دو روزہ قومی سمینار بعنوان: نقش امیر خسرو در فرھنگ ایران و ھند
انصاری حنان
(ممبئی)
ممبئی یونیورسٹی میں جاری دوروزہ قومی سمیناراپنے دوسرے اور آخری روز کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ واضح رہے کہ ممبئی یونیورسٹی میں جے پی نائیک بھون میں یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کی جانب سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان “نقش امیر خسرودر فرھنگ ایران و ھند”منعقد کیا گیا تھا جس میں ملک کی کئی یونیورسٹیوں اور اداروں سے مہمانانِ کرام نے شرکت فرما کر اپنے اپنے مقالات پیش کئے۔ سمینار میں بطور مہمانِ خصوصی کنسول جنرلایران کنسولیٹ ڈکٹر احمد صادقی، ایران کلچر ہاؤس کے ڈائیرکٹرمہدی زارع،روزنامہ انقلاب ممبئی کے مدیر شاہد لطیف نے شرکت کی جبکہ پروگرام کا افتتاح یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر وشنو ماگرے کے ذریعہ عمل میں آیا بعد ازاں شعبہ کی صدر ڈاکٹر سکینہ امتیاز خان نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروگرام کا باضابطہ آغاز کیا۔
محترمہ کے بعد ڈائیرکٹر رضا لائبریری رامپور ،وزیر ثقافت حکومت ہند پروفیسر سید حسن عباس نے کلیدی خطبہ پیش کیا پروگرام میں شعبہ کی جانب سے ایک کتاب “علامہ شبلی نعمانی اور انکی فارسی خدمات” کا بھی اجرا بدست مہمانانِ خصوصیعمل میں آیادھیان رہے کہ ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کا یہ دوروزہ قومی سمینار ممبئی یونیورسٹی اور فخر الدین علی احمدمیمورئیل کمیٹی لکھنؤ کے مالی تعاون سے منعقد کیا گیا سمینار میں مختلف تعلیمی اداروں و یونیورسٹیوں سے آئے مہمانانِ کرام اور مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے معلوماتی مقالات پیش کئے فارسی اردو اور انگریزی زبانوں میں مقالات پیش کئے گئے۔
ڈاکٹر سید حسن عباس اپنے مقالہ میں کہتے ہیں "خسرو جیسے باکمال شخص کے اشعار قریب چار لاکھ ہیں انہوں نے بات بات پر اشعار کہے ہیں ” تو وہیں مہدی زارع نےحافظ اور حضرت امیر خسرو کا آپس میں مقابلہ کیا اور خسرو کے اشعار کو بھی اپنے مقالہ کے ذریعہ پیش کئے اور کہا کہ "خسرو اخلاقیات، اجتماعیات اور بھائی چارگی کے رہنما تھے "، ڈاکٹر شائستہ خان کے مقالہ کا عنوان تھا "خسرو کی شاعری تاریخ و تہذیب کی روشنی میں ” انہوں نے اپنے مقالہ کے ذریعہ کہا کے "اس ملک کی ثقافت میں حضرت امیر خسرو کا بڑا رول رہا ہےوہ ایک پکے سچے مسلمان تھے لیکن ہندو مذہب کی بڑی عزت کرتے تھے جو انکے اشعار سے جھلکتی ہے”،بقول ِ مقالہ نگار ڈاکٹر مہتاب جہاں "امیر خسروملک ہندوستان سے بڑی محبت رکھتے تھے اور انہوں نے اسے باغ ارم کہا ہے ہندوستان کے پھلوں ، بھولوں میوے کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے اور انکی بڑی تعریفیں کی ہیں اور ان پھلوں کا مقابلہ ایران کے پھلوں سے کیا ہے، پروفیسر طاہرہ عباسی نے کہا "امیر خسرو مشترکا گنگا جنمی تہذیب کے منار تھے انہوں نے اردو اورفارسی دونوں زبانوں کو ملا کر کچھ شعر بھی اس طرح کہے ہیں جن کا پہلے مصرع اردو تو دوسرا فارسی ہوتا وہ مزید کہتی ہیں کہ خسرون نے تصنیف و تالیف میں بھی بہت کام کیا ہے” پروفیسر بلدیو مٹلانی کے متابق”امیر خسرونے فارسی و اردو کے ساتھ ساتھ بہت سارے ہندی اشعار بھی کہے ہیں اور انکی شاعری میں صوفی نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں "پروفیسر منوہر مٹلانی نے امیر خسرو کی زندگی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ”حضرت امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیا کے بہت قریبی تھے اور انکی شاعری میں حضرت نظام الدینؒ کے نظریات کا عمل دخل رہا ہے ان کے کئی دیوان ہیں امیر خسرو طوطیِ ہند بھی کہلائے گئے”،وہیں بیجا پور سے تشریف لائے پروفیسر عبد الغنی عمارت والے کا مقالہ علاؤالدین خلجی پر امیر خسرو کے اثرات و نفوظ کا تذکرہ کرتے ہوئےنظر آیا، پروفیسر عبدالستار دلوی نےکہا” ممبئی فارسی زبان کا اہم مرکز رہا ہے اور ممبئی میں پارسیوں کے ذریعہ فارسی کو فروغ ملا” پروفیسر عبدالستار نے فارسی پڑھنے پر زور دیا اور کہا اگر ہم فارسی نہ پڑھیں تو تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے انہوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹی میں تاریخ کے طلبہ کوفارسی ضرور پڑھنی چاہئے،تقریری نشست میں پیش کئے جانے والے مقالات و تقاریر پر پروفیسر علیم اشرف نے مفصل تبصرہ کئے۔
مزید انہوں نے اپنے مقالہ میں مثنوی مطلع الانوار کے حوالے سےامیر خسرو کا تعارف کرایااور کہا کہ”خسرو ہندوستانی اور فارسی شعرا سے ذیادہ ایرانی شعرا کی تعریف کیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھخسرو بچوں کی تربیت، اخلاقیات، سماجیات، اور عدلیہ کی بڑی تاکید کیا کرتے تھے،ڈاکٹر ایس.ایم شکیل برہانپورکے مقالہ کا عنوان تھا”محب وطن امیر خسرو” ڈاکٹر شکیل کے مطابق امیر خسرو کے ٤لاکھ سے ذیادہ اشعار ہیں یوں تو انکی مادری زبان فارسی تھی لیکن خسرو نے ہندی اور اردو میں بھی کمال کے شعر کہے ہیں ، بعض مقالہ نگاروں کا خیال ہے کہ ملک ہندوستان سے حضرت امیر خسرو جیسی محبت کرنے والا شاید ہی کوئی ملے سمینار کے دوسرے دن پڑھے جانے والے مقالات میں ایک مقالہ بالکل منفرد تھا جسکا عنوان تھا کلامِ خسرو میں نسائی حیات وآثار جسے رضوی کالج ممبئی کی معلمہ ڈاکٹر شاداب سیدنے پیش کیا انکے مطابق”خسرو کو دنیا کی تمامعورتوں میں صرف ہندوستانی عورتیں قابلِ ذکر نظر آتی ہیں دوسرے ممالک کی عورتوں سے ذیادہ انہوں نے ہندوستانی عوروں کا اپنے اشعار میں تذکرہ کیا ہے اور دیگر ممالک کی عورتوں میں کچھ نہ کچھ نقص بتایا ہے۔
ڈاکٹر شاداب نے مزید کہا کہ امیر خسرو عورتوں کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنی بیٹی کو پردہ کرنے کی تلقین کرتے اور غیر مہرموں کے سامنے آنے سے منع فرماتے تھے امیر خسرو نے بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کے حق میں اپنے اشعار کے ذریعہ زور دیا ہے، وہیں دوسری جانب ڈاکٹر سعیدہ پٹیل کا پیش کردہ مقالہ سامعین کو خوب پسند آیا اور اس مقالہ کی تعریفیں خود صدور حضرات نے بھی کی کہ انکا مقالہ بعنوان "امیر خسرو سے متعلق چند اردو تصانیف ” بہت ہی علمی معلومات کا ذخیرہ تھا،ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی کی سنیں تو وہ کہتی ہیں کہ کسی نے کہا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو اردو اور تاج محل دیا لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ مغلوں نے دو چیزیں ہندوستان کو دی ہیں ایک مرزا غالب اور دسرےامیر خسرو ،یہ تمام مقالات امیر خسرو کی علمی، ادبی و ا ثقافتی، اخلاقی و معاشرتی خدمات پر مشتمل انکے اشعار کی طرف اشارے کرتے ہیں اور ان باتوں کے ذریعہ امیر خسرو کے ایک سچا ہندوستانی اور محب وطن ہونے کا ثبور پیش کرتے ہیں انکے اشعار سے ہندوستان کی ہر شہ سے ان کی محبت کا پتہ چلتا ہے جیسے کہ خسرو کے اشعار پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خسرو نے ہندوستان کے میوے، رنگ، پھول، پہاڑ، دریا، پرندے، جانور عورتیں ، مرد،بچے غرض کہ ہر چیز کو دنیا کے دیگر ممالک سے افضل بتایا ہے ہندستان کی آب و ہوا اور یہاں کی مختلف زبانوں کا تذکرہ اپنے اشعار میں کیا ہے تو وہیں وطن کی محبت کو جزو ایمان قرار دیا ہے، اپنے اپنے صدارتی خطبات میں پروفیسر یونس اگاسکر، ڈاکٹر سید حسن عباس، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی،پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر عارف ایوبی،پروفیسر عبد الغنی عمارت والے سبھی نے مقالات کے متعلق تبصرے کئے۔
ان تمام اہم شخصیات نے شعبہ کی صدر اوراس پروگرام کی ڈائریکٹر و تخلیق کار ڈاکٹر سکینہ خان کو مبارک باد پیش کی اور تقریباً سبھی نے مشترکہ طور پر اس سمینار کو بہت ہی منظم و مرتب سمینار قرار دیتے ہوئے انہیں بہت بہت مبارک باد دی اور کہا کے ایسے سلجھے ہوئے اور منظم سمینار جلدی دیکھنے کو نہیں ملتے لیکن یہاں تو ہم ڈاکٹر سکینہ خان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس کا حصہ بنے کا موقع عنایت فرمایا دیگر شرکا نے بھی اس سمینار کے نظم و نسق اور شکیل کو پسند کیاتو وہیں ڈاکٹر سکینہ خان نے اس کامیاب پروگرام کا سہرا اپنے خاوند و سرتاج کے سر باندھا اور کہا کہ میں اکیلے شاید یہ نہ کرپاتی اگر مجھے میرے معاونین کی شکل میں میرے شوہر، شعبہ کا عملہ بشمول تدریسی و غیر تدریسی اورشعبہ کے طلبا و طلبات ان سب کا ساتھ مجھے ہر وقت ملتا رہا تو عین وقت پر فخر الدین علی احمد میمورئل کمیٹی لکھنؤ کی جانب سے تعاون کی پیش کش نہ ملتی تو ہمارے لئے اتنے کم وقت میں ایک اچھا پروگرام کرنا مشکل ثابت ہوتاان ہی کلمات کے ساتھ ڈاکٹر سکینہ خان نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا۔
تبصرے بند ہیں۔