جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا 

مدثر احمد

پچھلے دنوں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے شعبئہ خواتین کی جانب سے مسلم خواتین میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں بیداری لانے کی کوشش کی گئی، چونکہ شریعہ قانون کے تعلق سے مسلمان مرد و خواتین میں معلومات کی بے حد کمی ہے اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملک بھر میں مسلم خواتین کے درمیان بیداری لانے کے لئے مختلف مرحلوں پر جلسوں کا اہتمام کررہا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک طرف مسلمان خود کہہ رہے ہیں کہ دین خطرے میں ہے اور دین کی حفاظت کرنی چاہئے وہیں دوسری جانب خود مسلمان اس طرح کے جلسوں میں شرکت کرنے سے گریز صرف اس وجہ سے کررہے ہیں کہ ان جلسوں کو انجام دینے کی ذمہ داری کسی خاص مسلک کی جانب سے ہورہی ہے۔ حالانکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کسی ایک مسلک کا نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف مسلکوں کی نمائندگی ہے باوجود اس کے کچھ اہل علم حضرات پہلے دین کی حفاظت کرنے کے تعلق سے فکر نہ کرتے ہوئے مسلک و عقائد کی حفاظت کرنے پر آمادہ ہیں جبکہ ہندوستانی حکومتیں مسلمانوں کی شریعت پر قانونی شکنجہ کسنے کی تیاری کررہے ہیں نہ کہ مسلکوں و عقائد پر انکی نظریں ہیں۔

جب قوموں پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اسکے علمی حلقوں پر پردہ پڑتا ہے پھر بعد میں دوسرے متاثر ہوتے ہیں اور آج یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شعبئہ خواتین کے جلسے کی دعوت نامہ کا ایک پوسٹ جب سوشیل میڈیا پر آیا تو ایک صاحب نے عرض کیا کہ مسلم خواتین کو کہیں نہیں جانے کی ضرورت ہے اگر وہ گھر میں ہی رہیں تو انکے دین کی حفاظت ہوجائیگی۔

یقیناً عورتوں کا گھروں میں رہنا انکے لئے بہتر ہے لیکن ایسے ہی تنگ نظریات رکھنے والے لوگوں کی وجہ سے سائرہ بانو، عشرت جہاں جیسی عورتیں آج سپریم کورٹ تک پہنچ گئی ہیں اور یہی گھریلو مسلم عورتیں آج اسلام کے قانون پر باطل قانون کو نافذ کروانے میں لگی ہوئی ہیں۔ جب تک عورتوں میں اسلام کے بنیادی اصولوں اور قوانین کا علم نہ ہو اسوقت تک طلاق، خلع اور نکاح جیسے معاملات شرعی قانون کے بجائے دنیاوی قوانین کے تحت حل کرنے کی کوشش کی جائیگی۔غور طلب بات یہ ہے کہ ان جلسوں میں مدارس اسلامیہ یا مکاتب اسلامیہ میں زیر تعلیم لڑکیوں کو شرکت کرنے سے باقاعدہ طورپر روکا جارہاہے جبکہ جہاں تک ہمارے علم میں ہے کہ مکاتب و مدارس میں زیر تعلیم یا فارغین مدارس بھی مسلم پرسنل لاء سے ناواقف ہیں کیونکہ ان طالبات کو حدیث، مسائل، فضائل اور خانہ داری امور کی ہی تربیت دی جاتی ہے جبکہ آج شرعی مسائل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اپنے سماج میں، اپنے گھروں میں اور اپنے آس پاس کی خواتین سے سوال کریں کہ آپ دین اسلام یا شرعیہ قانون کو کتنا جانتی ہیں تو اس میں جواب نفی میں ہی ملے گا۔

ہم مسلمانوں نے اپنی خواتین کو ان چیزوں سے دور رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام، شریعت، طلاق، حلالہ، خلع جیسے معاملات پر جب کبھی میڈیا میں بحث و مباحثے ہوتے ہیں تو اس پر تبصرہ کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات سے واقف خواتین شرکت نہیں کرتی ہیں بلکہ سارہ خان، نداخان جیسی فلمی ہستیاں اور بے غیرت مسلم سیاسی خواتین شامل ہوتی ہیں جنہیں اسلام کے الف کا بھی علم نہیں ہوتا اور وہ شریعت کے ش کو بھی نہیں جانتی۔ جب تک ہم مسلم خواتین میں دین اسلام کی تعلیمات کو عام نہیں کرتے اس وقت تک حالات ایسے ہی بدتر ہوتے رہیں گے۔ مسلم خواتین انصاف کی تلاش میں غیروں کے در پر جاتی ہی رہینگی اور ہم مذمت کرتے ہی رہیں گے۔ اسلام کو بچانے کی ذمہ داری صرف مردوں کی ہی نہیں ہے بلکہ عورتوں کی بھی ہے کیونکہ عورتیں ہی سماج کی معمار ہیں۔ ماں، بہن، بیٹی اور بہو بن کر یہی گھروں کو سنوارتی ہیں اور یہی بچوں کا پہلا مدرسہ ہوتاہے، جب پہلے مدرسے کی بنیاد کو ہی بہتر نہیں بنائینگے تو باقی کا م کیسے سہی ثابت ہوگا۔ پچھلے دنوں ایک تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں کرناٹک کے شیموگہ ضلع میں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے کی بات کی گئی ہے، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دس سالوں میں جملہ 60مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہوئی ہیں اور ان میں زیادہ تر مسلم لڑکیوں کا تعلق غریب اور امیر گھرانوں سے ہے۔ جبکہ متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دراصل ہماری جانب سے جو اصلاح معاشرے کے پروگرام کئے جاتے ہیں یا پھر دینی سرگرمیوں کے لئے کام کیا جاتاہے وہ اسکے لئے صرف متوسط گھرانوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

غریب ومزدور پیشہ خواتین پر دین کی محنت کم ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو انہیں مسلکوں کا گرویدہ بنانے کاکام ہوتاہے نہ کہ قرآن و حدیث کے دائرے میں انکی اصلاح کاکام ہوتاہے۔ اعلیٰ گھرانوں کی لڑکیاں بہت کم ہی ایسے پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ مالدار یا اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کے اکثر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ انکی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے یا پھر وہ دینداری سے ہی دور ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بے راہ روی کا شکار ہوکر غیروں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان تمام حالات کا جائزہ لیاجائے تو نتیجہ یہی نکلتاہے کہ پہلے ہمیں دین کے لئے کام کرنا ہوگا پھر مسلک و عقائد کی پہچان خودبخود ان میں آجائیگی۔

سماج کے ذمہ داران، علماء، اہل علم طبقہ جب تک اس کام کو اجتماعی طورپر انجام دینے کے لئے کمر بستہ نہیں ہوتا اس وقت تک حالات یوں ہی بگڑتے رہیں گے اور آخر میں ہماری قوم کی نوجوان نسلوں کی بربادی کی ذمہ داری غیروں پر عائد کردی جائیگی جبکہ فی الوقت قوم کے مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ بقول علامہ اقبال ” جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا۔ ۔ اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوازرد "۔۔ مگر ہم موجودہ حالات کی زندہ حقیقتوں کو جاننے کے بجائے غیر ضروری معاملات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو اٹھانا پڑیگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔