عمیر محمد خان
جنگ و جدل ایسے وسیلے ہیں جس کی بدولت قوموں اور ملکوں پر تسلط قائم کیا جاتا ہے۔ برسوں سےمعروکوں کے ذریعےہی انسانوں کو زیرنگیں کیا جاتا رہا ہے۔تاریخ کے اوراق اس سے رقم ہیں کہ شمشیر وتدبیر نے ہی حکمرانی کی ہے۔ملکوں اور قوموں کو اپنا باجگزار تیغ و تفنگ کے ذریعہ ہی کیا گیا ہے۔دور جدید میں بھی اسلحہ، کیمائی و حیاتیاتی ہتھیار، مہلک عسکری آلات کے ذریعے ہی ملکوں پر تسلط قائم کیاجاتا رہا ہے۔
جیسے جیسے انسان عروج و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا طریقہ حرب و جنگی چالوں , پیتروں اور حربوں میں تبدیلی آتی گئی۔جنگیں میدانوں سے نکل کر شہر کی شاہراہوں اور قصبوں کی گلیوں میں لڑی جانے لگیں۔ سپاہیوں اور فوجیوں تک لڑی جانے والی جنگ عوام کی نیست و نابود ی تک پہنچ گئی۔ قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنا جنگ کا ایک حصہ تسلیم کیا جانے لگا۔ معصوم اور نہتوں عوام کو تاراج کرنا ایک فعل فاتح قرار دیا گیا۔ مہذب اقوام کہلائے جانے والی قومیں اخلاقی اقدار کی پاسداری نہیں کرسکی۔ ان کے اخلاقِ سوز حرکتیں جنگی جرائم کی صورت اختیار کر گئیں۔ با عزت اقوام اور مہذب دنیا نے دور جدید کے کبائر رذیلہ کو جنگی پیتروں کا نام دے دیا۔ معصوم و سادہ لوح، مہذب تعلیم یافتہ افراد نے بھی جنگی جرائم کو چال و جنگی اقدام کو ہنر مندانہ فعل قرار دے دیا۔
آج کے مہذب تعلیم یافتہ دور میں جنگ کے میدان بدل گئے۔strategy and manoeuvre کی تبدیلی اور عسکری طریقہ کار میں انحطاط کے آتے ہی اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیں گئیں۔ سپاہیوں اور فوجیوں کے درمیان ہونے والی جنگ عوام وخواص کے درمیان لڑی جانے لگیں۔ دور جدید کی جدید ترین جنگ اس انداز سے لڑی جانے لگی کہ حملہ آور جدید دنیا اور جدیدیت کے نامور ماہرین کی نظروں سے بھی اوجھل ہے۔حملہ آور مسیحیت کے روپ میں نمودار ہوتا ہے اور معصوم عوام اور ماہرینِ حکمت بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ حریف دوستوں کی صف میں شامل ہوتا ہے اور عوام وخواص اسے حلیف سمجھتے ہیں۔ گویا حریف و حلیف میں کوئی امتیاز نہیں رہتا ہے۔۔۔۔۔!
ہتھیاروں اور جدید مہلک عسکری آلات سے لڑی جانے والی جنگیں اب سمٹ گئی ہیں۔ اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، کالجز و یونیورسٹیز، زراعت و معاشیات، فرمز اور کمپنیاں، تجارت و صنعت کے مراکز، رفاہی انجمنیں اور این جی اوز ، ادویات کی تجربہ گاہیں وشفاخانے، سائنسی تحقیقاتی ادارے دور جدید کے میدان حرب بن گئے ہیں۔ اب جنگیں آمنے سامنے نہیں بلکہ پس پردہ لڑی جانے لگیں ہیں۔ حیات کے ہمہ جہت میدانوں کو اپنے شکنجے میں لینے کی عرصہ دراز سے کوشش جاری ہے۔ زندگی کے ہر میدان کو ایک نکتہ پر مرکوز کرنے کا یہ جنگی حربہ آزمایا جا رہا ہے۔یہی سلسلہ دنیا کو ایک عظیم معرکہ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملاحمتہ الکبری کے ابتدائی کڑیاں ہیں۔
حیاتیاتی جنگ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔قدیم دور میں یہ جانوروں تک محدود تھی۔مگر دور حاضر میں انسانوں کے خلاف استعمال کیے جا نے والے ہتھیاروں کے طور پرکیا جانے لگا۔ یہ ایک مذموم جنگی طریقہ کار ہے۔یہ ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے جو انسانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار جو جرثومی ہتھیار کے نام سے بھی موسوم ہے۔ یہ مختلف بیکٹریا، ریکٹسیا rickettsiae، فنگائی، وائرسز، ٹاکزنز کو نباتات، حیوانات اور بنی نوع انسان کے خلاف انھیں ضرر پہنچانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
حیاتیاتی جنگ ایک مؤثر ذریعہ ہے جس میں افواج نہیں بلکہ معصوم عوام کو نیست و نابود کیا جاتا ہے۔یہ نسل کشی اور نسلوں کو ہلاک کرنے کے لئے جنگی حربہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے جس سے دشمن واضح طور سے سامنے ظاہر نہیں ہوتا ہے۔اور اپنے حریفوں کا خاتمہ کر گزرتا ہے۔ اس سے پیشتر مضمون کورونا آفت سماوی یا انسانی شاخسانہ۔۔۔ میں یہ بات مختصراً میں نے بیان کی تھی کہ دنیا کے وقوع پذیر واقعات ایک بڑے سلسلہ ہائے واقعات کی کڑیاں ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل ایک بڑے حادثے سے جڑتا ہے۔ ان واقعات کا تسلسل ایک منصوبہ بند مشن کی تکمیل ہے۔ ایسے ہی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ دور حاضر میں ہم ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آج ہم تذبذب کا شکار نہیں بلکہ تذبذب میں مبتلا کئے گئے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سچ کو مشتبہ بنا دیا گیا ہے۔ حیاتیاتی جنگ بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔ وباؤں اور بیماریوں کو پھیلانا ایک جنگی حربہ ہے۔ اس سے دشمن محفوظ مقامات سے اپنے حریفوں کو ختم کرنے کا طریقہ اپناتا ہے۔اور پھر ایک مسیحا بن کر سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی نفی کریں گے مگر تاریخی واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔ ذیل میں درج واقعات ہماری آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق 1347میں منگولوں نے طاعون زدہ اجسام کو بلیک سی میں پھینکا تھا۔اس دور میں یہ کافہ caffa کی بندرگاہ جو موجودہ فیڈوشیا یوکرین میں واقع ہے۔ ان کا مقصد وباکو پھیلا کر دشمن کوبدحواس اور زیر کرنا تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اٹلی میں کچھ کشتیاں داخل ہوئی تھیں جس میں وبائی جراثیم موجود تھےجس کی وجہ سے یورپ میں بلیک ڈیتھ وبا پھیلی تھی۔25 میلن عوام جس کا شکار ہوئے تھے۔ 1710 میں روسی افواج جو سوڈان سے برسرِ پیکار تھیں طاعون زدہ اجسام کو شہر میں پھینکا تھا۔ ان کا مقصد شہروں میں طاعون پھیلانا تھا۔1763میں برٹش افواج نے پٹبرگس کے محاصرے کے دوران چیچک سے متاثرہ بلینکٹ پھیلائے تاکہ امریکن انڈینس میں چیچک کی وبا پھیلائی جائے۔جنگ عظیم اول میں جرمنی نے دشمن افواج کو شکست سے دو چار کرنے کی غرض سے گھوڑوں اور جانوروں میں glanders کو پھیلایا۔ 1937 اور1945میں چاپان نے چین کے خلاف حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیااور تجربہ بھی کیا۔ جس میں بیبونک طاعون، چیچک، ہیپاٹائٹس، ہیضہ، anthrax , typhus, Yellow fever قابلِ ذکر ہیں۔
پھر اس کے بعد ایسا دور آیا جس میں سائنسی ترقی کے نام پر حیاتیاتی ہتھیاروں کو وجود میں لانے کی ہوڑلگ گئی۔ کئی ممالک نے کھلے اور چھپے انداز میں نہ صرف حیاتیاتی ہتھیار بنائے بلکہ تجربات بھی کئے۔ ان کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوئیں اور قردادیں بھی پیش کی گئیں۔ مگر معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ اور پوشیدہ طور سے یہ تحقیقات اور تخلیقات جاری رہیں۔ اور آج وہ ممالک اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ وہ دنیا میں آن واحد میں وباؤں اوربیماریوں کو پھیلا سکتے ہیں۔ اب وہ اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ دنیا کی معیشت، زراعت، سیاست، ادویات اور محکمہ حفظانِ صحت کو مکمل کنٹرول کرسکتے ہیں۔
کئ بیماریوں کو پھیلانے کے لئے ان کے جرثوموں کو engineered کیا جاتا ہے۔اور منصوبہ بند طریقے سے بیماریاں اور وبائیں پھیلائی جاتی ہیں۔ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ بہت سے بیماریاں اس سے پیشتر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئیں۔ کینسر، ایڈز، ایسی ہی چند بیماریاں تھیں جن کو بطور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا گیا تھا۔ بے شک بیماریاں خدا کے حکم سے ہی پھیلتی ہیں اور شفا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ خبیث افراد خبیث جرثومات کی افزائش کرتے ہیں تاکہ دشمن کو اندر ہی اندر ہلاک کردے۔ نہ ہی افواج نظر آتی ہیں اور نہ ہی حملہ آور۔ آج پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں ہے۔ چند ممالک ہیں جہاں سے نہ کوئی اموات کی خبر آتی ہے اور نہ ویکسن کی۔ کیا ہم اب بھی انسانی خباثت کو سمجھ نہیں پائے۔
میری اس بات سے آپ اتفاق نہ کریں مگر زمینی حقائق اس کو ثابت کرتے ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی اور جینیاتی سائنس سے ہم ششدر ہوتے ہیں مگر متشکک نہیں۔ حقیقت کو مشتبہ بنانا بھی ایک قدیم جنگی چال ہے۔ اور یہ دور حاضر کی ایک بین خصوصیت ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی ساخت وخصوصیات متغیر کر دینے کو ہم تسلیم کرلیتے ہیں۔ انسانی کلوننگ کو قبول کر لیتے ہیں۔ مگر وباؤں اوربیماریوں کو ماننے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ قصور کسی کا بھی نہیں بلکہ پر فتن دور کی یہ خاصیت ہے۔ سچ کو مشتبہ کردو تاکہ کوئی تریاق ڈھونڈ ا نہ جاسکے۔ الجھنوں میں اس قدر گرفتار کردیے جائیں کہ کوئی راہ ہی ڈھونڈ نہ پائے۔
یہ مضمون کسی کو دہشت میں مبتلا کرنے کے لئے نہیں لکھا گیا ہے بلکہ اس کے تدارک اور روک تھام کی کوششوں کو تیز کرنا مقصد ہے۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر کوئی کار کر علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ ایک مؤثر ٹیکا بھی ابھی تک بنایا نہیں جاسکا۔ تمام مسلم ممالک اور نہ ہی دیگر اقوام کے طبی ماہرین اور محققین اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکے۔ مایوسی پھیلانا اور نہ ہی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہے۔تاریکی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی روشنی کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ لیکن تاریکی میں ہی جی لینے کی چاہ روشنی نہیں پھیلا سکتی ہے۔ دوسروں پر انحصار کرنے اور انتظار کی عادت ہمارے لئے ہلاکت کا سبب بنے گی۔خدا نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے۔ ہم طبی ماہرین، محققین، (انٹیلکچول) ذی فہم، ارباب بصیرت و حکمت کو مجتمع نہ کرسکے تاکہ ان کی قیادت میں اس کا مقابلہ کیا جاسکے اور اس سے نمٹنے کی کوئی تدبیر ڈھونڈ سکے۔ کوئی کارگر ویکسن بنانے میں ہم نے کوئی اجتماعی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ کوشش اور جدوجہد ہر چیز کا مداوا کر سکتے ہیں۔ تاریکی کی عادت ڈلوانے والوں سے دامن چھڑا ئیےاور اجالوں کے سفیروں کا ساتھ نبھائے۔ اللّہ عمل کرنے والوں کو ہی جزا دیتا ہے دنیا و عقبیٰ میں۔۔ ۔۔۔ خالق کائنات ہمیں گمراہ کن فتنہ انگزیزوں سے محفوظ رکھے۔ اور قوم وملت کو راست فکر وراست رو مخلصین کی پیروی اختیار کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہم تمام کو حفظ وامان میں رکھے۔آمین
تبصرے بند ہیں۔