صوفیاء کی سیرِ باطن

ندرت کار

فلسفیوں کی عقلیت کو اہل تصوف نے صوفیانہ رنگ دیا۔ عقلیت (reason) چونکہ داخلی غورو فکرکا نام ہے، جس کا باہری دنیا (empirical data) سے قطعاً تعلق نہیں ہوتا۔ اسی تعقل کو انھوں نے سیر باطن کا نام دیا۔لیکن یہ سیر باطن کسی فلسفی کی نہیں، بلکہ ایک عبادت گذار، تارک دنیا، فقرپسند زہد و ورع سے متصف آدمی کی سیر باطن تھی۔ جو چلوں، فاقہ کشیوں، ریاضتوں اور عبادتوں سے اپنے داخل کی تمام کثافتوں ، لذات و مفادات کو دھو کر اسے پاکیزہ کر لیتا تھا۔ پھر ان کثافتوں سے پاک حالت میں اپنے داخل کی سیر اسے مشاہداتِ حقہ سے نوازتی تھی۔

اس سیرباطن کو فلسفی کے غوروخوض سے الگ کرنے کے لیے انھوں نے اپنا نام صوفی رکھا۔کیونکہ فلسفی پاکیزہ حالت میں غور نہیں کرتا تھا۔ اس لیے صوفیہ نے اپنے آپ کو الگ نام دیا۔ واضح رہے کہ لفظِ ‘صوفی’ میں صوف وہی ہے، جو یونانی لفظ Philo-sophyکا دوسرا حصہ ہے، یعنی دانش و عقلیت، فلسفیوں نے اسے س کے ساتھ املا کیا اور صوفیوں نے ص کے ساتھ۔ اگرچہ ایک طویل کوشش کے بعد اسے صُوف(اون)اور اصحابہ صفہ سے جوڑدیا گیا تاکہ تصوف اور فلسفہ کا تعلق پوشیدہ رہے۔ لیکن تصوف کے وحدت الوجود کو سمجھنے والے اوراسکندریہ کے فلسفی plotinus کے نظریۂ احد (The Theory of The One, Intellect & Soul) کو جاننے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک فلسفیانہ راے کو مشاہداتِ باطنی کا نام دیا گیا۔

یہ سیرباطن کے قضایا بھی عقلی قضایا کی طرح حتمی ہیں، اس لیے کہ یہ صالحین کے باطنی مشاہدات اور واردات ہاے قلبی ہیں۔ یہ عقلی قضایا سے بھی قوی تر ہیں، اس لیے کہ یہ پاکیزہ صفت صوفیہ کا غور اور سیر باطن ہے۔ ۷؂ فلسفہ کی طرح صوفیہ کے مشاہدات بھی قرآن سے ٹکراتے تھے ، اس لیے انھوں نے کہا کہ قرآن کی حقیقت اس کو سمجھ نہیں آسکتی، جس نے ہمارا سلوک نہ اپنایا ہو۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو علم وراثت میں چھوڑے تھے: ایک ظاہری جو علما کے پاس ہے اور ایک باطنی جو صوفیہ کے پاس ہے ۔ کچھ صوفیہ نے یہ تک کہہ دیا کہ قرآن عامۃ الناس کے لیے آیا ہے اور کچھ نے وہی تاثر دیا کہ معرفت سے محروم آدمی آیات کی حقیقی دلالت پا ہی نہیں سکتا۔ اگلی سطور میں ہم تصوف پر تبصرہ کم کریں گے، کیونکہ ہمارے موضوع کا تعلق main streamعلمی دھاروں سے ہے، تصوف اگرچہ قرآن کو کونے میں لگانے کے عمل میں حصہ دار ہے، لیکن اس کو یہ جرأت جن علوم نے دی، اس مضمون میں وہی زیر بحث ہیں۔بعض جدید صوفیہ کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ قرآن یا سادہ دین میں ذہین عناصر کے لیے رکھا ہی کیا ہے۔

اس علمی ورثہ کا اثر

یہ بات علوم اسلامیہ کی تاریخ کے ماہرین جانتے ہیں کہ منطق فکر یونان کے آنے سے پہلے ہی اسلامی فقہ میں مستعمل تھی۔ قیاس، اجماع وغیرہ کا ذکر خلفاے صحابہ کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ان کے پیچھے منطقی اصول کارفرما تھے، جن کو ابھی منطق کا نام نہیں ملا تھا۔ لہٰذا اس بے نام منطقی اصولوں نے اصول فقہ کی بنیاد رکھی تھی۔امام شافعی کی ”الرسالۃ” اوراصول کی دیگر کتب اسی منطق پر لکھی گئی ہیں۔اجماع اور قیاس کا ذکر جوان کتب میں ملتا ہے، وہ اسی منطق پر مبنی تھا۔یہ منطق محض استخراجی و استقرائی نہیں تھی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لسانی وفقہی اصولوں، نظریۂ علم اور الٰہیات کے تصورات سے مملو تھی۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس عہد میں بلاغت اور نحو کی بہت سی بحثوں کو بھی اصولی کتابوں میں دیکھتے ہیں ۔۸؂

فقہا کے اولین عہد ہی میں دین اور قرآن کو سمجھنے کے جو اصول بنائے گئے، وہ عملِ صحابہ ،قیاس، نظریۂ علم، بلاغت، نحو،اصول الفقہ،قضایا عقلیہ وغیرہ کی روشنی میں بنائے گئے۔ جن کے اولین آثار ہم امام شافعی کی کتب میں دیکھتے ہیں، اورجو تیرھویں صدی عیسوی تک اپنے عہد شباب کو پہنچے۔ قرآن چونکہ نطق میں ہے، اس لیے صرف، نحو اور بلاغت کو ان اصولوں کا جزو بننا ضروری تھا۔قیاس و اجماع خلفاے راشدہ کا طریق تھا، انھیں بھی شاملِ اصول رکھا گیا ۹؂ ۔ دیگر علوم بعد میں پیدا ہوئے، مگر چونکہ وہ قضایا عقلیہ کا درجہ پاچکے تھے، اس وجہ سے حتمی اور ناقابل تردید تھے ،اس لیے ان کو بدیہیات کا درجہ ملا، لہٰذا وہ لابدی طور پر اصولوں کا حصہ بنے۔

اس سارے علمی عمل (dialectical process) سے مسلمانوں کا ایک طرزِ فکر (approach) وجود میں آیا۔ جسے آج اسلامی روایت کا نام دیا جارہا ہے ۔اس اسلامی روایت میں قرآن اگرچہ اولین ماخذ ہے، لیکن اس کے بہت سارے نسخ کرنے والے ناسخ اور تخصیص کرنے والے مخصص اس اسلامی روایت نے پیدا کردیے ہوئے ہیں، مثلاً متنِ قرآن جو مرضی کہتا رہے، اجماع کے خلاف اس کا مفہوم نہیں لیا جاسکتا۔قرآن کا اپنا جملہ جو معنی دے رہا ہے ،وہ نہیں مانا جائے گا، اس لیے کہ اس آیت کا مدعا اس معنی سے مختلف نہیں لیا جاسکتا جو حدیث یا ماثور تفسیر میں طے پا چکا ہے یا اہل تصوف کے مشاہدات سے ٹکراتا ہے۔اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ جو اس علمی روایت سے متصادم ہو گا، وہ بھی نہیں لیا جائے گا۔ گویا یہ اجماع اور یہ حدیث، تصوف اور تفسیر ماثور، علمی روایت سب کو قرآن کے ناسخ اور مخصص کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس نظریۂ علم نے قرآن کو محکوم اور باقی علوم کو حاکم بنا دیا تھا۔اب قرآن پر ان حاکموں کی بات سے ہٹ کر کوئی بات جب پیش کی جاتی ہے، اور متنِ قرآن کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے تو اس کے رد کے لیے اس سے زیادہ مؤثر ہتھیاراور کیا ہو گا کہ قرآن کی بات تو سمجھ ہی نہیں آ سکتی، کیونکہ اس کی دلالت ظنی ہے۔ یہ قول عہد حاضر میں اتنی شدید شد و مد سے کہا گیا کہ ایک تضاد فکر پیدا ہوا:

حدیث بھی الفاظ میں ہے، تفسیر ماثور بھی الفاظ میں ہے، فقہاے امصار کے تمام اجماع بھی الفاظ میں ہیں، لیکن ان کو الفاظ میں ہونا ظنی نہیں بناتا ۔مگر، چہ بوالعجبی کہ یہ حسن وخوبی صرف قرآن میں ہے کہ وہ الفاظ میں ہونے کی وجہ سے ظنی ہے۔حدیث ، تفسیر ماثور، فقہی اجماع لفظوں میں ہونے کے باوجود ہر صاحبِ علم کو قطعی علم سے نوازتے ہیں، مگر قرآن بے چارہ قطعی علم دینے سے قاصر ہے (العیاذ باللہ، ثم العیاذ باللہ)۔ اس تضاد کی وجہ یہ ہے کہ اس علمی ورثہ نے حدیث، اجماع، قیاس ،تفسیر ماثور، اصول فقہ وغیرہ کو عقلی قضایا کا درجہ دیا تھا۔جبکہ قرآن تو کسی تعقل سے گزر کر وجود میں نہیں آیا تھا، اس لیے اسے یہ قطعیت مل ہی نہیں سکتی تھی۔اس لیے قرآن قطعی نہیں ہے، لیکن یہ تمام علوم قطعی ہیں۔

یعنی زیادہ واضح الفاظ میں یو ں کہیے کہ یہ علوم جو انسانوں نے تخلیق کیے، وہ قطعی ہیں،اور جو کلام اللہ نے تخلیق کیا، وہ اس علمی روایت میں ظنی ہے۔ یہاں از راہ جلبِ اطمینان عرض کردوں کہ یہ بات میں محض ذاتی تجزیہ سے برآمد نہیں کررہا ہوں، بلکہ اصول کی کتب میں لکھی ہوئی ہے۔ مثلاً سردست علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے ایک حوالہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ علامہ صاحب ”الموافقات” میں لکھتے ہیں:

إِنَّ أُصُوْلَ الْفِقْہِ فِي الدِّینِ قَطْعِیَّۃٌ لَا ظَنِّیَّۃٌ، وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّہَا رَاجِعَۃٌ إِلٰی کُلِّیَّاتِ الشَّرِیْعَۃِ، وَمَا کَانَ کَذٰلِکَ؛ فَہُوَ قَطْعِيٌّ. بَیَانُ الْأَوَّلِ ظَاہِرٌ بِالِاسْتِقْرَاءِ الْمُفِیْدِ لِلْقَطْعِ. وَبَیَانُ الثَّانِيْ مِنْ أَوْجُہٍ: أَحْدُہَا: أَنَّہَا تَرْجِعُ إِمَّا إِلٰی أُصُوْلٍ عَقْلِیَّۃٍ، وَہِيَ قَطْعِیَّۃٌ، وَإِمَّا إِلَی الْإِسْتِقْرَاءِ الْکُلِّيِّ مِنْ أَدِلَّۃِ الشَّرِیْعَۃِ، وَذٰلِکَ قَطْعِيٌّ أَیْضًا، وَلَا ثَالِثَ لِہٰذَیْنِ إِلَّا الْمَجْمُوْعُ مِنْہُمَا، وَالْمُؤَلَّفُ مِنَ الْقَطْعِیَّاتِ قَطْعِيٌّ، وَذٰلِکَ أُصُوْلُ الْفِقْہِ. (۱/ ۱۷)

”دین میں فقہ وفہم کے اصول قطعی ہیں، ظنی نہیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ کلیات الشریعہ پر مبنی ہیں، تو جو چیز ایسی ہو، وہ قطعی ہوتی ہے۔ پہلی بات کی وضاحت اس استقرا سے ظاہر ہو جاتی ہے، جو قطعیت کا فائدہ دیتا ہے، اور دوسری بات کی وضاحت درج ذیل چند پہلوؤں سے ہوگی:ایک یہ کہ یہ تمام اصول یا تو عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جوقطعی ہوتے ہیں یا ادلہ شرعیہ کے کلی استقرا پر قائم ہیں ، وہ بھی قطعی ہوتا ہے، اور تیسرا پہلو تو بس ان دونوں کا مجموعہ ہے، اور (یہ بات تو واضح ہی ہے کہ )قطعی امور کا مجموعہ بھی قطعی ہوتا ہے، اوریہ مجموعہ اصول الفقہ ہیں۔”

یہ اقتباس میرے اوپر بیان کردہ تجزیہ کے حق میں بین ثبوت ہے ۔اصول فقہ، استقرا، کلیات، عقلیات اور ان کے مجموعے، سب قطعی ہوتے ہیں۔ فلاسفہ نے جو بات کہی تھی کہ ‘قضایا العقلیۃ قطعیۃ’، اس کاطوطی اصول الفقہ میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔لہٰذا ظنی کا مقدر ہے کہ قطعی اس پر حاکم ہوگا۔ قضایا عقلیہ، اصول فقہ اور کلیات شریعہ سب کے سب قطعی تھے، اس لیے ظنی الدلالت قرآن پر حاکم تھے۔وہ اس کے ناسخ بھی ہیں، مخصص بھی ہیں اور حاکم بھی ہیں ۔ لہٰذایہ بوالعجبی وجود میں آئی کہ علیم وخبیر خالق کائنات کا کلام ظنی ٹھہرا اور ‘وَمَآ اُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً’ ۱۰؂ کے مصداق خطا کے پتلے انسان کا علم اور کلام قطعی قرار پایا۔یہ اسی نظریۂ علم کی دین ہے جو آٹھویں سے تیرھویں صدی میں وجود پذیر ہوا۔

لہٰذا نحو،بلاغت، حدیث، تفسیرِ ماثور، کلیات وقواعد فقہ، اصول فقہ، عقلیات ، استقراے کلی، ان کا جموع العلم اور مشاہداتِ باطن، سب کے سب قطعی بدیہیات کا درجہ رکھتے تھے۔ لیکن قرآن کی آیات کو سنت ، قرآن کے دوسرے مقامات اور عقلی بدیہیات ظنی الدلالت ثابت کردیتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کو تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظنی کردیاتھا۔ یعنی قرآن کہتا ہے کہ زانی کو کوڑے مارو، لیکن سنت سو کوڑے مارنے کے بجاے شادی شدہ زانی کو رجم کرتی ہے ۔ تو امت کے قطعی علم کی روشنی میں ہر ایسی آیت درجۂ قطعیت سے گر جاتی ہے، جس کا احتمال سامنے آ جائے۔

تبصرے بند ہیں۔