خوف بکھراہے دونوں سمتوں میں!

نایاب حسن

گزشتہ دنوںکشمیر کے اڑی سیکٹرمیں واقع فوجی کیمپ پر دہشت گردانہ حملے میں ۱۸؍فوجیوںکی ہلاکت کے بعدہندوپاک کے تعلقات میں تلخی و تندی کی نئی لہر پیداہوگئی ہے،انہی دنوںمیں اقوامِ متحدہ کابھی عام اجلاس ہوا،جس میں دونوںملکوںنے ایک دوسرے پر الزام لگانے اورایک دوسرے کونیچادکھانے کی اپنی حد تک بھرپورکوشش کی۔دوسری طرف قومی میڈیاہے،جس نے اپنے طورپرہندوستان کومیدانِ جنگ میں اترنے کے لیے برانگیختہ کرنے کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کررکھی ہے،ٹی وی چینل والوںنے نیوزروم کووارروم میں تبدیل کردیاہے اور ایسا لگتاہے کہ ہندوپاک کے مابین ممکنہ جنگ میں یہی نیوز اینکرس سپہ سالاراور فوجی سربراہ کارول اداکرنے والے ہیں،ہندوستانی عوام کاایک بہت بڑاحصہ بھی ایساہے،جویہ چاہتاہے کہ ہندوستان پاکستان کومنہ توڑجواب دے اور ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے میدانِ کارزارمیں کود پڑے،خاص طورسے وہ لوگ اور وہ سیاسی پارٹیاں ،جوبی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حلیف ہیں اورجنھوں نے گزشتہ عام انتخابات میں مودی کی برانڈنگ’ون مین آرمی‘کی طرح کی تھی ،ان کا اصرارہے کہ حکومتِ ہندکوپاکستان کے ساتھ جملہ روابط اور تعلقات ختم کرکے مسلسل دراندازیوں اور دہشت گردانہ حملوںکا جواب دیناچاہیے،جبکہ دوسری طرف اڑی حملے کے بعدکیرالہ کے کوزی کوڈمیں مودی کے تفصیلی خطاب نے یہ واضح کردیاہے کہ فی الحال حکومتِ ہندکوئی جنگی اقدام کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔نریندرمودی نے اپنی تقریرمیں واضح طورپراس بات کااشارہ دیاکہ ہندوستان پاکستان پر کوئی حملہ نہیں کرے گا،ساتھ ہی انھوں نے پاکستانی عوام کو خطاب کرتے ہوئے ان سے اپیل کی کہ وہ اپنے حکمرانوںکا ملک کی ترقی،خوشحالی اور تعلیم کے فروغ جیسے موضوعات پر محاسبہ کریں اوران سے بازپرس کریں کہ وہ پاکستانی عوام کے لیے کیاکررہے ہیں؟انھوں نے راست طورپرحکومت پاکستان کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر جنگ ہی کرنی ہے تودونوںملکوںکومل کر غربت،فاقہ کشی اور بدحالی سے لڑناچاہیے اوردونوںملکوںکے عوام کی اندوہ ناک صورتِ حال کو ختم کرنے کی سمت میں مضبوط قدم اٹھاناچاہیے۔
یہ سوال بہر حال قائم ہے کہ جومودی وزیر اعظم بننے سے پہلے اس بات پر مصرتھے کہ پاکستان کواس کی بھاشامیں جواب دیناچاہیے اوروہ ہمارے ساتھ جیسارویہ اختیارکرتاہے،ہمیں بھی اس کے ساتھ اسی قسم کا رویہ اختیار کرناچاہیے،وہی اب وزیر اعظم بننے کے بعدپاکستان کواس کی بھاشامیں جواب دینے کی بجاے یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ ہندوپاک دونوںملکوںکوایک دوسرے کے خلاف سازش کرنے اور دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی بجاے اپنی اپنی قوم کی صلاح و فلاح کے لیے کام کرناچاہیے،آخرمودی کے موقف میں یہ تبدیلی کیوںدیکھی جارہی ہے؟شایداس لیے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکمراں پارٹی کے موقف ،اس کے منصوبوںاور اقدامات پر اشکال کرناآسان ہے؛لیکن خود حکومت میں ہوں،تواس وقت کوئی فیصلہ کن اقدام کرنادشوار ہوتاہے،بہت سے مسائل ہوتے ہیں،جنھیں ذہن میں رکھنا پڑتاہے،خاص طورپراگربات جنگ کی ہو،تواس وقت حکومت کی ذمے داری کئی گنابڑھ جاتی ہے؛کیوںکہ جنگ کی صورت میں نہ صرف ملکوںکاافرادی اور جانی نقصان ہوتاہے؛بلکہ ملکی معیشت کے مخدوش و شکستہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیںاورمعاشی و اقتصادی ماہرین اور تجزیہ کاروںکااندازہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت ابھی اتنی بھی مضبوط نہیں ہے کہ اگر دونوں ملکوںکے درمیان جنگ چھڑجائے ،توہندوستان پندرہ سے بیس دن بھی اس صورتِ حال کوجھیل سکے،ظاہرہے کہ یہ حقیقت یقیناً حکومت کے سامنے بھی ہوگی اورشاید اس لیے حکومت نہیں چاہتی کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی کرے،البتہ ہاں!مودی نے اپنی تقریرمیں ایک بات کہی تھی کہ وہ ساری دنیامیں پاکستان کوالگ تھلگ کردیں گے اور اسی کوشش کاایک ثبوت یہ سامنے آیاہے کہ آیندہ نومبرکی۹؍۱۰؍تاریخ کوجنوبی ایشیائی ممالک کے اتحاد ’’سارک‘‘ کے انیسویںاجلاس میں ہندوستان نے شرکت نہ کرنے کافیصلہ کیاہے اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ دیگرتین ممالک بنگلہ دیش،افغانستان اور بھوٹان نے بھی شریک نہ ہونے کافیصلہ کیاہے،جس کے بعداس متوقع اجلاس کوملتوی کرنے کا اعلان کیاجاچکاہے،اس کے علاوہ ایسی بھی خبریں گردش میں ہیںکہ ہندوستان پاکستان سے خصوصی مراعات یافتہ ملک ہونے کااسٹیٹس واپس لینے اورسندھ آبی معاہدے کے خاتمے پر بھی غورکررہاہے؛حالاں کہ آبی معاہدے کاخاتمہ انسانی ہمدردی کے نقطۂ نظرسے درست نہیں کہاجاسکتا،جیساکہ اس سلسلے میں یوپی کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادوکابھی بیان آیاتھا،پاکستان کاکہناہے کہ معاہدہ نامے کی صراحت کے مطابق ہندوستان یک طرفہ طورپراس معاہدے کوختم کرنے کاحق دارنہیںہے،۲۹؍ستمبرکوہندوستانی حکومت اورملٹری آپریشنز کے ڈی جی رنبیرسنگھ کے حوالے سے قومی میڈیامیں یہ خبرآئی کہ ہندوستانی افواج کے ایک سوپچاس افرادپرمشتمل دستے نے پاک قبضہ والے کشمیرمیں تین کیلومیٹرتک اندرگھس کرشدت پسندوںکے سات کیمپوںکوتباہ کردیا،جس میں ۳۵؍سے ۴۰؍شدت پسندہلاک ہوئے،دوسری جانب پاکستانی حکومت اوراقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کابیان یہ آیاہے کہ ہندوستان نے سرجیکل آپریشن نہیں کیاہے؛بلکہ ایل اوسی سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی ہے،جس میں ایک پاکستانی فوجی ہلاک اورچھ زخمی ہوئے ہیں۔اس واقعے کی صحیح صورتِ حال جوبھی ہو؛لیکن اس کے بعدسے دونوںملکوںکی کشیدگی نے گویاایک نیارخ لے لیاہے۔
پاکستان اگر چہ نیوکلیائی ہتھیاروںسے لیس ہے اور جنگ کی صورت میں اس کی پشتیبانی کے لیے کئی ممالک کھڑے ہوسکتے ہیں؛لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی اندرونی حالت نہایت ہی مخدوش ہے،داخلی بدامنی و بے اطمینانی کے علاوہ پاکستانی عوام کے سیکڑوںایسے مسائل ہیں،جن کو دورکرناوہاں کی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے اورہندوستان ہویاپاکستان دونوںملکوںکوایک دوسرے پر الزامات و اتہامات کی بارش کرنے کی بجاے اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ وہ دوطرفہ تعلقات کونبھانے اور آگے بڑھانے میں کیارول اداکرسکتے ہیں،دوپڑوسی آپس میں لڑلڑکرباقی نہیں رہ سکتے اور دونوںکومسلسل عدمِ تحفظ سے دوچار رہناہوگا۔حکومتِ ہندکاکہناہے کہ اس نے اڑی حملے میںپاکستانی عناصرکے ملوث ہونے کے جملہ شواہد اورثبوت حکومتِ پاکستان کوارسال کردیے ہیں،جبکہ پاکستانی حکومت کاکہنایہ ہے کہ اس حملے سے پاکستان کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے اوریہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے۔
اس صورتِ حال کواگر ہم عالمی منظرمیں دیکھتے ہیں ،توپتہ چلتاہے کہ ان دونوںایشیائی ملکوںکی معاشی و اسٹراٹیجک اہمیت کے پیش نظرعالمی طاقتیںبھی اپنے اپنے مفاد کے مطابق موقف اختیار کررہی ہیں،یہ سب جانتے ہیں کہ ان دنوںجہاں ہندوستان امریکہ سے نسبتاً قریب ہے،وہیں پاکستان ابھی امریکہ کے لیے اتنا پسندیدہ نہیں ہے،حال ہی میں خبر آئی تھی کہ امریکی کانگریس کے متعددممبران نے ایوان کے سامنے یہ تجویزپیش کی ہے کہ وہ پاکستان کوعالمی سطح پر دہشت گردی کاکفیل ملک قراردے۔دوسری طرف چوںکہ امریکہ و روس کے درمیان سردجنگ ہنوزجاری ہے اور دونوں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے اپنی اپنی کوششیں تیزتر کیے ہوئے ہیں،سوشاید ہندوپاک کی موجودہ صورتِ حال کودیکھتے ہوئے اور عالمی سطح پر دونوںملکوںکے تعلقات و روابط کومدنظررکھتے ہوئے روس پاکستان سے قریب آرہاہے؛چنانچہ تاریخ میں پہلی بارروسی افواج کا ایک دستہ فوجی مشقوںکے لیے پاکستان میں قیام پذیرہے اور پاک-روس افواج کی مشترکہ مشقیں جاری ہیں،چین توپہلے ہی سے پاکستان کا قریبی سمجھاجاتارہاہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان چین کے زیادہ قریب ہے اور حالیہ دنوںمیںدونوںملکوںکے مابین کئی اہم معاہدے بھی عمل میں آچکے ہیں،جن کے تئیں ہندوستان نے اپنی بے اطمینانی کابھی اظہارکیاتھا۔اسی طرح اڑی حملے کے بعدامریکہ اوراب چین کایہ ’فرمان‘بھی اہمیت کاحامل ہے کہ دونوںملکوںکوراست طورپربات چیت کے ذریعے اپنے مسائل سلجھانے چاہئیں۔اب اگر خدانخواستہ ہندوپاک میدانِ جنگ میں اترتے ہیں،توایسے میں کوئی بعید نہیں؛بلکہ یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ روس،چین اور امریکہ اپنے اپنے مفاد کے تحت اس خطے میں پنجہ گاڑنے کی جی توڑکوشش کریں گے،اس(ممکنہ)جنگ کا فیصلہ جوبھی ہو؛لیکن یہ طے ہے کہ پورا خطہ اور اس خطے کے عوام سیاسی سفاکی اور جبرکے اُس تسلسل کا شکارہوجائیں گے،جس سے آج پورامشرقِ وسطیٰ اور خود ہمارے پڑوس میں افغانستان گزررہاہے۔
اڑی حملے اوراس کے بعدمیڈیاکی دھماچوکڑیوںکے بیچ جونیامنظرنامہ سامنے آیاہے،اس میں کشمیر اور کشمیریوںپر گزرنے والی مشکلات کا پردۂ خفامیں چلا جانابھی ہے،اس حملے کے بعدسے مسلسل ۹۰؍دنوںسے کرفیو اور پابندیوںکی مارجھیل رہے کشمیری عوام کی مصیبت اوران کودرپیش چیلنجزیک قلم ناقابلِ اعتناقراردیے جاچکے ہیں،پہلے ہی قومی میڈیامیں کشمیری عوام کے تئیں کچھ واضح اور مثبت رویہ اختیار نہیں کیاجارہاتھا،مگراب توجوایک دوآوازیں اٹھ رہی تھیں،وہ بھی دوسری جانب مڑچکی ہیں۔ایسے میں بعض سیاسی تجزیہ کاروںکی یہ بات قابلِ غوروفکرہوجاتی ہے کہ ہونہ ہویہ حملہ کشمیر پر سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی انجام دیاگیاہو،البتہ یہ سوال پھر بھی قائم رہتاہے کہ پاکستان توکشمیر کے مسئلے پرہی ہندوستان کوگھیرنے کی کوشش کررہاہے اور ہندوستان اپنے ہی فوجی کیمپوںپرکیوںحملہ آورہوگا،توپھریہ کارروائی کن عناصرکی طرف سے انجام دی گئی ہوگی؟؟
سوالات بہت سارے ہیں،جن کے جوابات بھی دیے جاتے ہیں،مگر سب غیر واضح اور مبہم۔ہندوستان یاپاکستان کے عام آدمی کے ذاتی مسائل اتنے ہیں کہ وہ سیاست کی اتنی گنجلک باتوںمیں دلچسپی لینے کے قابل ہی نہیں۔البتہ جب وہ یہ سنتاہے کہ دونوںملکوںکے حالات بتدریج خراب ہورہے ہیں اور شاید آیندہ دنوںمیں دونوںملکوںکے مابین کوئی جنگ چھڑجائے،توپھراس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،اسے ایسالگنے لگتاہے کہ کہیں وہ بھی اس جنگ کا حصہ نہ بنالیاجائے۔وہ لوگ جوچوک چوراہوںپرپاکستانی جھنڈے جلاکر،پاکستانی اداکاروںکودھمکیاںدے کر،نیوزاسٹوڈیویافیس بک،ٹوئٹر،واٹس ایپ اور سوشل میڈیاکی دیگر سائٹس پر بیٹھے ہندوستانی یاپاکستانی حکومت کویہ مشورہ؛بلکہ حکم دیتے نظرآرہے ہیں کہ مقابل کے سامنے بالکل بھی کمزورمت پڑواور اینٹ کاجواب پتھرسے دو،انھیں شاید ان حقائق اور انجام کا اندازہ نہیں،جن سے جنگ کے بعددوچار ہوناپڑتاہے،ہمارے سامنے افغانستان، عراق، لیبیا، یمن،شام اوردیگران ملکوںکامنظرنامہ بھی ہوناچاہیے،جہاںجنگوںکے ہولناک تسلسل اور عالمی طاقتوںکے مابین بالادستی کی خوفناک مسابقت نے ان ملکوںکے عوام کوخانماں برباد کردیاہے اور اس وقت وہ اپنے وطن،گھربار سے دورمختلف یورپی ملکوںمیں پناہ گاہیں ڈھونڈتے پھررہے ہیں؛لیکن کوئی ان کی احوال پرسی کرنے والانہیں ہے۔امن وسلامتی قدرت کی ایک عظیم الشان نعمت ہے اوراس کی قدران لوگوں سے پوچھیے،جن کے شب وروزبے امنی و بے سکونی اورظلم و جورکوجھیلنے میں صرف ہورہے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان دونوںممالک نیوکلیائی ہتھیاروںسے لیس ہیں اور آج کے دورمیں جب بھی کسی دوملک کے تعلقات خراب ہوتے اورحالات بگڑتے ہیں ،تووہ ایک دوسرے پریہی ہتھیارآزمانے کی بات کرتے ہیں،یقین جانیے کہ اس عہدمیں جنگ انسانیت کی موت کے مرادف ہے،سیاسی بازی گروںکوتواس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا،مگر عوام کے چیتھڑے بکھرجاتے ہیں اوروہ تباہ و بے اماں ہوکررہ جاتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔