میر کی کوئی غزل ہو یہ کہاں ممکن ہے

 جمال ؔکاکوی

دل کی روداد نقل ہو یہ کہاں ممکن ہے
عکس بھی عین اصل ہو یہ کہاں ممکن ہے

سرخروذوقِ عمل ہو یہ کہاں ممکن ہے
حسن تدبیر سے حل ہو یہ کہاں ممکن ہے

تیری مرضی ہو تو بن جاتی ہے بگڑی خود سے
میری کوشش سے سہل ہو یہ کہاں ممکن ہے

پھول ہر طرح کے کھلتے ہیں چمن میں لیکن
خار کے بیچ کنول ہو یہ کہاں ممکن ہے

ہاتھ میں ہاتھ جو ان کا ہو گزارا ہو جائے
ان کو منظور یہ حل ہو یہ کہاں ممکن ہے

میں نے ماناکہ بہت خوب ہے فکر ِغالب
میر کی کوئی غزل ہو یہ کہاں ممکن ہے

ہم خفاہیں تو ہمیں ان کو منانا ہوگا
ان کی جانب سے یہ پہل ہو یہ کہاں ممکن ہے

یار پونجی جو لگاتے ہیں کماتے ہیں وہی
دھن تجوری میں ڈبل ہو یہ کہاں ممکن ہے

عاشقی کام جمالؔ ہے سراسر دل کا
ذہن عاشق کا خلل ہو یہ کہاں ممکن ہے

تبصرے بند ہیں۔