منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ میں ایک مختصر کی کہانی فسادکے موقعے سے کچھ یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک علاقے میں فساد ہوا، لوگ مارے گئے پھر وہاں پولیس کے لوگوں کو بلایا گیا اور شانتی ہوگئی۔ اسی طرح پھر دوسرے علاقے میں فسادات شروع ہوئے اور قتل و غارت گری کا ماحول قائم ہوگیا۔ انتظامیہ نے پھر وہاں فوج کو بھیجا اور ماحول سازگار ہوگیا۔ منٹو نے نثر میں ٹیپ کا مصرعہ کہا: ’واردات ہونے سے پہلے ہی وہاں فوج کیوں نہیں تعینات کردی جاتی۔ بہار میں صاف ستھری شبیہہ کے وزیر اعلا نتیش کمار اور ان کی حکومت کی کارکردگی پر منٹو کی یہ کہانی یاد آتی ہے۔ سب سے پہلے نتیش کمار اپنے چہیتے لوگوں کو ان اداروں کی سربراہی تفویض کرتے ہیں اور پھر انھیں سال درسال بدعنوانی کرنے کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ کبھی کسی وجہ سے جب حالات حد سے سوا ہوگئے تو جانچ اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وزیر اعلا مثالی جملے پیش کرتے ہیں کہ جانچ میں کسی قصور وار کو بخشا نہیں جائے گا۔
بہا راسکول اکزامینیشن بورڈ کے سربراہ کے معاملات کئی برسوں کے گھوٹالوں پر محیط تھے۔ اخباروں اور ٹی۔ وی۔ چینلوں پراچانک انٹرمیڈیٹ ٹاپر کا لائیو انٹرویو شروع ہوا اور دنیا دیکھنے لگی کہ کیسے جہالت مآب افراد کو نوے فی صدی نمبر عطا کرکے بہار کا سب سے بہترین طالب علم بنادیا گیا۔ اس سے پہلے جب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات شروع ہوئے تھے تو اس میں کم از کم آدھی ریاست میں بھرپور چوریوں کا سلسلہ تھا۔ نقل نویسی شباب پر تھی اور امتحان مراکز میں اودھم مچا ہوا تھا مگر وزیر اعلا اور ان کے محکمۂ تعلیم کے سربراہان آنکھ موندے سب کچھ دیکھتے رہے۔ یہ ایک برس کی بات نہیں، لگاتار کئی برسوں سے ایسے انتظامات تھے۔ امتحان مراکز کی خرید و فروخت اور پھر کاپی جانچ مراکز کی یک مشت بولی لگانے والے لگا رہے تھے اور نتیش کمار حکومت کی طرف سے اس کے لیے بحال افراد ایسے تمام کام دل لگا کررہے تھے۔
حکومتِ بہار جس کی نگرانی نتیش کمار کے ہاتھ میں ہے، وہ اسی وقت جاگتی ہے جب سب کے سر سے پانی اونچا ہوجاتا ہے۔ امتحانات میں چوری شروع ہوئی تو میڈیا کے سامنے اکزامینیشن بورڈ کے چیرمین نے بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ امتحانات کلکٹر کی نگرانی میں ہوتے ہیں، اس لیے ان کی جواب دہی نہیں ہے۔ چوری کی تصویریں اور ٹی۔وی۔ چینلوں سے لائیو ٹیلی کاسٹ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا۔ وزیر تعلیم اور وزیر اعلا کی آنکھ امتحان ختم ہونے سے ذرا پہلے کھلی اور جانچ کرنے، قصوروار کو نہیں چھوڑنے اور بہار کی امیج کو درست کرنے کے اعلانات پر سلسلہ ختم ہوگیا۔
ابھی بہار اسٹیٹ اسٹاف سلیکشن کمیشن کے جونیر لیول ملازمت کے لیے ابتدائی ٹیسٹ کا پروگرام جاری ہوا اور لگاتار چار اتوار اس کے لیے مخصوص کیے گئے۔ طالب علم یعنی بے روزگاروں کی فوج تھی اس لیے پورے بہار کے اضلاع میں امتحانات ہونے کے باوجود چار فیز میں انھیں مقررکیا گیا۔ پہلے دور کے امتحان سے کئی روز پہلے سوالات بازار میں تھے اور ان کے جوابات بھی جدید وسائلِ مواصلات کے تعاون سے گھر گھر میں پہنچ چکے تھے اور اخباروں میں شایع ہوگئے تھے۔ پھر بھی امتحان ہوا اور واقعتا وہی سوالات آئے جو بازار میں دستیاب تھے مگر اسٹاف سلیکشن کمیشن نے کسی سوال کے آئوٹ ہونے یا کسی طرح کی بدعنوانی سے انکار کیا۔ پوری حکومتِ بہار چوری کے اس عمل کو بدعنوانی سے پاک صاف بتاتی رہی۔ اگلے اتوار کو دوسرے دور کا امتحان تھا۔ جمعہ سے ہی بازار میں سوالات اور ان کے جوابات ملنے شروع ہوگئے اور اخباروں میں بھی ان کی اشاعت ہوگئی۔ پھر بھی یہ امتحانات ہوئے اور کمیشن یا حکومتِ بہار کے اہالیان یہ بتاتے رہے کہ یہ صرف افواہیں ہیں اور امتحان چوری اور بد عنوانی سے پاک صاف ہی رہا۔ غلطی سے کچھ ضلعوں کے افسروں نے امتحان مرکز سے ایسے امتحان دہندگان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جن کے پاس بنے ہوئے جوابات تھے۔ پھر میڈیا میں اس موضوع مزید صراحت کے ساتھ اور پختہ دلیلوں سے راے عامہ ک قائل کیا۔ بے روزگار نوجوان جنھوں نے اپنی صلاحیت کا حکومت کی طرف سے اس طرح مذاق اڑائے جانے کو نامناسب سمجھا، ان کا غم و غصہ بھڑکا اور وہ سڑک پر اتر آئے۔ ایسے عالم میں بھی کمیشن تیسرے دور کے امتحان کے لیے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی کیوں کہ اس دور کے پر چے بھی لازمی طور پر بک چکے ہوں گے۔
آخر کار حکومتِ بہار کی آنکھ کھلی۔ حالاں کہ اس کھلے سچ کو سمجھنے میں اسے تقریباً دو ہفتے لگ گئے۔ کمیشن کے تھوڑے سے اسٹاف، سکریٹری اور کمزور عہدوں کے لوگوں کی گرفتاریاں ہوئیں ۔ پیچھے کے دونوں امتحانات منسوخ کیے گئے اور اگلے دور کے امتحانات بھی تاحکمِ ثانی ملتوی کیے گئے۔ پولیس کی جانچ جاری ہے اور اچھا ہو کہ بنیادی قصوروار گرفت میں آجائیں۔
پچھلے دس برسوں سے زیادہ مدت میں یہ بات بھی زیرِ بحث رہی کہ محکمۂ تعلیم میں نیچے سے اوپر تک گھوٹالے ہی گھوٹالے ہیں۔ مڈڈے میل میں زہریلی شے شامل ہونے کی وجہ سے جب ایک درجن بچے ہلاک ہوئے تب حکومت کی آنکھ کھلی اور ہیڈ مسٹریس اور چند دوسرے کارپرداز قصوروار مانے گئے۔ گاندھی میدان میں دسہرہ کے راون وَدھ سے واپس ہوتے ہوئے دو درجن سے زیادہ تماش بینوں کواپنی جان گنوانی پڑی تھی، تب جاکر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس میدان میں سارے گیٹ کھلے رکھے جائیں گے اور کچھ نئے گیٹ بھی بنائے جائیں گے۔ چھٹ تقریب میں بھی انتظامیہ کی دیکھ ریکھ میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں محکمۂ سیاحت کی طرف سے گنگا کی سیر کرتے ہوئے دو درجن سے زیادہ لوگ تڑپ تڑپ کر گنگا میں ڈوب کر مر گئے۔ آخر ان کے ذمے دار صرف دوچار کلرک، کرانی اور کچھ روزانہ اجرت کے افراد ہی ہیں یا ذمے داری کی سطح اس سے اوپر بھی ہے۔ پہلے ایک ریل حادثے پر مرکزی وزیرِ ریل ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنی وزارت سے بہ خوشی دست بردار ہوجاتا تھا اور اپنی نااہلی پر شرم سار رہتا تھامگر نتیش کمار کی حکومت میں یہ عجیب و غریب انداز ہے کہ چھوٹے عہدے داروں کو بلی کا بکرا بنائو اور بڑے یا نامور لوگ خوشی سے مزے کاٹتے رہیں۔ آخر اسٹاف سلیکشن کمیشن کے چیرمین اور اس کی پوری کمیٹی کو ٹھیک اسی طرح کیوں نہیں گرفتار کیا گیا جیسے سکریٹری اور تھوڑے بہت اسٹاف کو چنا گیا۔
محکمۂ تعلیم کی نگرانی میں پچھلی بار یونی ورسٹیوں کے لیے جو وائس چانسلر چنے گئے، ان میں سے اکثر پر مقدمات ہوئے اور یہ کھلے طور رپ ثابت ہوا کہ ان میں سے آدھے لوگ تو دس برس کی پروفیسر شپ کا تجربہ بھی نہیں رکھتے تھے جب کہ وائس چانسلر شپ کے لیے جو اشتہارات نکلے تھے وہاں یہ لازمی شرط تھی۔ حکومت نے بڑے بڑے لوگوں کو سرچ کمیٹی کا ممبر بنایا۔ راج بھون اور محکمۂ تعلیم کے اعلا عہدے داران اسکروٹنی کا حصہ رہے، وزیر اعلا اور گورنر کے باہمی اتفاق سے ان ناموں کا انتخاب عمل میں آیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ موٹی بات کسی سطح پر کیسے نہیں سمجھ میں آئی کہ ان میں آدھے لوگ اس عہدے کی ظاہری اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ان کے تعلیمی تصور اور فلسفے کی بات کون کرے، گذشتہ تین برس سے سیکڑوں تقریبات میں ان میں سے اکثر کو کسی زبان کو درستی سے بولتے ہوئے اور اعلا تعلیم کے نئے نئے تصورات کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ ہاں، مالی معاملات میں خردبرد، تقرری میں ناانصافی اور بدعنوانی یا ٹرانسفر پوسٹنگ میں غیر اخلاقی اور مالی امور کے قصے اخباروں کا حصہ بنتے رہے۔
نتیش کمار کی حکومت کا یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ وہ خود صاف ستھری حکومت اور بدعنوانی کے معاملے میں زیرو ٹالرنس کی بات رٹے ہوئے جملے کی طرح روزانہ کرتے ہیں اور اسی کے متوازی روزانہ کسی نہ کسی شعبے میں بڑے گھوٹالے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ حکومت پہلے انھیں خوب خوب موقع دیتی ہے اور جب کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا تو اپنی امیج بچانے کے لیے دوچار گرفتاریاں کرکے معاملے کو اگلے گھوٹالے تک ٹال دیتی ہے۔ گھوٹالے بازوں کے بیانات سنیں تو حیرت ہوگی کہ اپنے انتخاب اور تقرری سے لے کر پکڑے جانے کے دن تک وہ اس بات کا اعلان کرتا ہوا ملے گا کہ اس نے نیچے سے اوپر تک رقمیں پہنچائیں اور اس کے عوض میں وہ عہدہ ملا اور پھر ماہانہ رقمیں دینی پڑتی ہیں۔ جب یہ باتیں سڑک پر عام ہیں تو وزیر اعلا اور ان کے بڑے بڑے افسران اس سے بے خبر نہیں ہوں گے مگر شترمرغ کے ریت میں سر ڈال لینے سے طوفان نہیں رکتا ہے، اسی طرح حکومت کی خاموشی یا آنکھیں بند کرکے بے پروائی سے ترقی کا صوفیانہ راگ الاپنے سے بدعنوانیوں کا کاروبار ختم نہیں ہوسکتا۔
اس کے لیے وزیر اعلا اور دیگر اعلا عہدیداران معقول افراد کی تلاش میں ذات پات، مالی خردبرد، چاپلوسی اور نالائقی کو معیار بنانے کی عادت جب تک نہ چھوڑیں گے، اس وقت تک گھوٹالے ہوتے رہیں گے اور باصلاحیت بے روزگاروں کے خوابوں کا خون ہوتا رہے گا۔ حکومت صرف ایک بار شراب کا لائسنس دے دینے اور دوسری بار لائسنس چھین لینے تک محدود نہیں، حکومت ایک پھیلے ہوئے چھتنار درخت کی طرح سے ہے جس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہر طرف وزن برابر بیٹھتا ہے۔ کسی طرف بے توازن ہوئے کہ انہدام کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بہار آج تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑا ہے اور حکومتِ بہار کے سربراہ نتیش کمار کو طے کرنا ہے کہ وہ ایک سلیقہ مند صوبہ بناکر عوام کو سونپیں گے یا آئے دن کے گھوٹالوں سے شرمندہ اور ذلیل و رسوا ہونے کے لیے عوام کو مجبورِ محض بناکرچھوڑیں گے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔