آؤ دیوار یہ آنگن کی گرا لی جائے

ڈاکٹر فیاض علیگ

آؤ دیوار یہ آنگن کی گرا لی جائے

اور بگڑی ہوئی ہر بات بنا لی جائے

زندگی ہم نے بہت ناز اٹھائے تیرے

اب مگر اور نہ ہم سے تو سنبھالی جائے

جسم کی آگ بجھانا ہی محبت ہے مگر

پھر تو دنیا سے محبت ہی اٹھا لی جائے

اک حسیں دیکھ کے عاشق کا جنازہ بولا

خاک کی چیز ہے یہ خاک میں ڈالی جائے

عمر بھر پھر نہ پڑے نئے کی ضرورت یارو

ایک دن اس سے اگر آنکھ ملا لی جائے

کیسے زاہد پہ بھلا قوم بھروسہ کر لے

اپنی دستار بھی جس سے نہ سنبھالی جائے

وہ مرا تھا ہی نہیں مجھ کو یقیں ہے فیاض

کیسے اس دل کی مگر خام خیالی جائے

تبصرے بند ہیں۔