اپنے ملک کی عدلیہ کو سلام

حفیظ نعمانی

ہماری نوجوانی یا جوانی کے دَور میں جو کچھ بریلی میں کٹی اور باقی لکھنؤ میں بالغ یا نابالغ لڑکیوں کے ساتھ منھ کالا کرنے کا کہیں شور نہ سنا۔ سنبھل اور بریلی میں دیکھا اور سنا اور لکھنؤ آکر ایسی آوازیں کم ہوگئیں کہ یہ ان کا لڑکا ہے اور یہ ان کا پروردہ ہے۔ ریپ یا گینگ ریپ کا اپنی کم عمری میں لفظ بھی نہیں سنا اغلام کا شوق اور بیماری یہ شہروں میں کم اور قصبوں میں زیادہ ہوتی تھی۔ اس وقت بھی سنیما پردہ پر تھے لیکن یا تو ان کی کہانی شاہوں اور مہاراجائوں کے گرد گھومتی تھی یا اپنے اپنے شعبہ میں امتیاز کے مقابلہ میں۔ جسے عریانیت کہتے ہیں اس کے بارے میں تو اس کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ ہیروئن کے جسم کے ابھار کی پیمائش فلم دیکھنے والے نہ کرسکیں۔ اور فلموں کا یہ حال تھا کہ اگر اچھی فلم ہے تو سال بھر ایک ہی ہال میں لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح شراب کے شوق کی بات ہے تو ہم اعلیٰ طبقہ کے اشخاص کے ساتھ 14  سال رہے اور ایک دن کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ شراب پیتے ہیں۔

یہ دو لعنتیں منھ کالا کرنا اور شراب پینا اس وقت سے شروع ہوا جب سے شہروں سے جسم فروشی کے اڈے ختم کردیئے گئے اور شراب اتنی بننے لگی کہ سستی ہوگئی اور ان کا رواج انہوں نے پانی کی طرح شروع کردیا جو پاکستان سے اجڑکر آئے اور اپنی سماجی بندشوں کو پاکستان میں ہی چھوڑ آئے۔ اسی کی نقل میں ہمارے وہ نوجوان جن کے ہاتھ میں اپنی کمائی آنے لگی تھی انہوں نے بھی آڑ میں یہ شوق شروع کردیا اور جب مذہب کے باغیوں نے فلم بنائی تو انہوں نے پہلے کلائیاں کھولیں پنڈلیاں کھولیں بانہیں کھولیں اور رانیں کھول کر سینہ پر آگئے۔ ہندوستان کا مذہب دھرم اور روایتی سماجوں کی جب بندشیں خطرہ میں آگئیں تو بزرگوں نے ڈھیل ڈال دی اور ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کو ہیرو ہیروئن اور فلم کی تاریخ یاد رہ گئی۔ ان دو لعنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہر لڑکے کو ایک محبوبہ چاہئے اور ہر لڑکی کو ایک دوست۔ مزید تعلیم نے بتا دیا کہ یوروپ، امریکہ اور دنیا میں ہر لڑکے کی گرل فرینڈ ہوتی ہے اور ہر لڑکی کا بوائے فرینڈ۔ اور جسمانی ملاپ کا درجہ بوس و کنار جیسا ہوکر رہ گیا۔

ایک ہندو محلہ اور ہندو شہر میں یہ بات برسوں پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ کوئی آٹھ سال کی گنوار جاہل جس کے پائوں میں چپل بھی نہیں ہوں اور جو اپنے باپ کے ساتھ چھوٹے گھوڑے، بکریاں اور بھیڑیں سال بھر لئے ہوئے اس علاقہ سے دوسرے علاقہ گھومتی ہے وہ نسل کی مسلمان ہے یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کلمہ بھی آتا ہوگا یا نہیں لیکن مقامی لوگ جانتے ہیں کہ یہ بے مکان اور بے نشان سال بھر موسم کے اعتبار سے جموں سری نگر اور دوسرے علاقوں میں اپنے کو موسم کی مار سے بچانے کے لئے گھومتے رہتے ہیں اور امرناتھ یاترا میں گھوڑے کام آتے ہیں اور اون کے لئے بھیڑیں اور عید میں قربانی کے لئے بکرے لئے پھرتے ہیں۔

کیا کشمیر کے اقتدار میں رہ کر جموں کا ہندو اتنا گرگیا ہے کہ اس نے مندر جیسی پوجا پاٹ کی جگہ کو آٹھ سال کی بچی کے ساتھ منھ کالا کرنے کے لئے پسند کیا اسے سانجھی رام کے ذاتی مندر دیوی استھان پہنچایا اور اسی دن سے ہر دن اور ہر وقت خبر آتی رہی کہ اس کے ساتھ کیسے کیسے کیا ہورہا ہے؟ اور کسے کسے بلایا جارہا ہے۔ کیا سانجھی رام کے اندر کی مسلم دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے جو مندر بنوایا اس میں اجازت دے دی کہ ایک کمسن بچی جو مسلمان ہو اُسے پکڑ لائو اسے زہریلے انجکشن لگاکر زندہ رکھو اور جتنے مسلم دشمن ہیں ان کی دعوت کرو۔ مندر تو دیوی استھان کے نام سے بنایا تھا۔ ہم کیسے مان لیں کہ آخر وقت تک ان کو خبر بھی نہیں ہوئی ہم نے اپنی بیوی کی زمین پر ایک مسجد بنوائی ہے جو 15  برس میں اب مکمل ہوئی ہے ہم ہندوستان کے 100  کروڑ ہندوئوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہماری زندگی میں اور ہم نہ ہوں تو ہمارے چاروں بیٹوں کی زندگی میں کبھی سنیں کہ دیپا سرائے کی گول مسجد سنبھل میں ہندو لڑکی کی آبرو کی دُکان لگی ہے اور چار دن اپنے دوستوں کو بلا بلاکر سب کا منھ کالا کرایا گیا تو پہلے اس مسجد کو بموں سے اُڑا دینا اور اس کے بعد چاروں بیٹوں کو اسی مسجد کے مینار سے باندھ کر لٹکا دینا۔ فی الحال سانجھی رام کے بنائے ہوئے مندر دیوی استھان کے اوپر بلڈوزر چلواکر زمین کے برابر کردیں اور آصفہ کے باپ ماں گھوڑی اور بکروں کو لاکر اس میں آباد کریں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا تو دیوی کی پوجا کرتے رہیں۔

ہمارے لکھنے کا مقصد صرف اپنے ملک کی عدلیہ کی عظمت کو سلام کرنا تھا ایسے مقدمے بہت کم ہوتے ہیں جو مدعی ہو یا مدعا علیہ وہ ایک پیشی پر بھی موجود نہ ہو آصفہ کا باپ نہ جانے کہاں اپنے جانورون کو لئے گھوم رہا ہوگا اس کی طرف سے صرف حکومت تھی اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ صرف تین کو عمرقید ہوئی ہے ان تینوں کو پھانسی ہونا ہی چاہئے تھی۔ ایک طرف فخر ہندوستان جج ہیں اور دوسری طرف وہ پولیس جس کی ذمہ داری مقدمہ اور حادثہ کی ایک ایک بات معلوم کرکے لانے کی تھی اور وہ مندر کے مالک سے مار مارکر معلوم کرتے تم بتائو کون کون تھے اور چار دن میں کتنے آئے تھے۔ افسوس جموں کے کٹھوعہ علاقے کا پانی پی کر وہ اتنے ہندو پرست ہوگئے کہ انہوں نے بہت سے ثبوت مٹادیئے۔ اور انہوں نے وہی کیا جو حادثہ کے بعد جموں کے ہندوئوں نے ایک پارٹی ایکتا منچ بنائی اس میں ترنگے اور بھگوا جھنڈے لہرائے اور ضد کی کہ مقدمہ وہ لڑیں گے اور سی بی آئی کو بلایا جائے گا۔ وہ تو وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی تھی اس نے ایک نہیں چلنے دی جبکہ ان کی پارٹی کے دو وزیر بھی ایکتا منچ میں مل گئے اور جب پورا جموں اور وہاں کے تمام سیاسی لیڈر اور تمام وکیل بھگوا رنگ میں رنگ گئے تو مقدمہ پٹھان کوٹ منتقل کردیا گیا۔ اگر کوئی بااثر یا کوئی مسلم پارٹی اس کو اپناکر لڑتی تو ایک درجن آج جیل میں ہوتے اور انہیں اب معلوم ہوگا کہ جیل کا ایک دن اور ایک رات کیسے کٹتی ہے اور اب آخری سانس بھی ان بہادروں کو جیل میں ہی لینا پڑے گا اور وہ جب پیلے بھگوا رنگ کے ہوجائیں گے تو کوڑے کی طرح اٹھاکر ان کے وارثوں کو دے دیا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔