کیا امن کیلئے جنگ ضروری ہے؟

عبدالعزیز

عام طور پر جو لوگ جنگجویا نہ پالیسی یا جنگجویانہ وطن پرستی یا جارحانہ قوم پرستی کے قائل ہوتے ہیں ان کو جنگ وجدل کے سوا کوئی اور چیز نہیں سوجھتی۔ ایسے لوگ حقیقت میں دہشت گردوں اور خونخوار انسانوں کے دوست ہوتے ہیں۔ جنگ ایک جنون ہے جو انسان کو یا کسی جماعت یا قوم و ملک کو پاگل کر دیتی ہے۔ اس سے عقل و دانش، دل و دماغ سے کام لینے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے۔
ہندستان جب سے دو ٹکڑوں یا دو ملکوں میں تقسیم ہوا جنگ کا جنون دونوں ملکوں میں اور ملک کے اندر فرقوں میں بڑھتا چلا گیا۔ تقسیم سے پہلے غیر منقسم ہندستان کی تصویر یا تاریخ قابل قدر ہے۔ ہندو مسلمان مل جل کر رہتے تھے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں کام آتے تھے۔ اگرچہ چھوٹے موٹے جھگڑے ہوجاتے تھے مگر فوراً ختم ہوجاتے تھے اور لڑنے والوں کو صلح کرنے والوں کی بڑی تعداد اکٹھا کر دیتی تھی۔ ان کے زخم مندمل ہوجاتے تھے۔
بدقسمتی سے تقسیم کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ وہ طاقتیں جو گرم ماحول یا فرقہ پرستانہ ماحول کے انتظار میں تھیں ان کی بن آئی۔ سرحدوں پر دونوں فرقے کے لوگوں نے حیوانیت اور بربریت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ انسانیت آج تک شرمندہ ہے۔ ہزاروں لوگ نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے گلے ایک دوسرے نے کاٹ دیئے۔ چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی ظالموں نے نہیں بخشا۔ جو لوگ سرحد پار کرکے اُس پار گئے یا اِس پار آئے ان کا کام فرقہ پرستی، دہشت گردی کے شعلوں کو بھڑکانا اور آگ اور خون کا ماحول پیدا کرنا زندگی کا مقصد بن گیا۔ دونوں طرف ایسے لوگوں کی آؤ بھگت ہوئی۔ ہندستان میں پچاس ہزار سے زائد فسادات ہوئے۔ لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنے۔ پاکستان میں بھی سیکڑوں فسادات ہوئے۔ ہزاروں لوگوں کی جان گئی۔
اتنے خراب اور بدتر ماحول ہونے کے باوجود دونوں ملکوں میں ایسے طبقے رہے اور ہیں جو جنگ و جدل کے بجائے امن و صلح کے حامی تھے۔ اس کے باوجود تین جنگیں ہوئیں۔ ایک جنگ میں پاکستان کو اپنے ایک حصہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دو جنگوں میں ہزاروں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں اور لاکھوں لوگ تباہ برباد ہوئے۔ مشرقی پاکستان جو پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا ایسا لگتا ہے کہ وہ آگ کے دہکتے گولے یا آتش فشاں پر ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ وہاں انسانوں سے چالیس پچاس سال بعد بدلہ لیا جارہا ہے۔ انھیں ناحق سولیوں پر چڑھایا جارہا ہے۔ حکومت ایسا لگتا ہے جیسے انسان کے خون کی پیاسی ہے۔
تقسیم ایک فیصلہ تھا جو فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہوا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں فرقہ پرستی بڑھی، جنگیں ہوئیں اور فسادات پر فسادات ہوئے۔ جنگ و جدل، فتنہ و فساد سے دونوں ملکوں میں کم و بیش فرقہ پرستی، دہشت گردی کو پنپنے کا موقع ملا۔ پاکستان دہشت گردوں کی لپیٹ میں آگیا۔ ایک قسم کے تو وہ دہشت گرد ہیں جو پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف ہیں وہ حکومت اور فوج سے لڑ لڑکر کر تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ دوسری قسم کے جو دہشت گرد ہیں انھیں پاکستان یا فوج تربیت اور ٹریننگ دیکر کشمیر کی آزادی کیلئے استعمال کر رہی ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ سارے ہندستان میں دہشت گردانہ حملے کرکے بے گناہوں اور معصوموں کی جان کے درپے ہوتے ہیں۔ ہندستان کے اندر جو دہشت گردی پنپ رہی ہے وہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ پنپ رہی ہے۔ اب تک ملک بھر میں آر ایس ایس کے لوگوں نے بیس پچیس بم دھماکے کئے ہیں۔ ان کی دہشت گردی کی سزا بھی مسلمان نوجوانوں کو دی جاتی رہی۔ بمبئی پولس اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے پردہ فاش کیا جس کی وجہ سے آر ایس ایس کے لوگ پکڑے گئے۔ کرکرے کو جس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا پڑا ، اس کے قتل کے بعد بھی مقدمے تقریباً اٹھارہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت ایسے لوگوں کی خیر خواہ ہے اور انھیں رہا کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ بمبئی پولس کے سابق آئی جی مسٹر ایس ایم مشرف کی تحقیق اور تفتیش کے مطابق آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس پر ان کی کتاب شائع ہوچکی ہے اور چھ سات زبانوں میں دستیاب ہے۔ کرکرکے پر ہی ان کی کتاب ہے جس میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کا قتل بھی آر ایس ایس کے لوگوں کے ہاتھوں ہوا ہے۔ ان کی کتاب، بیان یا تقریر کو کسی نے بھی آج تک چیلنج نہیں کیا ہے۔ آر ایس ایس سے جو دہشت گردی پیدا ہوئی ہے وہ فرقہ پرستی یا فرقہ وارانہ فساد کی دوسری شکل ہے۔ یہ لوگ سرحد پار جاکر پاکستانی دہشت گردوں کی طرح نہ بے گناہوں پر حملے کرتے ہیں اور نہ فوجیوں پر۔ یہ صرف مسلمانوں یا کبھی کبھار عیسائیوں کو اپنا لقمہ اجل بناتے ہیں ، اس پر وہ نازاں ہیں اور وہ اسے دیش بھکتی یا وطن پرستی کہتے ہیں جو ایک قسم کی جنگی پالیسی ہے جو دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے ارباب اقتدار تک پہنچ گئی ہے۔
آج کے حالات: پاکستان کی حکومت اور وہاں کی فوج کی پالیسی جنگجویانہ سمجھ میں آتی ہے۔ معاملہ کشمیر کا یقینا سنگین ہے مگر اسے افہام و تفہیم یا بات چیت سے سلجھانے کی کوشش کرنا چاہئے، چاہے جتنی مدت صرف ہوجائے مگر جنگ کو ہی مسئلہ کا حل سمجھنا نادانی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی دہشت گرد ایک نہیں کئی بڑے بڑے حملے ہندستان کی سرزمین پر کرچکے ہیں۔ مسٹر نریندر مودی اپنے جنگی جنون اور فرقہ پرستی کیلئے مشہور تھے مگر وزیر اعظم کی رسم حلف برداری سے پہلے میاں نواز شریف کو تقریب میں شرکت کی دعوت دے کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ لاہور میں افغانستان سے ہندستان آتے ہوئے نواز شریف کے گھر چائے ناشتہ کرنے چلے گئے۔ پٹھان کوٹ پر حملہ ہوا تو صبر و تحمل سے کام لیا اور اس گتھی کو سلجھانے کیلئے پاکستان کی تفتیشی ٹیم کو ہندستان آنے کی دعوت دے ڈالی۔ اہل ملک میں جس کی مخالفت بھی ہوئی مگر مسٹر مودی نے پرواہ نہیں کی۔ بدقسمتی سے حزب المجاہدین کے سوشل میڈیا کے مقبول ترین سربراہ برہان وانی انکاؤنٹر میں فوج کے ہاتھوں مارے گئے جس کی وجہ سے کشمیر میں آزادی کی نئی لہر پیدا ہوگئی۔ اگر کشمیری تشدد کے بجائے پر امن مظاہرے کرتے تو شاید کشمیری مسلمانوں کی تباہی و بربادی جتنے بڑے پیمانے پر ہوئی ہے وہ ہرگز نہیں ہوتی اور دنیا کی طرف سے بھی ہمدردی ملتی مگر تشدد کا پرچم اٹھاکر جس طرح آگے بڑھے اس سے اپنے مقصد کو ہی شکست دینے پر تل گئے ہیں۔ پاکستان نے جو ہمدردی دکھائی اس سے وہ تشدد پر مزید آمادہ ہوئے۔ ہندستانی فوج یا حکومت بھی ظلم و زیادتی سے باز نہیں آئی اور معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوگیا۔ اوری سیکٹر میں پاکستانی دہشت گردوں نے نہتے اٹھارہ فوجی نوجوانوں کو جب گولیوں سے بھون دیا تو پورے ہندستان میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور فرقہ پرستوں اور جنگ کے جنونیوں کو سنہرا موقع ہاتھ آگیا لیکن ملک کے ایک طبقہ کی میڈیا کے علاوہ جنگ کے جنون کو کم کرنے کی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے کوشش کی۔ سیاسی جماعتوں میں سے بھی بہت سی جماعتوں نے جنگی جنون کو کم کرنے کی تلقین کی۔ مسٹر مودی نے کوزی کوڈ میں یا اس سے پہلے جو بیانات اور تقریریںکیں اس میں بھی صبر و تحمل کا زیادہ مظاہرہ کیا نسبتاً جنونیت سے لیکن ان کی پارٹی کے اندر سے دباؤ بڑھتا رہا اور میڈیا کا ایک حصہ بھی دباؤ پر دباؤ ڈالتا رہا۔ آخرش حکومت ہند کو مودی کی سربراہی میں سرجیکل حملے پر آمادہ ہونا پڑا جس کی وجہ سے اب دونوں ملکوں میں حد سے زیادہ تناؤ بڑھ گیا ہے۔ اگر نیو کلیئر پاور کا ڈر دونوں ملکوں کو نہ ہوتا تو شاید اب تک جنگ کے بگل بھی بج جاتے اور جنگ برپا ہوجاتی۔
اس وقت بھی میڈیا کا ایک حصہ دونوں ملکوں کے حالات کو نارمل کرنے اور معمول پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، جس روز سرجیکل اسٹرائیک ہوا ہندستان میں اسٹاک مارکیٹ کا رد عمل بہت برا ہوا جو اس بات کی علامت ہے کہ ملک ہندستان کا ایک بڑا حصہ جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ صحافیوں میں سے بہتوں نے ملک کے اہل سیاست کو تلقین کی کہ جو کچھ کیا گیا اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ دونوں ملک جل کر خاکستر ہوجائیں گے۔ کسی کو کچھ بھی ہاتھ نہیںآئے گا سوائے تباہی وبربادی کے۔ پاکستان کے صحافیوں اور اخبارات کے مدیروں میں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے پاکستان کو جنگی جنون سے باز رہنے کی نصیحت کی۔ نیوز ویک پاکستان کے مشیر ایڈیٹر (Consulting Editoe) نے اپنے مضمون میں کئی واقعات پیش کرکے لکھا ہے کہ ہم لوگ ایک زمانہ میں اتنے خراب نہ تھے مگر آج کی حالت یہ ہے کہ پاکستان کو معلوم نہیں ہورہا ہے کہ وہ کیا کھو رہا ہے یا کیا کھوچکا ہے اور ہندستان کو پتہ نہیں ہے کہ اسے کیا کامیابی مل رہی ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ یکم اکتوبر سے ایک روز پہلے اننی بیسنت کی برتھ انیورسری تھی۔ روزنامہ ڈان (Dawn) نے دیارام گدومل نیشنل کو کالج حیدر آباد سندھ میں ان کی برسی منائی۔ یہ کالج ایک ہندو خیر خواہ دیوان بولچند سہانی نے 1917ء میں قائم کیا تھا یہی اس زمانہ میںبمبئی سے سب سے قریب کالج تھا۔ اس وقت ہم لوگ اتنے برے نہ تھے۔
ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کے امن پسند شہری اپنے اپنے ملکوں میں جنگی جنون کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ ممکن ہو تو امن و محبت کا وفد دونوں جگہوں میں جائے اور امن و محبت کا پیغام دے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ بھائی چارہ اب غیر متعلق چیز (Irrelevant) ہے، میرے خیال سے وہ جنگ کے راستہ پر ہیں جو تباہی کی طرف جاتا ہے اور جو لوگ امن کیلئے جنگ کو ضروری سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ جنگ تو خود ہی ایک لاینحل مسئلہ ہے۔ جنگ سے نہ کبھی مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ حل ہوگا۔ پوری انسانی تاریخ اس بات کی گواہی پیش کرتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔