علمی و فنی بصیرتوں کے حامل   معروف اسکالر  جناب شمیم طارق صاحب کو  ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘ کے منتخب کیا گیا۔

 ۲؍ نومبر ۲۰۱۸ء کو ’’ سمرتھن فاؤنڈیشن‘‘ کے زیر اہتمام ممبئی کے انتہائی معروف علاقے ’’جوگیشوری‘‘ میں محب اُردو’’ جناب جعفر صاحب ‘‘ مالک ’’دلی دربار ریسٹورنٹ ‘‘ کے اشتراک سے ہوٹل کے وسیع و خوبصورت اور شاندار ہال میں ’’ اردو ادب و ثقافت‘‘ کے عنوان سے ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘  کے طور پر جناب شمیم طارق صاحب کو پیش کرتے ہوئے اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد تقریب منعقد کی گئی۔ پروگرام میں ’’ اردو ادب و ثقافت‘‘ کے عنوان کے تحت منتخب شدہ سوالات کیے گئے۔ اِن سوالات میں کچھ سوالات خلیجی ممالک سے بھی آئے تھے جن کی وجہ سے یہ پروگرام ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمی حیثیت اختیار کر گیا۔ جناب شمیم طارق صاحب نے پوچھے گئے تمام سوالات کے مدلل علمی، ادبی اورتنقیدی جوابات دے کر سامعین کو نہ صرف مطمئن بلکہ محظوظ بھی کیا۔ بے شمار باذوق علمی و ادبی شخصیات کی شرکت و پسندیدگی کے سبب یہ پروگرام کامیابی سے ہمکنارہوا اور اس طرح اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک نئے تجربے کا آغاز ہوا۔

         یقینا اردو ادب میں ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی ’’Human Book ‘‘ کا تصور نیا ہے لیکن جب ہم اس کی ترکیب و ترتیب پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کے آثار ہزار ہا سال قدیم نظر آتے ہیں۔  اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے زمانۂ اسلام ہی سے علوم دینی کی ترویج و اشاعت میں یہ طرز رائج رہا ہے۔ خود حضور نبیٔ کریم جناب محمد رسول اللہ  ﷺ نے اسی طریقے کو اختیار فرماتے ہوئے مسلمانوں کو دین و مذہب، شریعت و سنت اور خدائے لم یزل کے فرامین و احکام کی روشنی میں مذہبی پیغام پیش فرمایا۔ حضور اقدس  ﷺ  کے بعد صحابہ و تابعین، تبع تابعین، محدثین، مجتہدین، مفسرین، شارحین، علما ء فقہا، اولیاء، اصفیا ‘سب ترسیل علم، ترویج و اشاعت دین اور خدا و رسول جلا و علا و صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و پیغامات کی ترغیب و ترہیب اسی انداز میں پیش کرتے رہے ہیں۔

  آگے بڑھ کر جب ہم اردو زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی مثال پیش کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کی سب سے بڑی ادبی تحریک جسے ’’ترقی پسند تحریک ‘‘ کے نام سے جانا گیا ٗ سے سابقہ پڑتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدا ئی جلسوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد ایسا ہی ایک منظر سامنے آتا ہے جسے محمد حسین آزاد صاحب نے اپنی تاریخی کتاب ’’ آب حیات ‘‘ میں وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’ترقی پسند تحریک‘‘کے ابتدائی جلسے خواص پر مشتمل ہوتے جن میں اہل علم و فن منتخبہ عنوان پر اپنی شعری تخلیقات کو اردو شاعری کے جدید پیرائے ’’ نظم نگاری‘‘ کے تحت پیش کرتے۔ رفتہ رفتہ جلسوں سے خواص کی تخصیص ختم کر کے علم و ادب اور شعر ی و ادبی ذوق رکھنے والوں کو بھی شامل کیا جانے لگا جہاں سے یہ اپنے نئے علمی و ادبی افکار کے ساتھ عوامی جلسوں میں بھی منتقل ہوتی نظر آتی ہے۔

’’ترقی پسند تحریک ‘‘اردو زبان و ادب میں ایک نیا تجربہ ہی تھا جس نے اردو ادب کے ذخیرے میں اصناف ادب کاخوشگوار اضافہ کیا۔ ’’انسانی کتاب ‘‘  یعنی  ’’Human Book ‘‘ بھی اسی طرح اردو زبان و ادب میں یہ ایک نیا تجربہ ہے جو اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور ارتقا کی تاریخ میں اپنی انفرادیت کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ امید ہے وقت کے ساتھ یہ قافلہ اپنے لائحہ عمل اور دیگر امور میں ترمیم، اضافہ و تخفیف اور ردّ و قبول کے مرحلوں سے گذرتے ہوئے اِک روز منزل پر پہنچ ہی جائے گا اور اردو زبان و ادب کی تاریخ کا حصہ ثابت ہوگا۔

1 تبصرہ
  1. Syed Amjaduddin Quadri کہتے ہیں

    اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    بہت عمدہ مضمون ہے. مختصر انداز میں پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا.
    علوی صاحب قابل مبارکباد ہے.

تبصرے بند ہیں۔