جمہوریت میں حزب اختلاف کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے
خورشید عالم داؤد قاسمی
سترہویں لوک سبھا کے عام انتخابات کی تکمیل کے بعد، 23/مئی 2019 کو سترہویں لوک سبھا کا نتیجہ آگیا۔ حزب اقتدار کو ایسی کام یابی ملی کہ اس کی توقع حزب اقتدار کے بڑے بڑے لیڈروں کو بھی نہیں رہی ہوگی۔ بی جے پی لوک سبھا کی 542 سیٹوں میں سے 303 سیٹوں پر کام یابی درج کرکے حکومت بنا چکی ہے۔ موجودہ انتخابات میں اپوزیشن پارٹیاں بری طرح سے ناکام رہی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں قومی سطح کی پارٹی کانگریس صرف اور صرف باون سیٹوں پر کامیابی درج کراسکی۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں انتخابات کے موقع سے شہریوں کو یہ حق ہوتا ہے کہ اپنے ووٹوں کے ذریعے جسے وہ چاہیں اقتدار میں رکھیں اور جسے وہ چاہیں اقتدار سے اکھاڑ پھیکیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شہریوں نے حزب اقتدار کو ایک بار پھر موقع دیا ہے؛ لہذا حزب اقتدار کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ شہریوں کے امید پر پورے اترنے کی کوشش کریں۔
حکومت بننے کے بعد،حزب اقتدار سے شہریوں کی امیدیں اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ ان کو مناسب روزگار ملے۔ انھیں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے مناسب اسکول اور کالج دستیاب ہوں۔ صاف شفاف ماحول میں انھیں سانس لینے کا موقع ملے۔ شہریوں کو سکون اطمینان سے رہنے کا موقع ملے اور لاء اینڈ آرڈر سے کوئی کھلواڑ نہ کرے۔ ضرورت پڑنے پر اچھے اسپتالوں میں فری میں ان کے علاج ومعالجہ کا انتظام ہو۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم قابل برداشت خرچ پر، اچھے اسپتالوں میں ان کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم ہو۔ ان کے پینے کے لیے صاف ستھرے پانی کا انتظام ہو۔ سفر کے لیے مناسب کراپے پر، عمدہ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو جو امن وامان کے ساتھ شہریوں کے ان کی منزلوں تک اطمینان اور سہولت سے پہونچادے۔ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جس کی توقع ایک شہری اپنی حکومت سے رکھتا اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان سہولیات کا پورا خیال رکھے۔
جمہوریت میں جہاں حزب اقتدار کا بڑی اکثریت کے ساتھ ہونا جمہوریت کے لیے مفید ہے، وہیں حزب اختلاف کا بھی مضبوط ہونا از حد ضروری ہے۔ حزب اختلاف کے پاس اتنی طاقت ہونی چاہیے جب حزب اقتدار کوئی غلط فیصلہ لے رہا ہو؛ تو اسے عوام کے سامنے لائے اور حکومت کو بروقت لگام لگاسکے۔ اگر حزب اختلاف میں اتنی قوت نہیں ہے؛ تو یہ جمہوریت کے لیے بڑے خطرے کی بات ہے۔ اس صورت میں جمہوریت اپنا معنی کھو دے گی اور آمریت (Dictatorship) شروع ہوجائے گی۔ اس الیکشن کے نتائج آنے کے بعد، عوام نے منٹوں میں سمجھ لیا کہ اقتدار میں کون پارٹی آرہی ہے؛ مگر جب حزب اختلاف کی طرف نظر دورائی جائے؛ تو دور دور تک کوئی پارٹی اصولی طور پر حزب اختلاف کہلانے کے لائق نظر نہیں آرہی ہے۔
ہندوستان میں 2014 میں، سولہویں لوک سبھا انتخابات کے بعد بھی یہی صورت حال تھی۔ نہ کوئی پارٹی حزب اختلاف کی مستحق ٹھہری اور نہیں کوئی شخص حزب اختلاف کا لیڈر قرار پایا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کے لیڈر کی پوزیشن، اس پارٹی کے لیڈر کو دی جاتی، جس پارٹی کے کم سے کم پچپن ایم پی ہوں۔ یہ پچپن کی تعداد لوک سبھا کے تمام ممبران (542) کاتقربیا دسواں حصہ ہے۔ آپ حزب اختلاف کی کسی بھی پارٹی پر نگاہ ڈالیں؛ تو اتنے اراکین کی تعداد کسی بھی پارٹی کے پاس نہ ہی 2014 کے سولہویں عام انتخابات میں ملا تھا اور نہیں اس موجودہ سترہویں لوک سبھا انتخابات میں کسی پارٹی کو ملا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ گزشتہ پانچ سالہ دور میں کوئی شخص باضابطہ منتخب ایوزیشن لیڈر نہیں تھااور ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی وہی ہوگا کہ کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو حزب اختلاف کے لیڈر کی حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔
ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ ایک المیہ ہے کہ حزب اختلاف کی جن پارٹیوں کی طرف سے انتخابات سے قبل، ایک سے زائد لیڈران وزیر اعظم کے عہدے کے دعویدار رہے ہوں، آج ان پارٹیوں میں کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے، جو خود کو اصولی طور پر حزب اختلاف کے طور پر پیش کرسکے اور اس پارٹی کے رہنما کو حزب اختلاف کا لیڈر تسلیم کیا جاسکے! بنگال میں ترنمول کانگریس صرف بائیس سیٹوں پر سمٹ گئی۔ یوپی میں ایس پی نے صرف پانچ سیٹیں حاصل کی اور بی ایس پی دس سیٹیں حاصل کرسکی۔ بہار میں آرجےڈی کا بالکل صفایا ہوگیا۔ مہاراشٹرا میں این سی پی صرف چار سیٹیں حاصل کرپائی۔ اس انتخاب میں نہ صرف علاقائی پارٹیاں بری طرح سے ناکام رہی؛ بلکہ اپوزیشن میں شامل کانگریس جیسی نیشنل پارٹی بھی کچھ خاص کارکردگی پیش نہیں کرسکی۔ کانگریس پارٹی کے قومی صدر امیٹھی سے اپنی سیٹ نہیں بچا پائے اور ان کو شکشت کا سامنا کرنا پڑا؛ حال آں کہ ماضی میں اس سیٹ پر کانگریس ایک مدت سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس صدر نے کیرالہ کے پارلیمانی حلقہ "وائناڈ” سے کام یابی حاصل ہے۔
کانگریس جیسی قومی پارٹی کے پاس بھی پچپن اراکین نہیں ہیں۔ اس پارٹی نے گزشتہ انتخاب کی بنسبت اس انتخابات میں اپنے ممبران کی تعداد میں اضافہ ضرور کیا ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں، کانگریس کے صرف 44 ممبران پارلیامنٹ پہنچے تھے۔ اس بار یہ اراکین چوالیس سے بڑھ کر باون ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود اس پارٹی کے لیڈر کو حزب اختلاف کا لیڈر تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ اس کے پاس پچپن اراکین کی تعداد نہیں ہے۔
سولہویں لوک سبھا انتخابات میں اور اس سترہویں لوک سبھا انتخابات میں، کانگریس کی جو کارکردگی رہی ہے وہ نہایت ہی مایوس کن رہی ہے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ کانگریس ایک قومی پارٹی ہے۔ یہ بڑا مضحکہ خیز ہے کہ کانگریس جیسی پرانی پارٹی کے پاس دس/پندرہ فی صد ممبران پارلیامنٹ بھی نہ ہوں۔ شاید یہی مایوس کن وجہہ تھی کہ پارٹی کے صدر مسٹر راہل گاندھی نے "کانگریس ورکنگ کمیٹی” کی میٹنگ میں، اپنے استعفی کی پیش کش کی تھی۔ مگر ورکنگ کمیٹی کے ممبران نے ان کا استعفی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ پارٹی اور جمہوریت کے مفاد میں تھا کہ کانگریس صدر کا استعفی قبول کیاجاتا اور ان کی جگہ کسی دوسرے لیڈر کو صدر منتخب کیا جانا تھا۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ راہل گاندھی کا استعفی قبول کیوں نہیں کیا گيا؟
یہ حقیقت ہے کہ محترم راہل گاندھی ایک سلجھے ہوئے اور سچے سیاسی لیڈر ہیں۔ وہ ایک سیدھی سادھی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس حقیقت کہ باوجود، کچھ لیڈروں نے بڑی چالاکی سے اکیسویں صدی کے ہندوستانیوں کے ذہنوں میں ان کے حوالے کچھ ایسے سوالات پیدا کردیے ہیں جن میں وزن ہے۔ راہل گاندھی کو عام طور ان کے مخالفین اس طور پر پیش کرتے ہیں کہ ان کے ایم پی منتخب ہونے سے کانگریس کا صدر بننے تک صرف اور صرف ان کے نام کا کمال ہے اور خاندانواد کام کر رہا اور یہ موروثی سیاست (Dynastic Politics) ہے، جو جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس میں بہت حد تک سچائی بھی ہے؛ کیوں کہ اسی کانگریس پارٹی میں آپ کو کیپٹن امریندر سنگھ، اے کے انٹونی، احمد پٹیل، سشیل کمار شندے، غلام نبی آزاد، کھارگے، ڈاکٹر ششی تھرور، کمل ناتھ، پی چدم برم، دگ وجے سنگھ، کپل سبل وغیرہ جیسے بہت سے درجنوں لیڈران کی موجودگی میں، راہل گاندھی کو پہلے پارٹی کا نائب صدر، پھر صدر منتخب کیا جانا کس صلاحیت اور خدمات کی بنیاد پر ہوا؟ جب یہی بات عام لوگوں کے ذہنوں میں آتی ہے؛ تو یہ کانگریس پارٹی کے خلاف جاتی ہے کہ اس پارٹی میں صدر کا انتخاب غیر جمہوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس پارٹی میں صلاحیت وقابلیت اور خدمات کی بنیاد پر پارٹی لیڈر کا انتخاب نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ بات پھر پارٹی کے خلاف جاتی اور عوام کا رجحان دوسری پارٹی کے طرف چلا جاتا ہے۔ اس سے پارٹی کا ووٹ بڑھتا نہیں ہے؛ بلکہ گھٹتا ہے۔
نئی نسل کے ووٹرز اور سیاستدانوں کے ذہنوں میں یہ بات بار بار آتی ہے کہ اب اس پارٹی میں ہونے کا مطلب یہ کہ آپ صرف ایک خاندانواد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اس پارٹی میں لیاقت وصلاحیت اور قابلیت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اگر آپ اس پارٹی کے رکن ہیں؛ تو سب سے اہم کام یہ ہے کہ آپ ایک خاص خاندان کے لوگوں کی تعریف وتوصیف میں لگے رہیں۔ اس خاص خاندان پر اگر کوئی سیاسی حملہ ہو، تو رات دن آپ اس کے دفاع میں لگے رہیں۔ ایسی صورت میں نئی نسل کے لوگ اس پارٹی سے کیوں کر جڑیں گے اور اس کو ووٹ کیوں کر دیں گے؟ شاید اس لیے نئی نسل کے لوگ کانگریس پارٹی جوائن بھی کرنا نہیں چاہتے ہوں۔ پچھلے چند سالوں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ دوسری پارٹیوں کے ممبران کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے؛ جب کہ کانگریس کے حوالے سے اس کا فقدان ہے۔ اسی ملک میں ایک دوسری قومی سیاسی پارٹی ہے، جس میں ایک شخص ایک زمانے میں پارٹی کا معمولی رکن ہوا کرتا تھا اور وہ شخص ایک دن پارٹی کا صدر بن جاتا ہے۔ اسی پارٹی میں ایک شخص آج پارٹی کی ضلعی یونٹ کا صدر بنتا ہے، تو تین سال بعد، پارٹی کا صوبائی جنرل سکریٹری بنتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص چند سالوں میں پارٹی کا قومی صدر بن جاتا ہے۔ اب ایسی صورت میں ذہین اور قابل افراد ایسی پارٹی کو جوائن کرے گا؛ تاکہ اس کا مستقبل روشن رہے۔ پھر عام لوگوں کا رجحان بھی ایسی پارٹی کی طرف جائے اور یہی رجحان انتخابات کے زمانے میں ووٹ میں بدل جاتا ہے۔
کانگریس ملک کی قدیم ترین قومی پارٹی ہے۔ ماضی میں اس پارٹی کی بڑی خدمات اور قربانیاں رہیں ہیں۔مگر اس پارٹی میں ایک طویل زمانے سے خاندانواد حاوی ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے تھے؛ مگر آج کی تاریخ میں، اسے لوگ جم کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔ اگر کانگریس پارٹی کو بچانا ہے؛ تو اب خاندانواد کی سیاست سے اس پارٹی کو پاک کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو یہ کانگریس کا آخری وقت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اقتدار کے ایک نیتا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر راہل گاندھی اپنی پارٹی کے پچاس سالوں تک صدر رہنا چاہتے ہیں تو رہیں؛ کیوں کہ وہ ہماری پارٹی کے مفاد میں ہے۔
اس طرح کی صورت حال میں عوام کی ایک بڑی تعداد کانگریس پارٹی سے دور ہوتی نظر آرہی ہے۔ وہ کانگریس پارٹی کے حق میں ووٹ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ انتخابات کے نتائج پر غور کریں؛ تو آپ کو صاف طور پر اس کا اثر دکھائی دے گا کہ پارٹی بری طرح ناکام ہوگئی۔ اسے بری ناکامی اس لیے بھی کہا جائے گہ کہ کانگریس جیسی قومی پارٹی کے نشان پر دس فیصد اراکین بھی پارلیامنٹ کے لیے منتخب نہیں ہوسکے۔ اب اس کی ناکامی کی ذمے داری پارٹی کے صدر کو بحیثیت صدر قبول کرنی ہوگی؛ لہذا انھوں نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے پارٹی صدر کے پوسٹ سے استعفی بھی دینے کی پیش کش کی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ راہل کو ایک سے زائد بار موقع دیا گیا؛ مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے؛ تو ان کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی۔ ان کی قیادت میں جن چند صوبوں میں حکومتیں بنی ہیں، ان حکومتوں میں بھی کوئی جان نہیں ہے اور کسی دن بھی مدھے پردیش اور کرناٹک جیسے صوبوں میں سرکار گرسکتی ہے۔ مسٹر گاندھی کی کارکردگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بڑا تعجب ہوتا ہے کہ "کانگریس ورکنگ کمیٹی” نے ان کا استعفی قبول کرکے، کسی دوسرے فرد کو موقع کیوں نہیں دیا؟ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جب کچھ مدت کے بعد، اعلی ذمے داروں کی جمہوری طور پر تبدیلی ہوتی رہتی ہے؛ تو ہر ایک قابل رکن کو اپنی کارکردگی پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کو مسٹر راہل کا استعفی قبول کرکے، غیر گاندھی-نہرو پریوار سے کسی دوسرے شخص کو پارٹی کی ذمے داری سونپنی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا؛ تو یہ فیصلہ جہاں مستقبل کے اعتبار سے کانگریس کے مفاد میں تھا، وہیں ملک کی جمہوریت کےلیے بھی صحت مند ثابت ہوتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ راہل گاندھی نے اپنے استعفی کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی تھی کہ اگلا صدر گاندھی فیملی سے نہ ہو۔
***
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔