اس سسٹم سے بدبُو آرہی ہے

تسنیم کوثر

ایک خبر ہے کہ الیکشن کمیشن اب اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران ریاست کے تھانوں کی نگرانی کرے گا، کیونکہ اسے شک ہے کہ تھانے ہی الیکشن میں رکاوٹ کے سب سے بڑے اڈے ہیں. ملک کے چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی نے لکھنؤ میں کہا کہ انتخابات میں ان کی ساری توجہ تھانوں پر ہو گی۔ اگر تھانے درست نہیں ہوں گے تو انتخابات درست نہیں ہو گا۔
کچھ ماہ بعد یوپی میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، جس کے لئے الیکشن کمیشن نے کوشش شروع کر دی ہے۔کمیشن الگ الگ اضلاع میں ذمہ دار افسروں کے ساتھ ملاقات کرکے حکمت عملی بنا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اس بار پولیس اسٹیشن لیول کی نگرانی بہت سخت طریقے سے کی جائے گی، کیونکہ الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس اسٹیشن سطح پر اگر مؤثر کارروائی ہوگی تو ہمارے سارے انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے۔
بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی کی حکومتوں پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ اقتدار میں آنے پر خصوصی فرقے اورذات کے پولیس والوں کو سارے اہم تھانوں کا انچارج بنا دیتی ہیں۔ اکھلیش حکومت پر بھی ایک خاص ذات کے ایس ایچ او بحال کرنے کا الزام ہے۔ الیکشن کمیشن کو شک ہے کہ حکومت من پسند تھانےداروںسے انتخابات کو متاثر کر سکتی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ جن تھانوں کا انچارج انسپکٹر کو ہونا چاہئے، وہاں سب انسپکٹر انچارج ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی نے کہا کہ جن بڑے بڑے پولیس تھانوں میں انسپکٹر کو انچارج ہونا چاہئے، وہاں سب انسپکٹر انچارج ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے اس کی؟ اگر اسے ٹھیک نہیں کیا گیا تو الیکشن کمیشن سخت موقف اختیار کرے گا۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ یوپی کے ڈی جی پی جاويد احمد ہیں انکا کہنا ہے کہ تھانوں سے کوئی رکاوٹ نہیں ہونے دی جائے گی۔ ابھی تہوار کا موسم ہے، ایسے میں فورا تھانوں میں بڑی تبدیلی مناسب نہیں ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے بھی تہوار ختم ہونے تک کی مہلت دےدی ہے۔ اس کے بعد انکی ہدایت پر عمل ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اتر پردیش کی پولس ہی بدنام ہے اور کیا صرف الیکشن کے انعقاد کی حد تک؟باقی سول معاملوں میں ؟ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھئے قلعی کھل جائے گی سوائے فرض کی ادئیگی کے یہ حضرات سب کام کرتے ہیں ۔ اب فوج کی مثال لیجئے ایک کرنل اسمگلنگ کا سونا ڈکار گئے اور انکو پکڑ کر چھوڑ دیا گیا یہ کہہ کر کہ جناب کو اجابت میں تکلیف ہے کیونکہ جیل میں کموڈ کی سہولت نہیں۔یہ ہے انصاف؟کرنل “ڈان “نکلا، فوج کے ماتھے پر بدنامی کا داغ لگا لیکن جلد مٹا دیا گیا کیوں؟یاد کیجئے ابھی مئی جون کی بات ہے ایک خبر آئی تھی کہ کروڑوں روپے کا سونا لوٹنے کے الزام میں فوج کے کرنل کو گرفتار کر لیا گیا۔میڈیا کے مطابق فوج کے کرنل کو شمال مشرقی ریاست میزورم کے دارالحکومت ایزوال میں کروڑوں روپے کا سونا لوٹنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔مذکورہ کرنل کا تعلق فوج کے آسام رائفلز سے ہے جن کے حکم پر ان کے دستے کے جوانوں نے سمگل کیا گیا سونا لوٹ لیا تھا۔آسام رائفلز پر میزورم سے ملحق بھارت اور میانمار کی سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔کیا یہ معاملہ ڈکیتی، مجرمانہ سازش، دھمکی اور بے ایمانی کا نہیںہے؟ڈکیتی کی یہ واقعہ گذشتہ سال 14 دسمبر کی رات کو ہوا تھا۔پولیس کے الزامات کے مطابق آسام رائفل کی 39 ویں بٹالین میں اس وقت تعینات کمانڈنٹ کرنل جسجیت سنگھ کی ہدایت پر ان کے ماتحت اہلکار بندوق کی نوک پر تقریبا 14 کروڑ 50 لاکھ روپے کا سونا ایزوال لنگ لیئی ہائی وے پر لوٹ کر وہاں سے فرار ہوگئے۔یہ سونا میانمار سے سمگلنگ کرکے لایا گیا تھا اور کرنل جسجیت سنگھ کو اس کے متعلق خفیہ معلومات تھیں۔ایزوال کی پولیس کے الزامات کے مطابق اس ہائی وے ڈکیتی کی سازش میں کرنل سنگھ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔کرنل سنگھ نے جدید ہتھیاروں سے لیس اپنے جوانوں کو سمگلنگ کے تحت لائے گئے سونے کو لوٹنے کی ہدایت دی تھی۔جس گاڑی میں یہ سونا تھا اس کے ڈرائیور نے 21 اپریل کو تھانے میں ایک رپورٹ درج کراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ 39 ویں آسام رائفل کے مسلح اہلکاروں نے ہی ان کی گاڑی سے سونے کی 52 ٹکیہ لوٹ لیے تھے۔پولیس کی جانب درج رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ڈرائیور کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی اسکےرشتہ داروں اور کچھ دوستوں سے بات کرنے پر ملے لوگوں نے ہمت دلائی جس کی وجہ سے اس نے پولیس کو مطلع کیا۔پولیس نے واقعے میں ملوث آسام رائفل کے ان آٹھ اہلکاروں کو بھی حراست میں لیا ۔پولیس کا دعوی ہے کہ گرفتار کیے گئے آٹھ اہلکاروں نے تحقیقات میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنی بٹالین کے کمانڈنٹ کرنل سنگھ کے کہنے پر یہ جرم کیا۔ پٹھان کوٹ حملے میں کیپٹن سلویندر کے مشکوک کردار کو بھی ہم نہیں بھول سکتے ۔سچائی کڑوی اور حقیقت تلخ ہے اس سسٹم سے بدبو آ رہی ہے۔ہمارے ملک کی پولس اور فوج اخلاقی قدروں کی پامالی کی بد ترین مثال ہے۔معاملہ الیکشن کا ہو یا سرحدوں کی حفاطت کا ایمانداری کی کسوٹی پر ان میں سے کئی پھسڈی ثابت ہونگے ۔ہمارا نظام جمہوریت اپنے چاروں ستون سمیت اوندھے منہ گر چکا ہے اور میڈیائی نیوکلر بردارفوج جن میں سے کئی بد عنوانی کے الزامات میں گرفتار ہیں اسٹوڈیو میں بیٹھ کر دشمن کو للکار رہے ہیں۔۔۔تھوتھا چنا باجے گھنا
بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی عروج پر ہے۔بھارتی فوج کے جراحانہ انتباہ کے بعد سے کنٹرول لائن اور پاک بھارت سرحد پر الرٹ بڑھا دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے درمیان جوہری حملے کے خدشات بھی تیز ہیں۔ تاہم بھارت کی جانب سے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی گئی لیکن پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اس طرح کی عندیہ دے چکے ہیں۔ انڈیا سپینڈ کی رپورٹ کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان ہیروشیما میں گرائے گئے بم کے برابر وزن والے 100 جوہری ہتھیاروں سے جنگ ہو گئی تو 2.10 کروڑ لوگ سیدھے سیدھے مارے جا سکتے ہیں آدھی اوزون سطح تباہ ہو جائے گی۔ ساتھ ہی دنیا بھر میں مون سون بگڑجائے گا اور کھیتی کو شدید نقصان هوگارپورٹ کے مطابق امریکہ کی رٹز یونیورسٹی، كولارےڈو-بلڈر یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کی 2007 میں ہوئی اسٹڈی کے مطابق جوہری حملے کے پہلے ہفتے میں دو کروڑ لوگ دھماکے کے اثرات، جلانے اور ریڈییشن سے مر جائیں گے۔ اس جنگ سے پڑنے والے اثر سے دنیا بھر میں دو کروڑ لوگ بھوکے مر جائیںگےایٹمك ساٹسٹس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس سال 2015 میں 110-130 جوہری ہتھیار تھے۔ وہیں ہندوستان کے پاس 110-120 جوہری ہتھیار ہیں۔ پاکستان کے 66 فیصد جوہری ہتھیار بیلسٹک مزائلز پر لگے ہیں۔یہ ہتھیار زمین پر مار کرنے والے مزائلز پر لگائے گئے ہیں۔ پاکستان ایٹمی حملوں کے لئے ہی هدف میزائل کو تیار کر رہا ہے۔ ان میزائلوں کے نشانے پر بھارت کے چار شہر دہلی، ممبئی، چنئی اور بنگلور ہیں۔وہیں غوری میزائل کو جے پور، احمد آباد، پونے، بھوپال اور ناگپور جیسے شہروں کو نشانے پر رکھ تعینات کیا گیا هےبھارت کے پاس 56 ارتھ اور اگنی میزائل ہیں جو کہ زمین سے زمین پر مار کرنے کے قابل ہیں۔ یہ مزائل بھارت کے 53 فیصد جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چھوٹے سائز کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی کو ناشانا بنایا جائے گا۔ ہندوستان کے پاس ایٹم بم داغنے والا ایئر کرافٹ زگوار بھی ہے۔ اس کے علاوہ دو جنگی جہاز سے بھی جوہری ہتھیار سے لیس میزائل داغی جا سکتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے کبھی بھی پاکستان کو جوہری حملے کی دھمکی نہیں دی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ اگر پاکستانی حملے میں 10 کروڑ بھارتی مارے گئے تو بھارت کا جوابی حملہ پورے پاکستان کو مٹا دےگا۔اس بیچ پنجاب حکومت نے سرحد سے 10 کلومیٹر کے علاقے میں دیہات کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ پنجاب کے فضلکہ اور فیروزپور ضلع کے سینکڑوں دیہات کی عورتیں اور بچے اپنے رشتہ داروں کے گھر چلے گئے ہیں۔تاہم، مرد اپنے گھروں پر ہی ٹھہرے ہیں۔ ایسے ہی حالات سال 1965، 1971 اور 1999 کی جنگ کے وقت تھے۔ گائوں والوں کا کہنا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ اس سے سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔