حکومت کیا چاہتی ہے؟
نازش ہما قاسمی
گزشتہ ایک ہفتے کے اندر دو ایسے فیصلے کئے گئے اور ایسی پالیسی بنائی گئی جس پر تشویش لازمی ہے ایک تو یہ کہ 45 سال سے زائد کی عمر کی خاتون بنا محرم کے حج پر جاسکتی ہے، اور دوسرے یہ کہ 18 سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کے بعد اختلاط کو عصمت دری قرار دیا جائے گا، ویسے تو فیصلے اور پالیسیاں عوامی مسائل کے حل کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ملک میں بسنے والے عوام ان پالیسیوں سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے جو بھی فیصلے اور پالیسیاں بنائی جارہی ہیں مسلمانوں کے تعلق سے ان سے ایسا نہیں لگ رہا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو رعایت و سہولیات دینا مقصد نہ ہو بلکہ راست ان کے دین حنیف جس کے بارے میں اللہ نے قرآن میں خود کہہ دیا الیوم اکملت لکم دینکم کہ ہم نے اس دین کو مکمل کردیا اس میں مداخلت کی کوشش ہے، مسلمانوں کو دین سے بیزار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کسی طرح سے بھی ہندوستانی مسلمان علماء سے بیزار ہوجائیں دین حنیف سے متنفر ہوجائیں اور پھر ہم ان پر مسلط ہوکر انہیں کفر میں ڈھکیل دیں۔
اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اسلام مخالف طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہی ہیں، انہیں معلوم نہیں ہندوستانی مسلمانوں کی یہ خصوصیت رہی ہے خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے رہے ہوں اپنے علماء سے مربوط رہے ہیں اسلئے وہ اپنے مسلک پر قائم ہیں جزوی اختلافات سے صرف نظر وہ بنیادی مسائل میں اتحاد کا ہمیشہ ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر اہل حدیثوں نے بھی حنفیوں کا ساتھ دیا انہیں اس بات کا ادراک ہوچلا تھا کہ یہ طلاق ثلاثہ ایک ہے یا نہیں مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ حکومت کے نزدیک یہ مسلم عورتوں پر ظلم ہے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے دور کرنے کی سبیل ہے کہہ کر شریعت میں مداخلت ہےـ۔ اب جب کہ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے نئی حج پالیسی متعارف کروائی ہے جو کہ سراسر اسلام احکامات کے منافی ہے جس کی مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر نے مذمت کی ہے اور نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر سخت احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے ـ
ہمیں یہ چاہیے کہ ہم اس موقع پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث نہ ہوکر کے صرف مسلمان بن کر حکومت کی مسلسل مخالف پالیسیوں کے خلاف ڈٹ جائیں اسی وقت ہم حکومت کی ان اسلام مخالف منصوبہ بندیوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ـاگر ہم یونہی اپنی اپنی ڈفلی بجاتے رہے اور اپنا اپنا راگ الاپتے رہے تو شاید ہم یہاں نام کے بھی مسلمان نہ رہ جائیں ہمارے اکابر نے یہاں جنگ آزادی لڑکر اور اس ملک میں اپنے دینی تشخص کی برقراری کے ساتھ رہنے کا عہد کیا تھا اسی خیال کے مدنظر مدارس و مکاتب کا جال بچھایا تھا، اگر اُس وقت ایسا نہ کیا جاتا تو ہمارے خلاف انگریزوں کی جو پالیسی تھی کہ ہندوستان دوسرا غرناطہ و اندلس بن جائے تو وہ حقیقت میں تبدیل ہوجاتی۔ شاید آج ہم بھی عیسائی یہودی یا پھر صرف نام کے مسلمان رہتے۔ ہمیں نہ روزے، نماز اور احکام شرعیہ کا علم ہوتا۔ لیکن انہوں نے ہندوستان میں مذہبی تشخص کے ساتھ رہنے کی پالیسی بنائی اور اس پر کار بند رہے۔
لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے علما، مدارس کے ربط میں رہیں۔ ۔۔اگر ہم نے حکومت کے طریقوں سے متاثر ہو کر علماء سے ربط ختم کردیا، تو یہ دین مخالف لبرل اور جدت پسند مسلمان جو ان فرقہ پرست حکومتوں کے شانہ بشانہ رہے ہیں ہمیں اپنے ہی ملک میں غیروں کی طرح رہنے پر مجبور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گےـ۔ ۔۔الحمدللہ ہندوستانی مسلمانوں میں اب بھی دینی حمیت اور غیرت زندہ ہے کہ وہ ہر باطل کا مقابلہ کرکے دین حنیف کی پاسداری کرسکتے ہیں۔ ۔۔اسیلئے دنیا کی خطرناک تنظیمیں موساد اور دیگر ہندوستانی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے آر ایس ایس اور ہندوتووادیوں کی اعانت و مدد کررہی ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کو دین سے دور نہ کیا گیا تو یہ ہماری جدید دنیا جس میں فحاشی و عریانیت کا ننگا ناچ عورتوں کے حقوق کی آواز اٹھا کر ان کو ننگا دیکھنا مقصد ہے بند ہوجائے گا۔
انہیں پتہ ہے کہ یہ مسلمان ہمیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اس لیے اگر انہیں دین سے بیزار اورعلماء سے متنفر کردیا جائے تو ہم آسانی سے اس پر قابو پاسکتے ہیں اور اپنی مرضی کا قانون تھوپ سکتے ہیں، دنیا کو فحاشی و عریانیت میں مبتلا کرسکتے ہیں، اسلامی پابندیوں کو انسانی حقوق کے خلاف کہہ کر انہیں ختم کرسکتے ہیں، اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آئے دن نت نئے طریقوں سے شرعی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے اور ان مسئلوں میں الجھا کر مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے سے روک دیا جارہا ہےـ۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سوچیں جس ملک میں ہم جنس پرستی جائز ہو اگر کسی نے نابالغہ کی عصمت دری ہوئی ہو ہو تو اسے ماں بننے سے نہیں روکا جاسکتا، جس ملک میں جانوروں سے شادی کرنا جائز ہو۔ ۔۔کیا وہ بچوں کے حقوق پر مخلص ہوکر سوچیں گے؟ ـ چلو اگر مان بھی لیں کہ یہ بچوں کے حقوق کے لیے عمدہ قدم ہے تو کیا اس سےان پر مظالم کا سلسلہ بند ہوجائے گا؟
ہم نے دیکھا ہے اپنے گاوں میں غیر مسلم لڑکیاں جن کی عمر محض گیارہ سال کی ہوتی ہیں انہیں تیس سال کے نوجوان سے بیاہ دیا جاتا ہے کیا وہ ان پر قابو پاسکیں گے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب میں لڑکیاں عموما ۹سے پندرہ سال کے درمیان بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں لیکن اس طرح کے قانون کے نفاذ سے معاشرہ کا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے،یہ تو ممکن ہے کہ 18 سال سے کم عمر میں شادی نہ ہو لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ شادی ہوجائے اور اختلاط نہ ہو،15 سال کے بعد شرعی اعتبار سے بھی اور دیگر مذاہب کی رو سے بھی میڈیکل سائنس کے اعتبار سے بھی لڑکی سن بلوغ کو پہونچ جاتی ہے، اور جسمانی طور پر اس میں اختلاط کا تحمل بھی ہوتا ہے،ایسے قانون سے معاشرہ میں سدھار کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟کیا اس طرح کے قانون سے ہمارے ملک کا ڈھانچہ بر قرار رہے گا؟ یا برائیاں عام ہونگی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس طرح کے قوانین کا مقصد کیا ہے؟ کیا حکومت اسلامی قوانین کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہے۔۔۔؟
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔