افتخار راغبؔ
دل کی پشت پہ کچھ لکھا تھا
شاید اُس نے دیکھ لیا تھا
.
آنکھ کھلی تو حیرت جاگی
کس کے پیچھے بھاگ رہا تھا
.
سب تھے تخت نشین کہیں کے
سب کے ہاتھ میں اک کاسہ تھا
.
وہ بھی تھوڑی ضدّی سی تھی
میں بھی تھوڑا پاگل سا تھا
.
جانے کس دن سمجھ میں آئے
میں نے کس حد تک سمجھا تھا
.
دل کی ڈال سے اڑ گئی چڑیا
دشتِ جاں میں ہنگامہ تھا
.
اندر چیخ رہا تھا کوئی
باہر کتنا سنّاٹا تھا
.
بیچ میں تھا اک اجلا رستہ
دونوں جانب اک چشمہ تھا
.
باہر تھیں دیواریں سالم
اندر سب کچھ ٹوٹ چکا تھا
.
اندھے بھی دیکھیں گے اک دن
اچھے دن کا خواب برا تھا
.
سوندھی خوش بو پھوٹی غزل سے
پہلی بارش کا چھینٹا تھا
.
سب کے ذہن میں تھا کچھ راغبؔ
ہر کوئی کھویا کھویا تھا
تبصرے بند ہیں۔