جہیز لینے اور بارات لے جانے والوں کا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہئے!

ذاکرحسین

مکرمی !

مسلم معاشرے میں ہونے والی شادیوںمیں بیجا رسموں کے اضافے اور ان رسموں کی قوم کے افراد کے ذریعے پرورش پر فکر کو موضوع ہے۔ آج کل ہونے والی شادیوں کو لوگوں نے اپنی شان و شوکت اور دوسروں پر پسیے ہونے کا رعب ڈالنے کا ذریعہ بنا لیاہے۔ افسوس اس بات کا ہیکہ جو لوگ محفلوں، سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر شادیوں کا سادگی سے کرنے پر زور دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بڑی بڑی اور متاثر کن پوسٹ ڈالتے ہیں وہی جب اپنی بیٹی یاکسی عزیز کی شادی کرتے ہیں تو وہی شادی میں بیجا رسم و راج پر عمل کرنے میں وہی حضرات سرفہرست رہتے ہیں۔

شادی میں بارات لے جانے، جہیز لینے اور دینے اور دیگر شادی کے نام پر دیگر فضولیات اور بیہودگی میں لوث افراداپنی بیہودگی اور فضولیات کو صحیح ٹھہرانے کیلئے کیا کیا جواز پیش کرتے ہیں، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ارے میری آخری بیٹی ہے اسلئے مجھے دھوم دھام کرنی پڑ رہی ہے، کیاکروں، آخری ہے نہ، والدین بوڑھے ہوچکے ہیں اس لئے دھوم دھام کرنی پڑ رہی ہے ورنہ میں تو شادی میں بیجا روسم و رواج کے سراسر خلاف ہوں، کیا کروں والدین کی خواہش تو پوری کرنی ہوتی ہے نہ، ارے میرا آخری اور سب سے دُلارا بیٹا ہے اگر اس کی شادی میں دھوم دھام(بیہودگی اور فضولیات)نہیں مچائیں گے تو اس کا حق ہم کیسے ادا کریںگے ؟،میری تو اکلوتی اولاد ہے، پھر میں کیسے سادگی سے کروں اس کی شادی، ویسے بھی اس کی سسرال والوں کے بڑے مطالبات کئے تھے، لیکن ہم نے کہہ دیاکہ ہم صرف دو سو باراتی برداشت کر سکیں گے اور جہیز تو سمجھو کچھ نہیں دیں گے، بس ایک فریج، ایک واشنگ مشین، ایک کلر ٹی وی، بیڈ، صوفہ، الماری، پانچ لاکھ کا زیور اور گاڑی تو بس ایک ادنیٰ سی ایک لاکھ کی بائک دے رہے ہیں۔

اسی درمیان لڑکی کی منمنانے کی آواز آتی ہے۔ والدین گھبرا کر اس کے کمرے میں پہنچتے ہیں لیکن ان کا دل دھک سے ہو کر رہ جاتاہے، کیونکہ میک اپ کے ان کی چہیتی کی بیٹی افسانوی کسی کردار کی سی ہو جاتی ہے وہ دوبارہ جب منمناتی ہے تب والدین نے اپنی بیٹی کو پہنچان پاتے ہیں، بیٹی تم توخوش ہو نہ، جواب کے بجائے سسکی کی آواز،والدین کو فکر مندی میں مبتلاکر دیتے ہیں کیا ہوا بیٹی ؟ کچھ نہیں ارے کچھ دیا بھی نہیں اور پوچھ رہے ہو کیا میں خوش ہوں؟بیٹٰی کس چیز کی کمی رہ گئی ہے بتائو نہ۔ ۔ابا میرا لہنگا سات ہزار روپئے کا ہے، سسرال میں ساس اور دیگر لوگ کیا کہیں گے ؟ اچھا بیٹے دورے لے آتا ہوں بولا  کتنے والا، شرماتے ہوائے ابا پچاس ہزار کا ایک لہنگا آجکل بہت چلا ہے وہی چاہئے مجھے۔ ابا بیچارے پسینہ سے شرابور اور بیٹی آنسو سے شرابور۔ اجی لہنگا لارہے ہو یا میں خو د بازار جائوں بیگم کی خوفناک آواز سے ابا بیچارے دہرے ہوگئے اورہانپتے کانپتے بازار بھاگے۔ ارے میں تو کہتا تھا یا کہتی تھی کہ ہم شادی ایسی کریں گی کہ لوگ کہیں گے کہ دیکھوفضلوا کے اباّ نے بالکل اسلامی طریقے سے شادی کی ہے، لیکن کیا کریں مجبور ہیں، ارے بھائی سماج کو بھی دیکھنا پڑتا ہے دوسرے فضلوا کے اتنے سارے دوست ہیں وہ بارات نہیں جائیں گے توکون جائے گا؟ شادی روز روز تھوڑی ہوتی ہے۔ بارات جائے گی بس کوشش کرکے کم یعنی تین سو کر لیتے ہیں۔

جہیز کیلئے ہم نے تو لڑکی والوں سے منع کر دیا تھا لیکن لڑکی والوں نے کہاکہ ہم آپ کواپنی بیٹی کو دے رہے ہیں اور نتیجے کے طور پر پورا گھر یہاں تک گھر میںموجود جانوروں کے بھی ٹھاٹ آگئے اور انہیں بھی جہیز کے بیڈپر سونے کا موقع مل گیا۔ہم نے ایسے ہی جہیز کے بٰیڈ  پر آرام فرما، بھینسوں کو کہتے سنا کہ جو لوگ شادی میں دھوم دھام بالخصوص جہیز لینے اور دینے کے جو مخالف ہیں دل کرتا ہیکہ ایسے لوگوں کا گلا دبا دوں، اپنے تو اپنے ہمارے بھی مزے میں کرکری کرتے ہیں۔

شادی میں سادگی اسلئے ضروری ہے تاکہ سماج میں امیر غریب کے درمیان جو بھیانک کھائی حائل ہے اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔ راقمِ سطور کے پاس انگنت ڈھیروں ایسی مثالیں ہیں، جن کے گھروںمیں شادیاں اسلئے نہیں ہو رہی ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں بارات اور جہیز جیسی لعنت کا رواج نہیں ہوتا تو کیا ان گھروں میں اب تک شادیاں نہی ہوتیں؟ اگر اسطرح کی کہیں بھی بات ہے تو اس کے ذمہ داروہ تمام لوگ ہیں جو شادیوں میں بیجاروسم و راج کوفروغ دیتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔