سکھائے ہیں محبت کے نئے انداز مغرب نے

نصف صدی سے دنیا کو اپنا فکری غلام بنانے والی استعماری طاقتوں نے امت مسلمہ کی تباہی کی جو سازشیں رچی ہیں، اس کےخوف ناک نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے، فحاشی اور عریانی کو فروغ دے کر نسلوں کی تباہی،اخلاقی گراوٹ اور جنسی بے راہ روی ان کا اولین ہدف ہے، بالخصوص وہ مسلم تہذیب اور امت مسلمہ کو اخلاقی برتری سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو اسے تمام اقوام عالم میں بلا شرکت غیرےحاصل ہے،اس وقت مغربی نسلیں،آزاد ثقافت اوربے حیا تہذیب کی بدولت ہلاکت و بربادی کےدہانے پر کھڑی ہیں اور اسلام کےعفت مآب نظام کو اختیارکرنےکے سوا، ان کےپاس کوئی چارہ نہیں۔

شرم وحیاء ایک ایسا معاشرتی وصف ہے جس کے ساتھ حساسیت وابستہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی ایک دم نہیں پھیلتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے معاشرتی رد عمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے لگتے ہیں؛اس لئے لوگوں کو آہستہ آہستہ فحاشی کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ نفسیات دانِ جدید دنیا میں ایک بہت بڑے طریق علاج کو اختیار کیے ہوئے ہیں جسے Desensatization یعنی حساسیت کو کم کرنا کہتے ہیں۔ ہر شخص جو کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو اس کو مختلف طریقوں اور مشقوں سے آہستہ آہستہ اس کے قریب کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ بالکل حساسیت سے عاری ہو جاتا ہے۔

چنانچہ فحاشی کو فروغ دینے کے لئے انفرادی طور پر جہاں مختلف حربے استعمال کئے گئے وہیں اجتماعی اورعالمی طور پر بھی کچھ دن بنائے گئے؛تاکہ آہستہ آہستہ فحاشی و عریانی کو عام کیاجائے،اخلاقی قدروں کو پامال کیاجائے ؛جس کے نتیجے میں معاشرے پر ایسا وقت آئےکہ فحش امور دیکھنے، یا اختیار کرنے میں کوئی شرم محسو س نہ ہو۔

ننگےپن کے اظہار اور بےحیائی کے فروغ کے لئےنیو ایر کیا کم تھا کہ ویلن ٹائن ڈے کے عنوان سے ایک مستقل دن بھرپورجوش وخروش کےساتھ منایا جانے لگا، چونکہ ہندوستانی سما ج میں اس دن کو منانے کے پیچھے مغرب کی کوری تقلید کارفرماہے- اور اس تقلید میں مسلم معاشرے کے بہت سے افراد بھی پیش پیش نظر آتے ہیں- اس لیے یہ نئی رسم مسلم معاشرہ میں بھی دبے پاؤں داخل ہو رہی ہے-

پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق واقدار سے عاری تنگ وتاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلبوں میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا؛مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا بول بالا ہے ، اہل مشرق،جہاں ان کی نقالی اوررسم ورواج اپنانے کواپنا طرہ امتیاز سمجھ رہے ہیں وہیں دین و ملت کے تارپود بکھیرنے والے ان حیا باختہ غیرشرعی ایام کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلاچوں چرا ماننے ، منانے اور جشن کرنے کو روشن خیالی اور وسعت ظرفی تصور کررہے ہیں۔

اس دن کو جس انداز سے منایا جاتا ہے اور جس طرح بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسلامی معاشرہ تو کیا کوئی بھی مہذب سوسائٹی اس کی اجازت نہیں دے سکتی- رپورٹوں کے مطابق ویلن ٹائن ڈے پر شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑے کھلے عام محبت کا اظہار کرتے ہیں، محبت کی آڑ میں آگے جو گنداکھیل کھیلا جاتا ہے وہ اور زیادہ خطرناک ہے- قیمتی تحفوں اورگلاب کے پھولوں کے تبادلے تو عام سی بات ہے؛ مگر اس موقع پر بہت سے جوڑے تفریح گاہوں کا بھی رخ کرتے ہیں، جہاں شراب کے نشے میں دھت ہو کر ایسی نازیبا حرکتیں کی جاتی ہیں، جنہیں انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ کہاجاسکتاہے۔
ویلن ٹائن ڈے کاتاریخی پس منظر
ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟یہ کس طرح رائج ہوا؟اس سلسلہ میں کوئی مستند اور حتمی رائے موجود نہیں۔۔۔۔کچھ واقعات ہیں جو اس دن کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں۔۔۔ذیل میں ان واقعات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا کہ ویلنٹائن ڈے کی کیا حقیقت ہے؟

بک آف نالج اس واقعہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔( ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص 3)

اس کے علاوہ ایک اور معروف واقعہ جو ویلنٹائن نامی شخص کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی عطاءاللہ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔یہ تھے وہ واقعات جو عام طور پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل
فحاشی اور عریانی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے۔دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح دین،قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أنْ تَشييْعَ الْفَاحِشَةُ فِيْ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِيْ الدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ (النور:19)
”یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“
جبکہ ویلنٹائن تو ہے ہی بے حیائی اور فحاشی کا دن۔لہذا اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے :۔
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ (الاعراف:33)
‘’(اے نبی ﷺ)فرما دیجئے کہ تمام فحش باتوں کو البتہ میرے رب نے حرام کیا ہے خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو بھی حرام کیا ہے ۔’‘
اس آیت میں لفظ ‘‘فواحش’’استعمال ہوا ہے ۔جس کی جمع ‘‘فاحشہ ’’ہے ۔اوراس کا اردو میں ترجمہ ‘‘بدکاری و بے حیائی’’سے کیا جاتا ہے ۔بھلا ویلنٹائن ڈے سے زیادہ بےحیائی اور بدکاری کسی اور دن ہوتی ہے؟؟
مزید یہ کہ دین اسلام مین غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے طورطریقوں سے بچنے کا درس دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ ہے
من تشبه بقوم فهو منهم
”جس نے غیرمسلموں کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“ (ابوداوٴد:4031)
خلاصہ کلام:
ویلنٹائن ڈے کو منانا مذہبی ،اخلاقی اور معاشرتی سطح پر غلط اور ممنوع ہے۔اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے ؛بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ویلنٹائن ڈے فحاشی کا دوسرا نام ہے۔اسے معاشرے میں رواج دینا فحاشی کا دروازہ کھولنا ہے۔مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بن بیاہی مائیں اور بغیر باپ کے بچے فروغ پا رہے ہیں اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرچکا ہے۔

سکھائے ہیں محبت کے نئے اندازمغرب نے
حیا سرپیٹتی ہے عصمتیں فریادکرتی ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔