خود کو میں آزما رہا ہوں آج
عبدالکریم شاد
خود کو میں آزما رہا ہوں آج
کل سے آنکھیں ملا رہا ہوں آج
…
چاہیے رنگ مختلف کل کا
نقش کل کے مٹا رہا ہوں آج
…
روز مجھ کو گمان ہوتا ہے
کل سے بہتر بنا رہا ہوں آج
…
مجھ سے آنکھیں ملاؤ نظارو!
اس کے کوچے سے آ رہا ہوں آج
…
یاد کر کر کے میں تری باتیں
ایک اک کو بھلا رہا ہوں آج
…
جانے کب کون اس کو خرچ کرے
میں جو دولت کما رہا ہوں آج
…
تم بھی میری انا سے کترائے
میں یہ پتھر ہٹا رہا ہوں آج
…
رات دیکھی تھی موت کی جھلکی
زندگی کو منا رہا ہوں آج
…
وقت زنداں میں کل گزارا ہے
میں پرندے اڑا رہا ہوں آج
…
دیکھیں تقدیر کیا دکھاتی ہے
کل سے پردہ اٹھا رہا ہوں آج
…
ٹوٹا پھوٹا جو شاد! لوٹا ہوں
صورتِ آئینہ رہا ہوں آج
تبصرے بند ہیں۔