حیاتِ صدیق اکبرؓ کے چند روشن پہلو
مفتی محمد صادق حسین قاسمی
22جمادی الاخری افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبر ؓ کا یوم ِ وفات ہے۔اس مناسبت سے کچھ تذکرہ اس عظیم المرتبت شخصیت کا کرتے ہیں اور ان کی حیاتِ مبارکہ کے چند پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں ،اگرچہ کہ ان کی پوری زندگی ایمان وعمل کی ایک روشن اور تابناک زندگی ہے ،اور ہر لمحہ ٔ حیات قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے پیغام وسبق ہے۔
بلاشبہ سیدنا صدیق اکبر ؓان مقدس ہستیوں میں سے ہیں جن کی زندگی کا ذکر اور ان کی یادیں حرارتِ ایمانی کا ذریعہ اور ولولہ ٔ اسلامی کے تازہ ہونے کا سبب ہے۔نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی جو بے مثال تربیت فرمائی اور ان کے ظاہر و باطن کو جن اخلاق سے آراستہ کیا تھا اس کا سب سے اعلی نمونہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تھے ،وہ خلق نبوی کے پیکر مجسم اور صفات محمدی کے مظہراتم تھے ،اللہ تعالی نے آپ میں نبی کریم ﷺ سے عجیب مشابہت عطا فرمائی تھی ،ابتدائے اسلام سے لے کر آخری سانس تک ان کی زندگی سیرت ِرسولﷺ اور تعلیمات رسولﷺ کا جیتا جاگتا نمونہ تھی ،خدا کی رضا اور نبی کی مرضی کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا،اور رفاقت ِ نبیﷺ کا سب سے زیادہ حق ادا کیا ،آپ کی ہرا دا محبت ِرسولﷺ کی غماز ہوتی ، اور منشائے نبیﷺ کو پوری امت میں سب سے پہلے سمجھنے والے ،اور خدا کی سرزمین پر انبیا ے کرام ؑکے بعد قیامت تک سب سے اونچا مقام ومرتبہ رکھنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی ہیں ۔وہ رفیق ِ غار بھی ہیں اور غم گسا ر نبی بھی،سفر و حضر کے ساتھی بھی ہیں اوررمز ِ شناس ِ نبو ت بھی، میدان دعوت سے لے کر میدان جنگ ہر موقع پر نبی کی محبت میں جان وتن لٹانے والے ،اور حب ِ رسول سے سرشار زندگی بسرکرنے والے ابو بکر صدیق ؓ کی حیات مبارکہ کے بے شمار پہلوں انسانوں کے لئے سبق آموز اور عبرت خیز ہیں ۔دین و اسلام پر سیدنا صدیق اکبر ؓ نے جس طرح خود کوہمیشہ پیش پیش رکھا اور مال و جان کو جس نرالے انداز میں خدمت رسول میں پیش کیا وہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک لا فانی پیغام ہے ،محبت رسول اور دعوائے عشق نبی کرنے والوں کے علامہ اقبا ل ؒ کا یہ شعر یقینا ایمان افروز ہو گا کہ:
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق ؓ کے لئے ہے خدا کا رسولؐ بس
امت میں سب سے زیادہ رحم دل :
نبی کریم ﷺ نے اپنے جاں نثار اور سچے فدا کار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے اور خود اللہ تعالی نے قرا ٓن مجید میں ان کی تعریف و تو صیف فرمائی ،حضرت ابوبکر ؓ انتہائی رحم دل اور نرم مزاج تھے ،ان کی اسی خوبی کو سرور دوعالمﷺ نے بیان فرمایا کہ:أرحم أمتی بأمتی أبوبکر۔(ترمذی :3752) کہ میر ی امت میں سے زیادہ رحم دل ابو بکر ہے ،اسی رحم دلی کے اثرات آپ کی پوری زندگی میں نمایاں تھے ،انسانی ہمدردی و خیر خواہی ، پریشان حالوں کی دست گیری ،اور مجبوری ولاچاروں کی غم گساری میں آپ کی اس ممتاز صفت کا بڑا دخل ہے ۔
نیکیوں میں سبقت کرنے والے:
حضرت ابوبکر ؓ کو اللہ تعالی نے صحبت ِ نبوی کی برکت سے کچھ ایسے سانچے میں ڈھالا تھا کہ وہ ہروقت نیکیوں کی سبقت اور نیک کاموں کے انجام دینے میں کوشاں رہتے ،چناں ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کرام ؓسے پوچھا کہ: آج کون روزے سے ہے ؟تمام صحابہ میں حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ :ائے اللہ کے رسول ! میں روزے سے ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ:آج کس نے مریض کی عیادت کی ہے ؟پورے مجمع حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ : یا رسول للہ! میں نے ابھی مسجد آتے ہوئے راستہ میں عبد الرحمن ابن عوف ؓکی مزاج پرسی کی ہے،آپ ﷺ نے سوال کیا کہ آج تم سے کس نے صدقہ کیا ہے ؟اس مرتبہ حضرت ابوبکرؓ ہی نے کہا کہ :ائے رسول اللہ :میں مسجد میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک سائل نے مانگا تو میں نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن ابوبکر کو روٹی کا ٹکڑا دے آیا کہ اس کو پہنچادے ۔نبی کریم ﷺتم کو جنت کی خوش خبری ہے ،تم کو جنت کی خوش خبری ہے ۔اس موقع پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ :میں نے کبھی کسی نیک کام میں ابوبکرؓ سے سبقت نہیں کی وہی آگے رہے ،حضرت علی ؓ نے کہاکہ:وہ بہت زیادہ سبقت کرنے والے ہیں ،خدا کی قسم ہم کبھی ابوبکرؓ سے آگے سبقت نہیں کرسکے۔( العبقریات الاسلامیہ للعقاد:2/200)ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :جو شخص کسی چیز کا ایک جوڑااللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرے گا وہ جنت کے دروازوں سے یوں بلایا جائے گا:اللہ کے بندے !( اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجاکیوں کہ) یہ دروازہ بہتر ہے ۔جو شخص نمازی ہو گا وہ ’’باب الصلاۃ‘‘ سے بلایا جائے گا،جو شخص اہل جہادسے ہوگا وہ ’’با ب الجہاد‘‘ سے بلایا جائے گا ،جو شخص صدقہ و خیرات کرنے والوں میں ہوگا اسے’’ باب الصدقہ‘‘ سے بلایا جائے گا ،جو شخص روزے داروں میں ہوگا وہ’’ باب الصیام‘‘ یا ’’باب الریان‘‘ سے بلایا جائے گا ۔حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ:ائے اللہ کے رسول ! کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جسے ان سب دروازو ں سے بلایا جائے گا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ہاں اور ائے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی میں ہوگے ۔(سیدنا صدیق اکبر ؓکی زندگی کے سنہرے واقعات:147)
راہ ِ خدا میں خرچ کرنا:
سیدنا صدیق اکبرؓ عرب کے ممتاز تاجرین اور صاحب ِ ثروت لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ،قبول ِ اسلام سے قبل ہی پاکیزہ اخلاق اور عمدہ اوصاف سے اللہ تعالی نے نوازا تھا ،اور جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور ایثار و ہمدردی کی ہدایات ملیں تو وہ جذبہ ٔ سخاوت مزید پروان چڑھا اور اسلامی تاریخ میں آپ کی سخاوت اور فیاضی ایک ضرب المثل بن گئی ،آپ ؓ نے خدا کی راہ میں اپنا مال و متاع سب کچھ قربان کیا او ر ہمہ وقت اشارہ ٔ نبوی کے منتظر رہتے اور جیسے ہی حکم نبی ہوتا اپنا مال سب سے پہلے پیش فرماتے ۔آپ ؓ نے جس بے لوث انداز میں اپنے مال کو خرچ کیا اور اور منشائے نبوی کے مطا بق حاضر کیا خود اس کی تائید کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے کچھ دنو ں قبل فرمایا کہ :مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر ابوبکر( رضی اللہ عنہ)نے اپنی صحبت اور مال سے ممنونِ احسان کیا ہے ،اگر میں اپنے رب کے سواکسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا ،لیکن ہماراباہمی تعلق اسلامی بھائی چارے اور محبت کا ہے ۔( بخاری :499)
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچا یا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچا یا ہے ۔یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ آبدیدہ ہوگئے اور عرض کیا کہ : اے اللہ کے نبی !میں اور میرا مال سب کچھ آپ ہی کا تو ہے ۔( مسند احمد:7264)حضرت ابوبکر ؓ نے جب اسلام قبول کیا تھا اس وقت وہ چالیس ہزار درہم کے مالک تھے ،اور جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانے لگے تو آپ کے صرف چار ہزار درہم رہ گئے تھے ،تما م اللہ کے راستے میں ،غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کیا ۔( تاریخ الخلفاء :34) حضرت ابوبکر ؓ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کے منتظر رہتے ،ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا ،حضرت عمر ؓ کا پاس اس وقت معمول سے زیادہ سرمایہ موجو د تھا ،انہوں نے خیال کہ یہ موقع ہے کہ میں ابوبکر ؓ سے خیرات میں سبقت کروں ،چناں چہ وہ نصف سرمایہ خدمت اقدس میں پیش کیا ،نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا کہ اہل و عیال کے لئے کتنا چھوڑا ؟عرض کیا کہ اسی قدر ۔اتنے میں یار ِ غار ،عاشق جاں نثار حضرت ابوبکر ؓ بھی اپنا کل سرمایہ لے کر حاضر ہوگئے ،نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ : گھر والے کے لئے کیا چھوڑا؟انہوں نے عر ض کیا کہ : ان کے لئے خدا اور اس کا رسول ہے ۔جب یہ بے مثا ل جذبہ ٔ ایثا ر دیکھا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ : اب میں کبھی ان سے سبقت نہیں لے جا سکتا ۔( خلفائے راشدین :35)
غلاموں کو آزاد کرانا:
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر نہایت درد ناک سلوک کیا جاتا اور خاص کروہ حضرات جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ان پر تو آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے جاتے اور سفاکیت کا معاملہ کیا جاتا ،ان کس مپرسوں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے اور ان مظلوں کو ظلم و جبر کے پنجہ استبداد سے آزاد کروانے میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر ؓ آگے بڑھے اور اپنے مال کو لٹاکر ان کو رہائی دلوائی ،آپ کے آزاد کردہ غلاموں میں حضرت بلال ؓ ،حضرت عامر بن فہیرہؓ،حضرت ابو فکیہ، ؓ حضرت لبینہ ؓ،حضرت زنیرہ ؓ،حضرت نہدیہ اور ام عبس ؓ کے نام شامل ہیں ۔ان غلاموں کے آزا د کرانے سے اسلام کو جو تقویت ملی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ نے لکھا کہ :اسلام اس وقت حد درجہ غریب اور بے برگ ونوا تھا ،ایک طرف ان غلاموں کے استقلال اور ان کی پامردی نے مکہ کی سرزمین میں اسلام کے قدم جمائے تو دوسری جانب حضرت ابوبکر ؓنے اللہ کی راہ میں دولت خرچ کرکے ان قدموں میں توانائی اور مضبوطی پیدا کی ۔( صدیق اکبر:39) غلامو ں کو آزاد کرانے میں حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے مال کا بڑا حصہ لگا اور صرف ان کو ظلم سے راحت دلانا اور اللہ تعالی کی رضا حا صل کرنا مقصود تھا ، چنا چہ ایک مرتبہ آپ کے والد ابو قحافہ ؓ نے کہا کہ:ابوبکر تم زیادہ تر عورتوں اور ان میں بھی بوڑھیوں کو خرید کر آزاد کرتے ہو ، بھلا یہ تمہارے کس کام آئیں گی ۔اگر ان کے بجائے تم تندرست وتوانا غلا م مردوں کو خرید کر آزاد کرو تو کبھی وقت پڑنے پر وہ تمہاری مدد بھی کرسکتے ہیں ۔حضرت ابوبکر ؓ نے کہا:ابا! میں تو یہ سب کچھ انعام ِخداوندی حاصل کرنے کے لئے کرتا ہوں ۔(تاریخ الخلفا ء للسیوطیؒ:41)
جذبہ ٔ خدمت ِ خلق:
سیدنا صدیق اکبر ؓ خدمت ِ خلق اور مخلوق کی نفع رسانی کی ہر دم فکر میں رہتے ،بندگا نِ خدا کو راحت پہنچانے اور ان کے کام آنے کے لئے ہرممکن تگ ودو میں لگے رہتے ،خلافت سے پہلے اور خلافت کے بعد کے حالات میں یکساں طور پر انسانیت کی خدمت سے اپنے دل کو شاد کرتے اور جذبہ ٔ خدمت کو تسکین پہنچاتے ،بقول مؤرخ اسلام شاہ معین الدین احمد ندوی ؒ کہ:خلق اللہ کی نفع رسانی اور خدمت گذاری میں ان کو خا ص لطف حاصل ہوتا تھا ،اکثر محلہ والوں کا کام کرتے ،بیماروں کی تیمار داری فرماتے،اور اپنے ہاتھ سے ضعیف و ناتواں اشخاص کیخدمت انجام دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔خلیفہ بننے سے پہلے آپ ؓ کا معمول تھا کہ وہ ایک خاتون کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے ،جب تخت ِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو ایک دن اس خاتون نے کہاکہ:اب تو ابوبکر ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہیں گے ؟جب آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ؓ نے فرمایا کہ:میں ضرور دودھ دوہا کروں گا ،میں امید کرتا ہوں کہ یہ نئی ذمہ داری گذشتہ عادت و اخلاق سے نہیں روکے گی،اور آپ برابر حسب ِمعمول اس خاتون کی بکریوں کا نکالا کرتے تھے۔(سیدنا ابوبکر صدیق شخصیت اور کارنامے:225) اطراف ِ مدینہ میں ایک ضعیف و نابینا عورت رہتی تھی،حضرت عمر ؓ روز علی الصباح اس کے جھو پڑے میں جاکر ضروری خدمات انجام دیتے تھے ،کچھ دنوں کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص ان پہلے اس کار ِ ثواب کو انجام دے جاتا ہے ،ایک روز بغرض تفتیش رات کے ابتدائی حصے میں آکر دیکھا کہ وہ کوئی شخص نہیں بلکہ خلیفہ ٔ وقت امیر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اس نابینا اور ضعیف کی خدمت انجام دے کر نکل رہے ہیں ،حضرت عمر نے کہاکہ : اللہ کی قسم ! کیا روز آپ ہی سبقت کر جاتے ہیں ۔( خلفاے راشدین :37)
وفات:
22جمادی الآخری 13ھ بروز دوشنبہ مابین مغرب و عشاء اس دارِفانی سے عالم ِبقاکی طرف انتقال فرماگئے اور شب ِانتقال ہی رسول اللہ ﷺکے پہلوئے مبارک میں آپ کو دفن کیا گیا۔( صدیق اکبرؓ:306)وفات کے وقت حضرت ابوبکر ؓ کی عمر ترسٹھ (63) سال تھی ۔آپ کی نمازِ جنازہ حضرت عمر ؓ نے پڑھائی اور آپ کی قبر میں حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت طلحہ اور آپ کے بیٹے عبد الرحمن اترے اور آپ کی لحد کو رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک سے قریب کرکے رکھاگیا۔بقول الدکتورعلی محمد الصلابی کہ:اس طرح چہار دانگ ِ عالم میں اللہ کے دین کی نشر واشاعت کی خاطر عظیم جہاد کرتے ہوئے ابوبکر ؓ اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔انسانی تمدن و تہذیب اس بطل جلیل کی مقروض رہے گی،جس نے وفات ِ نبوی کے بعد دعوتِ نبوت کا پرچم اٹھایااور آپ کے لگائے ہوئے پودے کی حفاظت کی،عدل وحریت کے بیچ کی نگہبانی کی اور اسے شہدائے کے پاکیزہ خون سے سیراب کیا،جس سے ہر طرح کے ثمرات امت کو وافر مقدار میں ملے اور تاریخ میں علوم و ثقافت اور فکر میں عظیم تقدم حاصل ہوا،انسانی تہذیب صدیق اکبرؓ کی مقروض رہے گی کیوں کہ آپ کے جہاد اور صبر عظیم کے ذریعے اللہ نے دین اسلام کی حفاظت فرمائی اور اسلام کو اقوام وامم اور مختلف ممالک میں عظیم فتوحات کے ذریعے پھیلادیا۔(ابوبکرالصدیق شخصیتہ وعصرہ:398)
تبصرے بند ہیں۔