شام : اب خاموشی جائز نہیں

 شاہ اجمل فاروق ندوی

2011 سے شام کا مسئلہ شروع ہوا تھا. پانچ چھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے. عالمی طاقتوں کی مداخلت، داعش کے پر اسرار بھوت، سپر پاور کی منافقت، عرب ممالک کی بے ضمیری و بے غیرتی، ایران کے بدترین فرقہ وارانہ مزاج اور اس طرح کے مختلف معاملات نے شام کے مسئلے کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے. حالاں کہ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ شام کی عوام دوسرے عرب ممالک کی طرح اپنے ڈکٹیٹر کو اب مزید کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتی تھی. لیکن فرعونِ شام کی شیطنت پوری طرح جاگ اٹھی اور وہ "انا ربکم الأعلى” کا نعرہ لگا کر سامنے آگیا. اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ:

*تقریباً چار لاکھ مسلمان (سنّی) بری طرح قتل کیے جا چکے ہیں.

*لاکھوں گھر کھنڈر بنائے جا چکے ہیں.

*لاتعداد زندہ افراد کے پاس کھانے کے لیے کتے بلّی اور پینے کے لیے ناپاک پانی یا پیشاب تک نہیں ہے.

*سب سے تاریخی اور مبارک شہر حلب، بدترین گولہ باری اور بربادی سے گزر رہا ہے.

*سیکڑوں لوگ ملک سے بھاگتے ہوئے سمندر میں ڈوب چکے ہیں.

*لاتعداد لوگ یورپی ملکوں میں پناہ ملنے کے بدلے میں عیسائی ہوچکے ہیں.

* اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا ہے. مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے.

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں ہم اور آپ کیا کریں؟

 لہذا چند باتیں پیش کی جا رہی ہیں، جو ہم میں سے اکثر لوگ بآسانی کر سکتے ہیں:

1⃣ دعاء مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے. روزانہ اہتمام کے ساتھ کچھ وقت نکال کر شامی مسلمانوں کے لیے اللہ تعالٰی کے دربار میں گڑگڑا کر دعا کیجیے.

2⃣ شام کے حالات سے باخبر رہیے. اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور نیوز سائٹس وغیرہ کے ذریعے شام کے حالات پر پوری نظر رکھیے. سب سے عام اور معتبر نیوز سائٹ "الجزیرۃ” کی ہے. آپ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں. اس موضوع پر ہمارا فیس بُک پیج بھی کچھ تعاون کر سکتا ہے، اس کا لنک یہ ہے:

3⃣ شام کے حالات کے متعلق پڑھے لکھے لوگوں میں بے داری لائیے. اس کے لیے انہیں اچھے مضامین پڑھنے کو دیجیے. چھوٹے چھوٹے پروگرام رکھیے یا انہیں مسلسل شام کی خبریں بھیجتے رہیے.

4⃣ میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فرعونِ شام بشّار الاسد کے مظالم کو عام کیجیے اور اس شیطان کی حقیقت دنیا کے سامنے پیش کیجیے.

5⃣ ہندوستان کی بڑی ملّی تنظیموں جیسے جماعت اسلامی، جمعیۃ علماء (دونوں گروپ)، جمعیۃ اہل حدیث (دونوں گروپ)، مسلم مجلس مشاورت وغیرہ کے ذمے داران کو مسلسل خطوط لکھ کر یا فون کر کر کے اس بات کی طرف متوجہ کیجیے کہ وہ اس مسئلے پر آواز اٹھائیں، احتجاج کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں. ان تنظیموں کے علاقائی دفاتر پر خود پہنچیے اور انھیں اس جانب متوجہ کیجیے.
(ان جماعتوں کے مرکزی دفاتر کے پتے اور فون نمبرات ہم سے حاصل کر سکتے ہیں)

6⃣ اپنی اپنی مسجدوں کے اماموں کو متوجہ کیجیے کہ وہ خطبوں میں مقدس سرزمین شام کے حالات بیان کریں یا کم سے کم بآواز بلند وہاں کے مسلمانوں کے لیے دعا ضرور کرائیں.

7⃣ دہلی میں موجود شام کے سفارت خانے کو مسلسل خطوط لکھیے یا فون کیجیے اور حیوانیت کا یہ ننگا ناچ روکنے کی تلقین کیجیے. اسی طرح آپ عرب ممالک کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ ٹھوس اقدامات کریں. سب سے زیادہ ضرورت ایرانی سفارت خانے سے رابطے کی ہے. کیوں کہ شام میں یہ سارا شیطانی کھیل اسی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کھیلا جا رہا ہے. آپ ایرانی سفارت خانے سے رابطہ کرکے اسے ناپاک عزائم سے باز رکھنے کی سنجیدہ مگر پرزور تلقین کیجیے.

ممکن ہے آپ کے ان کاموں سے کچھ فرق نہ پڑے، لیکن آپ کے دو فائدے ہر حال میں ہوں گے:

1- آپ کو فکرِ امت کا عظیم اجر ملے گا.
2- آپ کا ضمیر زندہ رہے گا، ایمان تازہ ہوگا اور دل موت سے بچ جائے گا.
یہ وہ کام ہیں، جو بآسانی کیے جاسکتے ہیں اور ہمارے نزدیک اب ان کاموں کو نہ کرنے اور چپ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے.

تبصرے بند ہیں۔