حیا: صالحہ معاشرے کے لیے جزو لاینفک
الطاف جمیل ندوی
روایتی مسلم معاشرے اور حیاآج سے چند سال پیشتر تک ہمارے دیہا ت اور چھوٹے شہر اگرچہ مکمل دیندار معاشرے کی تصویر نہ تھے لیکن روایتی مسلم معاشرے ضرور تھے۔ حیا اورغیرت زندہ تھی۔ گھروں کے اندر بھی عورتیں دو پٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں۔ مرد کھانس کر یا آواز دے کر اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتین۔ بھائی غیرت مند تھے۔ بہنوں کو بے پردہ ساتھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجھک رکھتے تھے خا ندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا مکر نے سے جھجکتے تھے. بڑوں کےسامنے حیا کی جا تی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔ ناگوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے تھے۔ ’دلہن اور حیا ‘ لا زم و ملزوم تھے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت باپ اور بھا ئی ملتے تھے تو حیا کی وجہ سے اس کو پورا ڈھک دیا جاتا تھا وہ باغیرت باپ اور بھائی دلہن کے ننگے سر پر ہا تھ نہ پھیرتے تھے۔ بسوں میں سفر کرتے ہوئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھتے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہوجاتے۔ گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پر ٹوکا جاتا تھا۔ ۔ گویا مسلمان مرد کی حیا و غیرت، گھروں میں شرم و حیا کی قوت نا فذہ تھی۔ ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت نا پسند کیا جا تا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے۔ جو بیویوں کو بے پردہ باہر لےجا نے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے۔ بلکہ صاف کہا جا تا تھا کہ فلاں بہت بے غیرت ہے۔ اس کی بیوی اور بہن ایسے با زا روں میں گھو متی ہے۔ آج کیا ہوگیا ہے؟ مسلمان آج کیا ہوگیاہے۔ کہاں گئی آج مسلمانون کی حیا اورغیرت۔ ۔ ۔ ؟
آج دنیا بھر میں اسلام مظلوم اور اجنبی ہے۔ مسلمان ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ ہر ائیر پورٹ، ہر پبلک مقام پر مسلمان کی عزت نفس پامال کی جا رہی ہے۔ جہاں خون بہہ رہا ہے مسلمان کا بہہ رہا ہے۔ عرب سے لے کر ایشیا، افریقہ اور یورپ تک۔ ۔ ۔ کوئی جان ارزاں ہے تو مسلمان کی۔ کیوں اس لیے کہ مسلما نوں کے اندروہ ایمانی غیرت اور حیا نہیں رہی جو کفر کو چیلنج کر سکے۔ جو ظالموں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے. آج امت کا اخلاق و کردار تباہ ہوتا ہے یا ایمان غارت ہوتا ہے۔ تعلیم بے حیا کارپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے معنی کھو چکی ہے۔ اب تعلیم صرف روٹی کمانے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور استاد اور طبیب جو معا شرے کے معزز ترین منصب تھے، آج اپنا مقام کھوچکے ہیں ۔ سچ بتا ئیں اللہ سے حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں؟ بندوں سے تو بندے بہت ڈرتے ہیں۔ ہر ہر کام کر نے سے قبل یہ ضرورسوچا جاتا ہے کہ ’’لوگ کیاکہیں گے؟‘‘ یہ کتنے لوگ سوچتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے دیکھ رہے ہیں۔ ۔ ان سے حیا کریں۔ ان سے ڈر کر اپنے رویے اور اعمال بدلیں اور اپنے ارد گرد کے معا شرے اور ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں
اکبر الہ آبادی مرحوم چند بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ آج بے اختیار ان کے شعر یا د آتے ہیں جو مردانہ غیرت کی صحیح تصویر کشی کرتے ہیں
بے پردہ نظر آئیں مجھ کو چند بیبیاں
اکبر وہیں غیرت قو می سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا
شادیوں میں نامحرم مردوں کاعورتوں کو مختلف زاویوں سے فوکس کر کر کے فلمیں بنانا اور باپوں، بھائیوں کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، ہاں اکثر دیندار گھرانوں میں اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے تو دل خوف سے کانپ جاتا ہے کہ اے بہت حیا اور غیرت والے اﷲ! تیری یہ چشم پوشی ہمارے لیے عذاب بن کر نہ نازل ہو جائے اور شاید ہو بھی رہی ہے۔ بے پردگی تو ایک طرف۔ ۔ آج ساتر اور باحیا لباس ہی معاشرے سے عنقا ہوگیا ہے جب باپردہ و باحیا عورت کپڑا خریدنے جا تی ہے اور باریک کپڑے لینے سے انکار کرتی ہے تو بہت سے باریش دکا ندار بھی کہتے ہیں باجی لے جا ئیں یہ دھونے سے موٹا ہوجائے گا کپڑے بھی حیا کے بنیادی تقا ضے ہی پورے نہیں کرتے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے حیا کی ترویج ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول ؐ کی طرف رجو ع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو وا پس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں جو صحابہ کرام کے دور کا خا صہ تھا۔ آئیے مختصراً دیکھیں قرآن و سنت میں اس با رے میں کیا احکامات ہیں اسلام کی نشاہ ثانیہ یا حیا کی ترویج اس کا ماخذ قرآن کریم اور سنت رسول ؐ ہیں۔ لہذا ہمیں آکسفورڈ اور ہا رورڈ کے بجا ئے قرآن و سنت کو تعلیم کا مرکز و محور بنانا ہوگا۔ خا ندان کے گہوارے سے لے کر کا لج اور یو نیورسٹی تک جب تک تعلیم و تدریس کی یہ بنیا دیں درست نہیں ہو تیں انسانوں کا سدھا ر بھی مشکل ہے۔ گھر کے اندر مردنگران ہے، راعی ہے اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیس نسواں کا محافظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اے مسلمان مردو! اپنی ذمہ داریوں کو پہچا نو۔ ’’ آپ پر باپ، بھائی یا خاوند ہو نےکے اعتبا ر سے فرض عا ئد ہو تا ہے کہ اپنی عورتوں پر پا بندی عا ئد کریں اور انہیں بے راہ روی سے روکیں۔ بخاری و مسلم میں آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ تم میں سے ہر آدمی حا کم ہے اور اس سےاس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہو گی۔ ‘‘ مرد اس با ت کے لیے بھی مامور ہیں کہ وہ عورتوں کو تہذیب، اخلا ق، دین، دنیا اور آخرت کی با تیں سکھلا ئیں۔ مرد اگر قوامیت کی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اپنے اندر تمام مطلوبہ صفات پیدا کریں تو ان شاءاللہ اس کے نتیجے میں گھر کانظام درست ہوگا اور بہت ساری معاشرتی برائیاں جس میں بے حجابی اور بے حیا ئی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں از خود کم ہو جا ئیں گی۔ معاشرے کو نورانی، پاکیزہ اور حیا دار بنا نے کے لیے مردوں کو دیے گئے مزید احکام سورہ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نوراورسورہ احزاب وہ سورتیں جن میں زیا دہ ترمعاشرتی احکا مات دیے گئے ہیں۔ خصوصاً سورہ نور میں جو بقول سید قطب شہیدؒ’یہ سورۃ ہے جس میں اللہ نور السموٰت والارض کا ذکر ہوا ہے۔
اس سورۃ کے مضامین قلب ونظر اورضمیر و اخلا ق کے لیے نور ہیں اور اس کے نتیجےمیں انسانوں میں نورانی آداب پیدا ہو تے ہیں۔ اس سورۃ میں جو نفسیاتی، اخلا قی، عا ئلی ضوابط اور اجتماعی قوانین وضع کیے گئے ہیں وہ معا شرے کے لیے نور ہی نور ہیں اور یہ نور پھر کائناتی نور ہی سے مر بوط ہے اور وہ نور روح کا نور ہے، دلوں کے لیے روشنی ہے اور ضمیر کے لیے صیقل ہے اور یہ سب اللہ کے نور کا پرتو ہے۔ ‘ ) فی ظلا ل القرآن تفسیر سورہ نور ، جلد چہا رم اس سورہ میں نبی کریم ؐ کے ذریعے اللہ تعا لیٰ عورتوں سے قبل مردوں کو حکم دیتے ہیں کہ:قل للمومنین یغضوا من ابصارہم و یحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خببر بما یصنعون سورہ النور0اے نبی ؐ مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظر یں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگا ہوںکی حفاظت کریں، یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پا کیزہ ہے۔ بے شک اللہ جا نتا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ یہ حکم اگر چہ عورتو ں کے لیے بھی ویسے ہی اہم ہیں جیسے مردوں کے لیے لیکن اللہ تعا لیٰ اس با ت سے بخو بی وا قف ہے کہ مردوں کے اندر یہ جذبہ حیا بدرجہ اولی کتنا ضروری ہے جو دل کے چوربھی پکڑ لیتا ہے اور نگاہ کو بھی بھٹکنے سے بچا تا ہے۔ اس لیے کہ مرداگر اپنی نگا ہوں کی حفا ظت کر نے وا لاہے اورچونکہ وہ قوام ہے تو گھر میں اس کی بہو بیٹیا ں بھی پا کیزہ اور مکمل لبا س میں ملبوس ہوں گی اور بیٹے بھی۔ ٹی وی اخبارات بھی گھر میں وہآئیں گے جو حیا میں نقب لگا نے والے نہ ہوں گے۔ گویا ایسے منا ظر ممنوع قرار دے گا جو شریعت نے ممنوع کیے ہیں دوسروں کے گھروں میں داخل ہو نے سےقبل اجازت لے کر داخل ہونے کا حکم بھی اللہ نے دیایعنی استیذان کا طریقہ بھی حیا کا ایک جزو ہے اور اس کے مخاطب بھی مسلمان معاشرے کے مرد ہی ہیں حتیٰ کہ آپؐکی تعلیمات کے مطا بق اپنے گھر میں بھی اجا زت لے کر داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ گھرکی خواتین پرایسی حالت میں نظر نہ پڑے جو حیا کے منا فی ہو، کتنے مرد حیا کا یہ تقاضا پورا کرتے ہیں؟اور اسی میں یہ حکم بھی شا مل ہے کہ جب اور جسے چاہیں گھر آنے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ آج مسلمانوں کے گھرا نے محرم اور نا محرم سب کے لیے کھلے ہیں۔ بلکہ بہت کم شوہروں، باپوں اور بھا ئیوں کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ شریعت نے کس کس پر گھرکے اندر بلا جھجک داخل ہو نے پر پا بندی لگا ئی ہے تا کہ گھر کی فضا کوشکوک و شبہات سے پا ک رکھی جا سکے۔ ازدواجی تعلقات کو پا ئیدار بنایاجا سکے۔ بچوں اور بچیوں کے اخلا ق و کردار کو پاکیزہ رکھا جا سکے اور چوری چھپے آشنائیوں سے بچایا جاسکے۔ [
مردوں کے لیے اس علم کا ہونا کتنا ضروری ہے جس کے نہ ہو نے کی وجہ سے آج شرح طلا ق مسلمان مما لک میں بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ گھروں کےاندر لڑائیاں جھگڑے اور شکوک و شبہا ت معمول کا حصہ بن گئے ہیں اور پا کیزگی رخصت ہو رہی ہے اور مسلما ن مردوں کی غیرت اور حیا نہ جا نے کہا ں سو رہی ہے۔ سورہ احزاب میں آیت حجاب اتری ہی مردوں کے لیے اور حکم دیا کہ:واذا سالتموھن متعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھنالاحزاب3عورتوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یعنی عورتوں کو تو پردے کا حکم ہے ہی، لیکن مردوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بے حجابانہ عورتوں سے میل جول نہ رکھیں۔ ان سے کوئی ضرورت پیش آئے تو پردے کی اوٹ درمیان میں ہونی چاہیے۔ دین دار اور باحیا مسلمان مرد ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں الحمد ﷲ۔ لیکن افسوس! وہ کتنی تعداد میں ہیں؟ اور ان میں سے بھی بعض کو دیکھا ہے کہ ان عورتوں کے بارے میں تو بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں جو پردہ دار ہیں، لیکن جو عورتیں پردہ نہیں کرتیں، ان سے بات کرنے میں یہ بھی تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ جب وہ پردہ نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ حالانکہ یہ حکم عام ہے اور اسی جگہ اس کے نفاذ کی ضرورت زیادہ ہے جہاں عورتیں پردہ نہیں کرتیں تا کہ دل پاکیزہ رہیں۔ اگر عمومی مسلمان مرد اس اصول کی پابندی کریں تو گھروں ہی کے نہیں بلکہ دفاتر کے ماحول بھی بدل جائیں عورتوں کی مجبوری کی ملازمتیں بھی آسان ہوجائیں گی۔ تقویٰ، حیا، غضّ بصر اور حجاب کے ماحول میں پاکیزگی نشوونما پائے گی اور آج کی دنیا کے بہت سے مسائل )مثلاً جنسی تشدّد، قتلِ غیرت وغیرہ( بغیر کسی قانون سازی اور پولیس کے دباؤ کے از خود ختم ہوجائیں گے۔ کیونکہ حیا کے یہ دونوں مظہر۔ غضّ بصر اور حجاب کے خیال رکھنے کا عمل، دلوں کی پاکیزگی کو جنم دیتے ہیں۔ قوا انفسکم و اھلیکم ناراً۔ کا حکم بنیادیطور پر نبی کریم ؐ کو دیا گیا اور ان کی وساطت سے تمام امتِ مسلمہ مخاطب ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آتش دوزخ سے بچاؤ۔ لیکن ظاہر ہے ابتدائی حکم مسلم مرد ہی کی ذات کو دیا گیا، کیونکہ قوّام مرد ہے۔ مردوں کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے وللرجال علیھن درجہ اور مرد اپنے گھر والوں کا راعی اور نگران ہے۔ آتش دوزخ۔ ۔ وہ آگ ہے۔ ۔ وہ سزا ہے جس سےاللہ نے خود اپنے بندوں کوڈرا یا ہے اور فرمایا ہے ’یا عبادفا تقون‘ اے میرے بندو ڈر جا ئو۔ لہذا مردوں اور خواتین میں تقویٰ اور حیا کا وصف بیدار کر نے کے لیے اس سے موثر چیز اور کو ئی نہیں ہو سکتی کہ ایک جا نب وہ اللہ تعا لیٰ کی ان صفات پر غور کریں جو اس کے سمیع، بصیر، رقیب ہو نے، اس کے ہمہ وقت نگرانی کے احساس کو تا زہ کریں۔ احساس جوابدہی انسان کے اندر پختہ کریں۔ فکر آخرت کو بیدار کریں اور دوسری جا نب آتش دوزخ سے ڈرا ئیں۔ بار با ر قرآن پا ک کے ان حصوں کا مطا لعہ کیا جا ئے اور گھر والوں کو کرایا جائے جس میں اللہ تعا لیٰ نے بے حیا ئی، فحاشی و عریانی اور دیگر گناہوں کا انجام بتایا ہے تا کہ ان سے بچنے کی تحریک پیدا ہو۔ اللہ کے حضور حاضری کے مناظر جیسے قرآن و حدیث میں کھینچے گئے ہیں ان کو ویسے ہی بیان کیا جا ئے تا کہ پرتاثیر ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ طاغوت کی پیروی سے نکل کر اللہ کی عبادت میںداخل ہو نے اور معاشرے کی پاکیزگی کے دور رس اثرات، جو کہ دنیوی زندگی میں حیات طیبہ سے لے کر آخرت میں جنت تک جاتے ہیں، بھی وا ضح کیے جا ئیں۔
حیا اور حجاب کی برکات جو صحا بہ کرام ؓ کے زما نے میں تھیں مثالوں سے سمجھائی جائیں اور مرد بھی اپنی قوامیت کی ذمہ دا ری پوری کریں اور عورتیں بھی مثالی مائیں بن کر پاکیزہ نسلیں پروان چڑھا ئیں اور بالاخر حیا اور تقویٰ سے مزین اسلام کا نظام عصمت و عفت ملک میں نافذ کر نے کی عملی جدوجہد کی جا ئے تو کو ئی وجہ نہیں کہ آج کا معاشرہ بھی پا کیزگی کا اعلیٰ نمونہ نہ پیش کر سکے اور کفار بھی کوئی ناپاک جسارت کرنے سے قبل سو مرتبہ نہ سوچیں کہ ان کا واسطہ انسانیت کے پاکباز گروہ سے ہے اللہ تعالی سے حیا کریں اپنے بارے میں یہ سوچیں کہ ہم باحیا مسلم ہیں ہمیں اللہ تعالی سے حیات کرنا لازمی ہے اللہ سے حیا کرنے کے بارے میں سید سلما ن ندوی ؒ، سیرت النبیؐ جلد ششم میں رقمطراز ہیں کہ’’ اللہ کے لیے حیا کے معنی وہی ہوں گے جو اس کی ذات اقدس کے لائق ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے بدکار بندوں کو برائی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں اور اس کے آ گے جو ہا تھ پھیلا تا ہے اس کو نا مراد لو ٹا تانہیں۔ ‘صفحہ 383
اللہ کی حیا مثبت حیا ہے اور اللہ حق با ت کہنے سے نہیں شرماتا۔ ان اللہ لا یستحیی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ۔ البقرہ 26—اللہ حق کے اظہا ر سے نہیں شرما تا۔ فر ما ن نبوی ہے ان اللہ لا یستحیی من الحق بخاری حدیث ہے کہ۔ ’’اللہ سب سے زیا دہ غیرت مند ہے اور اسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے صحیح مسلم غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفات مسلما نوں مرد و خواتین میں بدرجہ اتم موجود ہوناضروری ہے مثلاً اعلیٰ ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوںکے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو نے والے۔ ۔ وغیرہ۔ حیا اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلماحا دیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کنواری پردہ نشین لڑ کیوں سے زیا دہ حیا دار تھے بخاری : باب الحیاصحاح میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپ ؐ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ کبھی کسی کے سا تھ بد زبا نی نہیں کی، با زاروں میں جا تے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ تبسم کے سوا کبھی لب مبا رک خندہ و قہقہ سے آشنا نہ ہو ئی۔ —بھری محفل میں کوئی با ت ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ متنبہ ہوجاتے۔ —آپؐ کو کعبہ کے گرد برہنہ طواف سخت نا پسند تھا، حمام میں برہنہ نہا نے سے سختی سے منع فرمایا، عورتوں کے حمام میں جا نے پر پا بندی لگا ئی۔ —معمول تھا کہ رفع حاجت کے لیے اس قدر دورنکل جا تے کہ آنکھو ں سے اوجھل ہو جا تے۔ مکہ معظمہ میں جب تک قیام تھاحدود حرم سے باہر نکل جاتے جس کا فاصلہ مکہ معظمہ سے کم از کم تین میل تھا۔ سیرت النبیؐ جلد دوم سید سلمان ندوی صفحہ15 آپہؐ بچپن میں ہی بہت حیا دار تھے۔
بعض موا قع پر آپ ؐ کو صحا بہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہوتی تھی لیکن آپ ؐ حیا کی وجہ سے خاموش رہتے۔ جیسے حضرت زینب ؓکے ولیمہ کے روز صحابہ دیر تک بیٹھے رہے، آپ ؐ کو نا گوار محسوس ہوتا رہا لیکن منع نہ فرمایا یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے خصوصی حکم نا زل فرما کر ان امور سے منع فرما یا۔ حیا اور صحا بہ کرام ؓصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے جن کی تر بیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم ؐ نے کی۔ ان کے فطری اوصا ف کو پروان چڑھایا، ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تاریخ کے بہترین انسان بنا کر اٹھا کھڑا کیا۔ خلفا ئے راشدین میں حضرت عثمانؓ سب سے زیا دہ حیا دار تھے اور نبی کریم ؐ بھی ان کی اس صفت کا لحاظ رکھتے تھے۔ با قی صحا بہ کرام کے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو حضرت عثمان کی آمد پر ڈھا نپ لیتے تھے کیوں کہ ان کی طبیعت حیا پسند ہے حضرت عمرؓ کی حیا غیرت ِمردانہ کا روپ رکھتی تھی۔ اللہ کے دین کے با رے میں وہ بہت باغیرت تھے پر دہ کے احکا م آنے سے قبل حضرت عمرکئی مر تبہ نبی کریم ؐ سے اس با ت کا اظہا ر کرچکے تھے کہ آپ ؐ کے گھر میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں بہتر ہے کہ امہا ت المومنین پردہ کیا کریں۔ پردے کے بغیر کوئی عورت پہچان لی جا تی تو انکو نا گوار ہوتا۔ سورہ نو ر میں جب زنا اور قذف کے احکام نا زل ہوئے اور چار گواہوں کی پابندی عائد کی گئی تو حضرت سعد بن عبادہ ؓنے اس پر قدر ے گرمجوشی کااظہا ر کیا کہ مرد اگر اپنی بیوی کو غلط کاری کرتے دیکھے تو چار گواہ لانے تک تو کام تمام ہوجائے گا۔ یہ کیسا قانون ہے؟ نبی کریمؐ نے اس تبصرے پر ناگواری کا اظہا ر فرمایا تو صحا بہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐسعد بن عبا دہ ؓکے با رے میں جلدی نہ فرمائیے یہ بہت غیرت مند ہیں۔ صحا بہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا۔ ان کی حیا نے انہیں ہر طرح کی بے حیا ئی، فحا شی اور عریانی سے روکے رکھا۔ معاشرے کو پا کیزہ رکھا۔ حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا۔ وہ احسان کی قدر کرنے وا لے، سا ئلین کو نہ لوٹانے والے تھے۔ وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معا شرے میں کسی کو کھلے عام گناہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق با ت کر نے سے شرما جائیں۔ کا فروں کے سامنے کلمہ حق نہ کہہ سکیں۔ جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے اللہ کی کبریائی نہ بیان کرسکیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ اللہ کےدین کے دفاع میں وہ بہت غیرت مند تھے۔ صحابہ کرام ؓ کو حیا نے ان مواقع پربھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنادیا دیا تھا جہاں دین سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حتی کہ صحابیات بھی سوال کر نے سے نہ شرماتیں اور احسن طریقے سےسوال کرتیں۔
حضرت عا ئشہؓ فرماتی ہیں’’ انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں تھیں کہ دین کا علم حاصل کر نے سے ان کو حیا نہیں رو کتی تھی۔ ‘‘مسلم کتاب الطہا رہ اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں اور مسلمان مرد بھی بدرجہاتم اس صفت سے متصف تھے۔ سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نافرمانی اور فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کرتے تھے۔ مردوں میں غیرت بدرجہ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں کو ئی بہن، بیٹی، بیوی اور کوئی عورت بے حیائی کے ساتھ باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبا دہ ؓ جیسے جری اور غیرت مند انسان معاشرے میں حیا کی ترویج کے لیے موجود ہوتے تھے
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔