جب بھی کرتا ہے ترا ہجر پریشان مجھے
جمیل اخترشفیق
جب بھی کرتا ہے ترا ہجر پریشان مجھے
لگنے لگتی ہے بہت موت بھی آسان مجھے
…
دیکھ کر مجھ کو نہ مصروف ہوا کر پیارے
میں بھی لگتا ہوں کوئ غور سے پہچان مجھے
…
تیرا پل بھر کے لیے یونہی خفا ہوجانا
کر گیا کتنا ترے شہر میں انجان مجھے
…
اس سے بڑھ کر بھی محبت کا حوالہ کیا دوں
سب سمجھتے ہیں ترے واسطے نادان مجھے
…
گر نکلنا ہے تو پھر پہلے تصور سے نکل
کیونکہ کرتا ہے ترا عکس پریشان مجھے
…
سوچتا رہتا ہوں کب درد سے باہر نکلوں
پڑھنا پڑتا ہے مگر میر کا دیوان مجھے
…
ایک مدت سے اسی کرب میں جیتا ہوں شفیق
کاش مل جاتا کہیں پیار کا سامان مجھے
تبصرے بند ہیں۔