خوراک اور بھوک: عالمی یوم خوراک کے حوالے سے

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

ﷲ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل بھوکے کھانا کھلانا ہے۔ نبی آخرالزماں محسن انسانیت ﷺ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔ خالق کائنات کی اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلقات کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن اﷲ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں سب سے اولین جواپناتعارف کرایا ہے وہ’’رب، پالنے والا‘‘(1)ہے جس کا براہ راست تعلق کھانا کھلانے سے ہے۔ قرآن مجید میں سب سے بزرگ عبادت نماز کے ساتھ زکوۃ کی تکرار اس کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید زکوۃ کے لیے ہی نماز کی فرضیت عمل میں لائی گئی ہے تاکہ اجتماعی ماحول میں نماز کے ذریعے منعم اور گدا کے فاصلوں کو کم سے کم تر کیا جا سکے۔ روزہ دوسری اہم عبادت ہے جو براہ راست بھوکے کے احساسات سے آگاہی دیتا ہے اور امیر کے اندر وہ احساس جگاتا ہے کہ بھوک کی حالت میں غریب آدمی پر کیا بیتتی ہے۔

حج،  زیارت بیت اﷲ تعالی کے بے شمار اثرات ہیں جو فرد اور معاشرے سے لے کر عالمی اداروں اور بین الاقوامی معاملات تک پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ سیاست، مذہب، سماج، تعلیم اور تعلقات سمیت ان گنت پہلو ہیں جو اس عبادت سے عبارت ہیں لیکن یہ سب بوجوہ معطل بھی ہو جائیں تو معاشی پہلو،  پیٹ بھرے جانے کا پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔ ایک حاجی کے حج پر جانے سے گلی محلے میں پھولوں کا ہار بنانے والیوں اور دیگوں کے پکانے والے سے لے کر بڑی بڑی حکومتوں اور ہوائی سفر کی کمپنیوں کا روزگار وابسطہ رہتا ہے، اورمکہ مکرمہ جیسی سرزمین جہاں درخت میں پھل تک نہیں اگتاوہاں دنیا بھر کی صنعتوں کا مال خریدنے کے لیے دنیا بھر کے اہل ثروت پہنچا دیے جاتے ہیں گویا ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کے پیٹ بھرے جانے کا انتظام اسی ایک سفر سعادت سے متعلق ہے۔ اﷲ تعالی نے اسی بات کو اہل مکہ پراپنا احسان کہ کر بتلایا کہ اس نے بھوک میں تمہیں کھانا کھلایا(2)۔ جہاد ایک اور فرض عبادت ہے  جس تعلق بظاہر لڑنے اور توسیع دعوت  اسلامی سے ہے لیکن اس میں بھی پیٹ بھرنے کا معاشی عنصر اس طرح موجود ہے کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا رزق نیزے کی انی کے نیچے رکھ دیا گیا ہے(3)۔ سیرت نبوی ﷺ سے یہ واضع ہے کہ مدنی زندگی کا آغازغربت،  بھوک اور افلاس سے ہوا لیکن مسلسل جہاد اور قتال کی مہمات سے آہستہ آہستہ دفاع کے ساتھ ساتھ معاش کا پہلو بھی طاقتور ہوتا گیا تاآنکہ فتح خیبر کے بعد مدینہ طیبہ میں خوشحالی در آئی۔  اور پھر طاقت اور معاش کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کہ طاقت معاش کا مقدمہ بنتی ہے اور معاش طاقت کا مقدمہ بنتا ہے۔

محسن انسانیت ﷺ نے اپنی آمدسعید کے بعد جن اچھے حالات کی نوید سنائی ان کا تعلق بھی معاشی خوشحالی ہی سے ہے مثلاٌ مکی زندگی میں ایک صحابی نے کافروں کے ظلم کی شکایت کی اور ان کے لیے بد دعا کرنے کو کہا، آپ ﷺ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضر موت تک سونے سے لدی پھندی ایک جوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہو گا(4)۔ سفر ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں قیصروکسری کے کنگنوں کی بشارت دی(5)اورغزوہ احزاب کے موقع پر جب غربت و افلاس اور بے سرومانی کے بادل پوری شدت سے گرج رہے تھے تو محسن انسانیت ﷺ نے روم و ایران کی فتح کی نوید سنائی(6)۔

محسن انسانیت ﷺ نے کبائر کے مرتکب افرادکے بارے میں بھی کھانا کھلانے پر مغفرت کی امثال پیش کیں مثلا ایک بدکار عورت کے بارے میں اطلاع دی کہ ایک کوئیں پرپانی پی چکنے کے بعداس نے ایک کتے کو دیکھا جوپیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا تھا، اس بدکار عورت نے کوئیں سے پانی نکال کر اس جانور کو پلایا،  اس (معاشی)عمل کے عوض اﷲ تعالی نے اس اسکے سارے گناہ معاف کر دیے(7)۔ ایک عابد نے چار سوسال عبادت میں سرف کر دیے،  ابلیس عورت کی شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہوا تو وہ عابد اس سے لذت اندوز ہو چکا۔ بعد از گناہ حصول طہارت کے لیے جھیل پر گیااور چار روٹیاں ساتھ لیتا گیا۔ دوران غسل ایک مسافر کی درخواست پر اشارے سے اسے دو روٹیاں کھا لینے کی اجازت دے دی۔ قیامت کے دن جب نامہ اعمال پیش ہوا تو چار سو سال کی عبادت چند لمحوں کی لذت کے برابر ٹہر گئی اور دو روٹیوں کا اشارہ ہی باعث مغفرت ثابت ہوا(8)۔

 شریعت محمدی ﷺ  میں گناہوں کے کفارے کے اعمال عموماٌ تین طرح کے ہیں ، پہلی قسم غلام آزاد کرناجبکہ محسن انسانیت ﷺ کی بعثت مبارکہ کرہ ارض سے غلامی کے خاتمے کا مقدمہ بنی، دوسری قسم روزے رکھناجن کی تعداد اور بعض شرائط ایسی ہیں کہ دشوار ترین تب محض تیسری قسم رہ جاتی ہے کہ کھانے کھلائے جائیں اور گناہوں کے کفارے ادا کیے جائیں مثلاٌ قسم توڑ دی تو دس مساکین کو کھانا کھلایا جائے(9)، جو روزہ نہ رکھ سکے وہ مسکین کو کھانا کھلائے(10)، جو روزہ توڑ بیٹھے وہ ساٹھ مساکین کے کھانے کا اہتمام کرے(11)، حج کی ادائگی میں کوئی غلطی کوتاہی ہو جائے تو قربانی کرے(12) اور احرام کی حالت میں شکار کر بیٹھے تو قربانی دے (13)وغیرہ۔ کھانا کھلانا اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کا اس قدر پسندیدہ عمل ہے کہ نہ صرف یہ کہ بعض مراسم عبودیت کے ساتھ اسے لازم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ دیگر عبادات کی تکمیل اور شکرانے کے ساتھ اسے مشروط کر دیا گیا ہے مثلاٌرمضان میں سارا ماہ بھوکے پیاسے رہ کر گزارا لیکن جب تک فطرانہ ادا نہ ہو جائے روزے آسمان تک نہ پہنچ پائیں گے(14)، حج کی تکمیل میں  قربانی، سال کی تکمیل پر قربانی، فصل اترنے پر عشر کا وجوب، نصاب کے بقدر مال پر سال گزرنے سے زکوۃ کی فرضیت، حتی کہ جو محسن انسانیت ﷺ سے علیحدگی میں ملناچاہے وہ بھی پہلے صدقہ کر کے آئے(15)نکاح کیا ہے تو ولیمہ کرے(16)، بچہ کی پیدائش پر عقیقہ کرے(17) اور نومولود کے سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرے یہاں تک کہ جس کے گھر کوئی فوت ہو جائے تو اسکی تالیف قلب بھی اس طرح کی جائے تین دن تک اس کے ہاں کھانا بھیجا جائے(18)۔

ﷲ تعالی نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر مسکین،  یتیم اور گرفتار کو کھانا کھلانے کا تقاضا کیا ہے(19)اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کوسات سو گنا بڑھا کر لوٹانے کا وعدہ کیاہے(20)اوراسے اپنے ذمہ قرض قرار دیاہے(21)۔ محسن انسانیت ﷺ نے موقع بہ موقع کھانا کھلانے کا شوق بیدار کیا کہ جو خود پیٹ بھر کر سویااور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ہم میں سے نہیں (22)، جس بستی میں کوئی بھوکا سو جائے اس بستی  پر سے اﷲ تعالی کی ذمہ داری ختم,اور محسن انسانیت ﷺ نے گھر آئے مہمان کو بغیر کھلائے پلائے رخصت کر دینے والے میزبان کو مردہ کہا۔ بھوکے اور غریب کا استحصال کرنے والے سود خور کو اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کا عندیہ ہے(23)، سونا چاندی سینت سینت کر رکھنے والے کو عذاب دوزخ کی وعید ہے (24)اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی گردانا گیا(25)۔ نبوی معاشرے کے تسلسل میں مانعین زکوۃ سے جنگ لڑی گئی، اس وقت کے حکمران سے کہا بھی گیاکہ منکرین زکوۃ سے صرف نظر فرمائیں لیکن خلیفۃ الرسول نے اس سے انکار کر دیا۔ دور فاروقی میں جب اسلامی انقلاب،  نبوی پیشین گوئیوں کی منازل کو چھو رہا تھاتو سب انسان مسلمان نہیں ہو گئے تھے اور نہ ہی سب مسلمان متقی و پرہیزگارہو چکے تھے لیکن انسان کی بھوک شکم سیری میں ضرور بدل چکی تھی اور ہر پیدا ہونے والا بچہ شہری کی حیثیت سے حکومت وقت سے اپنا مشاہیر وصول کرتا تھا۔

 اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تہذیب نے اس دنیاپر ایک ہزار سالوں تک حکمرانی کی اورہر دن خوراک کا دن ہوتا تھاکیونکہ پوری اسلامی تہذیبی تاریخ میں کہیں کسی ہوٹل کا پتہ نہیں ملتا اس لیے کہ شہر کے رؤساباہر نکل کر دوردور تک دیکھاکرتے تھے کہ اگر کوئی مسافر آرہاہوتواسے مہمان بناکر اپنے ہاں لے جاتے اور پھر نجی محفلوں میں یہ بات باعث فخر ہوتی کہ کس کے کتنے زیادہ مہمان قیام پزیر ہیں اور کس کے ہاں کتنا وسیع دستر خوان ہے۔ لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ سیکولر مغربی تہذیب نے جہاں ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں تولا ہے وہاں کھانے پینے اور خوراک کو بھی حرص و لالچ اورطمع سے آشکارا کر دیا ہے،  سال بھر میں خوراک کا ایک عالمی دن منانے والے ہرسال ہزاروں ٹن گندم صرف اس لیے سمندر میں بہادیتے ہیں کہ بازار میں بھیج دینے سے گندم کی مارکیٹ مندے کا شکار ہوجائے گی اور صحیح دام نہیں ملیں گے جبکہ دنیابھر میں ہرسال ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ محض بھوک کے مارے موت کی آغوش مں سدھار جاتے ہیں اور تف ہے انسانیت کے ان ٹھیکیداروں پر جو ہر ماہ کے آخر میں دودھ کے بھرے ہوئے ٹینکرمٹی کے گڑھوں میں بہادیتے ہیں کیونکہ اس دودھ کی برآمد کے لیے انہیں مناب رقم کی بولی میسر نہیں آتی۔  اور کیاکہیے ان خیرخواہان انسانیت کو جو پاگل گایؤں کا گوشت افریقی اور ایشیائی ممالک میں برآمد کر دیتے ہیں کیونکہ یہاں بھوک سے لوگ تڑپ رہے ہوتے ہیں اور ان سیکولر تہذیب والوں کو ان بھوکوں پر بہت ترس آرہا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی زبان میں اہل یورپ لوگوں کا خون پے کر مساوات کا درس دینے والے ہیں اور یہی حقیقت ہے کہ کتنے کی خوراک کے عالمی دن آئے اور گزر گئے تو کیا اس دنیاسے بھوک کم ہوئی ؟؟۔

حوالہ جات:

1۔ سورۃ فاتحہ آیت1

2۔ سورۃ قریش آیت4

3۔ بسیونی، ابو حاجر محمد:موسوعہ اطراف حدیث جلد4صفحہ495

4۔ منصورپوری، قاضی سلیمان سلمان، رحمۃ اللعالمین، جلد 3، صفحہ193، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور تاریخ ندارد۔

5۔ نعیم صدیقی، محسن انسانیت، صفحہ204، اسلامک پبلیکیشنز لاہورجولائی1990

6۔ مبارکپوری، صفی الرحمن، الرحیق المختوم، صفحہ413، المکتبہ السلفیہ لاہور1999ء

7۔ بخاری، کتاب بدء الخلق،  باب17حدیث نمبر3321

9۔ سورۃ المائدہ، آیت89

10۔ سورۃ بقرہ، آیت184

11۔ کفایت اﷲ مفتی، روزہ اورزکوۃ صفحہ19، دعوہ اکیڈمی اسلام آباد1987ء

12۔ سورہ بقرہ، آیت196

13۔ سورۃ المائدہ، آیت95

14۔ مسلم، کتاب الزکوۃ، باب 6، حدیث نمبر2288

15۔ سورۃ مجادلہ، آیت12

16۔ خطیب تبریزی، محمد عبداﷲ، مشکوۃ، کتاب النکاح۔ باب ولیمہ

17۔ ایضا، کتاب العقیقہ، باب 2

18۔ ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب صفۃ الطعام الاہل المیت

19۔ سورۃ دہر، آیت8

20۔ سورۃ بقرہ، آیت261

21۔ سورۃ بقرہ آیت245

22۔ بیہقی، مشکوۃ المصابیح، کتاب الاآداب، حدیث نمبر4991

23۔ سورۃ بقرہ آیات278,279

24۔ سورۃ توبہ آیت نمبر34

25۔ سورۃ بنی اسرائیل، آیت27

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔