جموں و کشمیر کے مقامی سیاسی قیادت سے مذاکراتی عمل کا آغاز
الطاف حسین جنجوعہ
خصوصی درجہ کی تنسیخ اور دو مرکزی زیر ِ انتظام علاقوں میں تقسیم کے بڑے تاریخی فیصلوں کے بعدسے جموں وکشمیر میں قائم سیاسی تعطل کو توڑنے کی غرض سے ایک سال دس ماہ اور 20دنوں یعنی 98ہفتوں کے بعدوزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر آٹھ سیاسی جماعتوں کے 14سنیئرلیڈران سے تفصیلی ملاقات کی۔ 3:45منٹ طویل اِس میٹنگ میں 690ایام کے دوران مرکز کی طرف سے جموں وکشمیر میں تنظیم نوقانون 2019کی عمل آوری، تعمیر وترقی، امن وعمل کی بحالی، ِعسکری سرگرمیوں کے انسداد میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا خلاصہ پیش کرنے کے علاوہ مدعو لیڈران کو ُسنا۔ 14میں سے 9لیڈران جن میں غلام نبی آزاد، فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی ، پروفیسر بھیم سنگھ، کاویندر گپتا، مظفر حسین بیگ، محمد یوسف تاریگامی، سید محمد الطاف بخاری، سجاد غنی لون نے اپنی بات وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ کے سامنے رکھی۔ پانچ لیڈران جن میں بی جے پی جموں وکشمیر اکائی کے ریاستی صدر راویندر رینہ، سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، ڈاکٹر نرمل سنگھ، غلام احمد میر اور تارہ چند نے خاموشی سے سب کو سُنا اور مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے محفل کی رونق بنے رہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد(NDA)نے خاص کر جموں وکشمیر کے معاملہ کو لیکر بہت ’سمارٹ ورک‘کیا ہے چاہئے وہ دفعہ370اور35Aکی تنسیخ ہو یا پھر اُس کے بعد کے حالات کو مکمل طور کنٹرول کرنا ہو۔ قریب دو برس سے قائم سیاسی تعطل کو توڑنے کے لئے بھی سمارٹ طریقہ اختیار کیاگیا اور ایساماحول اور حالات پیدا کئے گئے کہ جموں وکشمیر کے 4سابقہ وزراء اعلیٰ، چار سابقہ نائب وزرء اعلیٰ اور مختلف جماعتوں کے سربراہان ایکساتھ نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ٹیبل پر موجود تھے۔ اِس اہم پیش رفت سے مرکزی سرکار نے ایک تیر سے کئی نشانے چلائے۔ جہاں غیر ملکی طاقتوں جوکہ جموں وکشمیر میں اُٹھائے گئے اقدامات پرسوال اُٹھاتیں تھیں ،کو معقول جواب دیاگیا، وہیں ملک کے اندر مختلف حلقوں سے اُٹھنے والی آوازوں کے مُنہ بند کرنے کئے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ جموں وکشمیر میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے مذاکراتی عمل کی بھی ٹھوس، پائیدار اور معنی خیز بنیاد رکھی گئی جوکہ مرکز کے اقدامات سے ناخوش تھیں جن کا گلہ تھاکہ اُن سے صلاح ومشورہ لئے بغیر 5اگست2019کے بڑے اور غیر متوقع فیصلے لئے گئے، نیز اُنہیں نظر بند بھی رکھاگیا۔
مرکز نے ’سمارٹ ورک ‘کرتے ہوئے ہر اُس سیاسی جماعت کے لیڈر کو مدعو کیا جوسابقہ حکومتوں کااہم حصہ رہ چکا ہے یا جن کی جماعت کو عوامی منڈیٹ اور حمایت حاصل ہے لیکن خاص توجہ دو اہم علاقائی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی قیادت کو میز پر لانا تھی۔ اِس اجلاس کا مقصد بات چیت کا عمل شروع کرنا اور دو سال کے تعطل کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں سے اُٹھنے والی آوازوں کو جواب دیاتھا جوکہ بہترین انداز میں دیاگیا۔ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہال کے باہر تصویر لی گئی جوکہ چند گھنٹوں کے اندر ہی دنیا بھر کے اخبارات، ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا پر شائع ہوگئی یعنی کہ اجلاس کے اندر بات ہونے سے قبل ہی مقصد بہت حد تک حل ہی ہوگیاتھا۔ خوشگوار ماحول میں بات ہوئی اور نرم لہجے میں گلے شکوے بھی ہوئے جنہیں وزیر اعظم نے بغور سُنا اور کہاکہ وہ جموں وکشمیر کوConflict Zoneسے Peace Zoneمیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ حد بندی عمل تیزی کے ساتھ ہوگا، پھر انتخابات ہوں گے تاکہ جمہوری نظام کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل ہوں۔ موصوف نے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو بھی دوہریا ، البتہ اُس کے لئے کسی وقت یا تاریخ کا تعین نہ کیاگیا۔ مرکز کی طرف سے اجلاس میں جو مختصر پیغام دیاگیا وہ تھا…’حدبندی …انتخابات اور پھر…اسٹیٹ ہڈ‘۔
جموں وکشمیر میں اجلاس کے بعد سے سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی، سماجی کارکنان اور عام لوگوں نے خوب تنقید کی، گپکار الائنس کی لعن طعن کی، طنزیہ جملوں اور الفاظ کی برسات کی ،اِس میٹنگ کو بے معنی قراردیا کیونکہ اِس سے بقول اُن کے کچھ ملا نہیں ، لیکن سیاسی مبصرین اِس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اُن کا ماننا ہے کہ مستقل جموں وکشمیر کی اور یہ ایک اہم پہل تھی۔ 1947کے بعد کی تاریخ شاہد ہے کہ جموں وکشمیر کے حوالے سے نئی دہلی نے جو بھی فیصلہ لیا، اُس پر نہ اِس سے پہلے نظرثانی ہوئی ہے اور نہ اب گنجائش نظر آتی ہے ، البتہ کچھ وقتی راحتی اقدامات متوقع ہیں۔ تاریخی اوراق پلٹ کر دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ جموں وکشمیر کی مقامی سیاسی قیادت فیصلے لینے کی از خود مجاز تھی اور نہ ہوگی بلکہ نئی دہلی کی گرفت ہمیشہ مضبوط رہی ہے اور مرکز نے حالات اورواقعات کی مناسبت سے ملک کی سالمیت، یکجہتی کے وسیع ترمفادات کے لئے وقتاًفوقتاًجوبہتر تھا وہ کیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ 5اگست2019کے فیصلوں کے بعد لمبے عرصے تک صورتحال ’’جوں کی توں برقرار ‘‘نہیں رکھی جاسکتی اور دیرسویر سیاسی عمل کی بحالی کا آغاز جموں وکشمیر میں ہونا تھا اور یہ اجلاس اُس کی اور ایک اہم سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اجلاس پہلے بھی منعقد ہوسکتا تھا لیکن کورونا بحران سے ممکن نہ ہوا، جس کا وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس میں تذکرہ بھی کیا۔ اِس اجلاس کے بعد فوری ریاستی درجہ کی بحالی یا کوئی اور بڑا تو متوقع نہیں تھا۔ ایسا تو تھا نہیں کہ مرکز نے پہلے ہی تحفے کی صورت میں پیکٹ بنارکھاتھاکہ لیڈران کو سنا، اُنہوں نے جوکہا ، اجلاس کے آخر میں دے دیا۔ ایک عام آدمی تو اجلاس کو کسی بھی حد تک توقعات وخواہشات کرسکتا تھا لیکن ہر وہ شخص جوتھوڑی بہت عقل وفہم رکھتا ہے، اُس کے لئے یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ اجلاس کے بعد سے فوری طور کچھ نہیں ملا، یہ ایک آغاز تھا جو ہوا۔ کل جماعتی اجلاس جس کو بعض حلقے ’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘کے مترادف قرار دے رہے ہیں ، دراصل تاریخی اور انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے جس کے آنے والے وقت میں مثبت اثرات زمینی سطح پر بھی دیکھنے کو ملیں گے جبکہ ملکی اور عالمی سطح پر تو اجلاس کی تصاویر وائرل ہونے سے ہی مثبت پیغام پہنچادیاگیا۔ یہ اجلاس منعقد کر کے لیڈران کی نبض چیک کرنا تھا، اُن کے لہجے، رویے اور موقف میں آئی لچک کا تجزیہ کرنا تھا اور سب سے بڑھ کر کہ تعطل کو توڑناتھا، جوہوا۔ نئی دہلی میں اجلاس کا منعقد ہونا، اُس میں چار سابقہ وزراء اعلیٰ سمیت سبھی اہم سیاسی جماعتوں جن کے پاس عوامی منڈیٹ ہے، کے لیڈران کا ایک ساتھ اِس میں شرکت کرنا ہی بڑی بات ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ اور اِس کے کام کاج متعلق جاننے والوں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کے لئے جموں وکشمیر میں حد بندی عمل، انتخابات کرانا کوئی بڑی بات نہیں اور ایسا کرنے سے اُنہیں کوئی روک بھی نہیں سکتا، البتہ وہ چاہتے ہیں کہ اِس عمل میں مقامی سیاسی قیادت کا اعتماد اور تعاون اُنہیں حاصل ہو لیکن اِس سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے مگر ہے حقیقت کہ مرکز نے اعلیحدگی پسند اور حریت نواز جماعتوں کو فی الحال پورے منظر نامے سے باہر کر دیا۔ اب حالات وہ نہیں رہے کہ مرکز سے مختلف جماعتوں کے سنیئر زعما اور اراکین پارلیمان کشمیر میں حریت رہنماؤں کے دروازوں پر ملاقات کے لئے دستک دیں گے۔ اب بات بھی نئی دہلی میں ہوگی، وہ بھی مین اسٹریم سے… اور ہوگی بھی مرکز کی شرائط اور قواعد وضوابط کے عین مطابق۔ اِس اجلاس کے انعقاد سے توقع کی جاسکتی ہے ک مذاکراتی عمل کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا تاکہ مرکز اور ریاست کے درمیان قائم بد اعتمادی دور ہو، بھروسہ بحال ہو، مکمل طور ریاستی درجہ کی بحالی کے ساتھ ، ایک عوامی منتخب حکومت ہو جوعوامی مشکلات کو کچھ کم کرسکے۔ جموں وکشمیر میں سیاسی گفتگو کو ہر کوئی پسند کرتاہے، اب آپ کو اخبارات، ٹیلی ویژن چینل ، سوشل میڈیا اورعوامی حلقوں میں ’کل جماعتی اجلاس ‘کولیکر بہت دلچسپ تبصرے، تجزیے، لطیفے، مباحثے سننے کو ملیں گے ، مختلف نظریات، خیالات اوردلائل تو آپ بھی اِن سے آئندہ کئی ہفتوں تک لطف اندوز ہوتے رہیں ، اس دوران کوئی نئی پیش رفت بھی ہوجائے گی اور یہ سلسلہ یوں چلتا رہے گا!
٭٭٭٭
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔