جنگ مسئلے کا حل نہیں
نازش ہماقاسمی
اڑی میں ہوئے ہندوستانی فوج پر دہشت گردانہ حملہ نے پورے ملک کو غمزدہ کردیا ہے !
ایسا حملہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ اس سے قبل پارلیمنٹ، ممبئی ،پٹھان کوٹ اور اب یہ حملہ ہوا ہے ،خفیہ ایجنسیوں کے مطابق ان تمام حملوں میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ رہا ہے،یہ اور بات ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ ہمارے افراد ان حملوں کے ذمہ دار ہیں ، لیکن کیا پاکستان کا یہ کہہ کر دامن جھاڑ لینا کافی ہے۔ اڑی حملہ کے بعد جس طرح کا ماحول بنا اور عوام کا غصہ پھوٹا اس سے صاف نظر آرہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر ہندو پاک کی آپسی جنگ یقینی ہے۔ خصوصاً ہمارے نيوز چینلز کے اینکروں نے تو جنگ ہونے سے پہلے ہی جنگ کی کامیابی کا راگ الاپنا شروع کردیا تھا۔ اور نفرت کی تخم ریزی شروع کردی تھی، ایسا لگتا تھا کہ دجالی میڈیا کے کارکنان خود لاہور فتح کرکے آویں گے اور اپنی بہادری کا ڈنکہ بجادیں گے زمانہ انہیں شجاعت وبہادری کے سرٹیفکیٹ سے نوازیگا ۔ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ بلکہ جنگ بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ وزير اعظم نریندر مودی نے جنگ کے امكانات کو مسترد کرکے نيوز اینکروں کے پورے ارمان کو چکنا چور کردیا ہے۔ جس سے عوامی سطح پر وزیراعظم مودی کے تئیں ایک اچھا پیغام گیا ہے اور ملک کے دانشور طبقہ نے بھی وزير اعظم کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ مودی جی نے جس طرح سیاسی طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا ہے وہ قابل ستائش ہے، پاکستان کو سب سے بڑا جھٹکا نومبر میں منعقد ہونی والی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ ہے ۔ ہندوستان کے شمولیت سے انکار کے بعد بنگلہ دیش، نیپال اور افغانستان نے بھی واضح الفاظ میں اس کانفرنس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس نے پاکستان کو ساری دنیا کے سامنے شرمسار کردیا ہے ،لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو یکے بعد دیگرے غلطی پر غلطی کرتا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں نواز شريف نے کشمیر کے مسئلے کو چھیڑ کر خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے۔اس سب کے باوجود ہندوستان کا صبر و تحمل سے کام لینا ایک دانشمندانہ فیصلہ رہا ہے،جس طرح اب تک ہندوستان نے اپنے صبر و تحمل کا مظاهرہ کیا ہے اسی طرح مزید صبر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو جنگ کے ميدان میں لانے کے بجائے سیاسی طور پر کمزور کرنا زیادہ اہم ہے تاکہ وہ پاکستان میں پھل پھول رہے دہشت گردوں سے خود کو الگ کرے اور جارحانہ طريقے پر ان کے خلاف کاروائی کرے۔ مگر ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ہے،کیونکہ ماضي کے واقعات اس بات پر شاہد ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی ان چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔لیکن اب تو جو ہونا تھا وہ ہوہی گیا ۔ اڑی حملوں کے بعد موجودہ حکومت پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سب سے پر ایک سیکولر اور کثیر الآبادی والے ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے نہایت ہی صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے عوام کو یہ باور کرایا تھا کہ ہم ضرور ان حملوں کا بدلہ لیں گے۔ لوگ اس وقت سمجھ نہیں پارہے تھے ، ان پر طنز کررہے تھے لیکن کل ان کا قول پورا ہوتا ہوا نظر آیا کہ ’مجرموں کو سبق سکھایا جائے گا‘ ہندوستانی عوام مودی جی کے ۵۶؍ انچ سینے کا گزشتہ روز مشاہدہ کرلیا اور اس قدر خاموشی کے ساتھ سرجیکل اسٹرائیک (چھاپہ ماری مہم) کے ذریعہ تیس سے زائد دہشت گردوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ لائن آف کنٹرول کے اندر ہوئے اس واقعے سے ہندوستانیوں کے غمزدہ چہرے کھل اٹھے ہیں،فوج کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس سے اچھا طريق اور کیا ہوسکتا ہے کہ دشمنوں کے گھروں میں گھس کر انہیں مار گرایا جائے۔ یہ ایک اچھا اور سوچا سمجھا قدم ہے، اس طرح کا حملہ دشمنوں کو خوف میں مبتلا رکھنے کیلئے کافی ہے ۔ لیکن بات اگر یہاں سے نکل کر باضابطہ جنگ کی صورت اختیار کر جائے تو یقینا نقصان سب کا ہوگا۔ اور کچھ ایسی طاقتیں ہند۔پاک میں کشیدگی اور جنگ کے امکان کو بڑھاوا دینے میں لگی ہیں جن سے ان کی اسلحوں کی سوداگری کارگر ہو۔ وہ دونوں ملکوں کے مابین دجالی میڈیا کے ذریعہ یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لئے کررہی ہے واقعی اگر ان طاقتوں کے عزائم پورے ہوگئے تو ہوسکتا ہے کہ مشرق وسطی کی طرح برصغیر بھی جنگ کی لپیٹ میں آجائے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو چاہئے کہ وہ دجالی میڈیا کے جھانسے میں نہ آویں بلکہ اپنے امن کے کاررواں کو آگے بڑھائیں تاکہ ماحول پرامن رہے۔ کیوں کہ جنگ سے کسی کا فائدہ نہیں اس میں سراسر نقصان ہی ہے۔کسی کا کم اور کسی کا زیادہ ،جنگ کی صورت میں لڑائی اور معاملات صرف فوج تک محدود نہیں رہتے ہیں اس کا سیدھا اثر ملک کی عوام پر پڑتا ہے ۔بسا اوقات جس قدر اموات فوج کے جوانوں کا مقدر نہیں بنتي ہے اس سے کہیں زیادہ عوام اس کا شکار ہوجاتی ہے ۔ علاوہ ازیں اقتصادي نقصان اپنی جگہ پرہےمعشیات تباہ ہوجاتی ہیں لوگوں کو بھوک پیاس کی شدت کو سہنا پڑتا ہے تاریخ گواہ جنگ طاقتور ملکوں کو توڑ کررکھ دیا اور بیشتر ممالک صدیوں تک اس کی بھرپائی میں ناکام رہے جاپان جیسا ترقی یافتہ ملک اسکی زندہ مثال ہے۔ ایسی صورت میں اگر جنگ سے گریز کیا جائے تو یہی مناسب ہے۔ابھی وزير اعظیم نے سندھ کے آبی معاهدہ کے متعلق بیان دیا ہے، یہ ہندوستانی تہذہب کے منافی ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کا پانی بند کریں، پھر ایسی صورت میں جبکہ وہ ہمارا پڑوسی بھی ہو،پانی بند کرنے کی صورت میں نقصان تو دونوں کا ہوگا، کیونکہ ہمارے پاس بند کیلئے مناسب انتظام نہیں ہے، اور پانی اگر بند ہوجائے تو پاکستان کے عوام کا زیادہ نقصان ہوگا نہ کہ سیاسی گلیاروں میں بسنے والے آقاؤں کا ،اسلئے پانی نہیں روکنا چاہے دشمن ہی کیوں نہ ہو اسے اس طریقہ پر اذیت دینا انسانی ضابطہ کے خلاف ہے کوئ قانون اس طریقہ کار کو درست نہیں کہتا،بلکہ ہندوستان نے جس قدر وسعت ظرفی کا اب تک مظاہرہ کیا ہے یہی بہتر ہے کہ اسے مزید بڑھاوا دیا جائے کیوں کہ دونوں ملکوں کے عوام جنگ نہیں چاہتے ہیں وہ تو میڈیا اور کچھ اسلحوں کے سوداگروں کو یہ بھوت سوار ہے کہ جنگ ہو ۔ جن لوگوں کو جنگ کا بھوت سوار ہے وہ سرحدی علاقوں کے افراد سے جاکر پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔انکا درد اور غم دیکھیں گھروں کو چھوڑنے کی تکلیف محسوس کریں، وہ صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں خوشحال زندگی بسر کریں ۔ بموں اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ سے دور رہیں کیونکہ انہیں خاک و خون میں تڑپتی لاشیں بہتا لہو اب تک یاد ہے اپنوں کی جدائی کا غم وہ ابھی بھولیں نہیں ہیں جو ایک خوفناک بھیانک خواب کی مانند ان کا پیچھا کررہے ہیں جس سے وہ چھٹکارا حاصل کرناچاہتے ہیں اور زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرنا چاہتے ہیں نہ کہ جنگ کے ذریعہ مزید اس کرب میں جیناچاہتے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔