دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

مدثر احمد

بابری مسجد اراضی کے تعلق سے جو فیصلہ ( اعلان ) منظر عام پر آیا ہے اس اعلان کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی پر سوالات اٹھ گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بابری مسجد اراضی و شہادت کے انصاف کے لئے لڑنے والی مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت العلماء ہند اور دوسرے فریقین نے اس جدو جہد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور نہ ہی عدالت میں اپنا موقوف رکھنے میں کوئی کمی کی ہے لیکن اس پورے معاملے میں اگر کچھ خامی نظر آتی ہے تو وہ مسلمانوں کے فریقین کی جانب سے جاری کئے جانے والے اخباری بیانات اور خطبے، جن میں مسلمانوں کو کمزوروں کی طرح پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاریخ کا معائنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں نے جنگ و جہاد میں جہاں تلواروں کا استعمال کیا تھا وہیں اپنی زبانوں کے ذریعے سے اپنے مخالفین کو ڈرا دھمکا کر رکھا تھا، ٹیپو سلطان کی ہی تاریخ کو لے لیں کہ کس طرح سے انہوںنے انگریزوں کو دھمکیاں دے کر ہی میسور سلطنت سے دور رہنے کی ہدایت دی تھی۔ مسلمان کی زبان بھی اتنی اثر دار ہوتی ہے جتنی کہ تلوار کی دھا ر۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی وفات کی بات جیسے ہی مکہ میں پھیلی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی تھی اور زور دار آواز سے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے دنیا سے پردہ کیا ہے تو انکی گردن دھڑسے الگ کردی جائیگی۔ صحابی رسول نے اپنے غم و درد کا اظہار کرنے کے لئے تلوار تو کسی پر نہیں چلائی لیکن جس انداز میں انہوںنے اہل مکہ کے سامنے اپنے جلال کا مظاہرہ کیا اس سے مکے میں خاموشی چھاگئی تھی۔ چونکہ مسلمان اسی فاروق اعظم کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اور یہی مسلمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے امتی ہیں تو کیونکر حکمت کے نام پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بھلے ہندوستانی مسلمان اپنے حقوق کو منوانے کے لئے بندوق و تلواروں کا استعمال نہ کریں لیکن بابائے قوم گاندھی جی نے جو راہ بتائی ہے اس پر تو چل سکتے ہیں۔ جیل بھر وآندولن، بھوک ہڑتال، راستہ روکو، بند کا اعلان، بائیکاٹ کااعلان کرتے ہوئے کیا مسلمان اپنے حقوق منوانہیں سکتے ؟۔

 بابری مسجد کا فیصلہ آنے سے قبل جو باتیںمسلمان کہہ رہے تھے کہ ہم عدالت کا احترام کرینگے، ہم اپنی شکست کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار رہیں گے، ہم جمہوریت کی بقاء کے پابند رہیں گے وغیرہ۔ اسکے بجائے مسلمانوں کے قائدین بس اتنا کہہ دیتے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کرکے تو دیکھو کہ کیا کردکھائیں گے ؟۔ کس طرح سے ملک بھر میں تحریک چلاکر دکھائیں گے!

اگر اتنا بھی کہہ دیا ہوتا تو حکومتوں اور اسکے ماتحت عدالتوں میں سناٹا چھا جاتا۔ ہندوستان میں کوئی ایسی جیل نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو جیلوں میں بھر سکیں، کوئی عدالت نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان کے سارے مسلمانوں پر مقدمے چلاسکیں اور کوئی بندوق نہیں ہوگی جو ملک کے 15 کروڑ احتجاجی مسلمانوں پر چل سکے، ہاں ان 15 کروڑ مسلمانوں میں کچھ منافق ضرورہونگے اور ان منافقین سے مسلمانوں کو کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن ہمارے قائدین سے اب بھی مسلمان امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں تحریک شروع کرنے کے لئے کب آواز دینگے اورانصاف کے شیدائی مسلمان کب اس آواز پر لبیک کہیں گے۔

بھلے ملک کے 15 کروڑ مسلمان اس تحریک کا حصہ نہ بنیں، بھلے ہی عورتیں و بچے حق کی اس تحریک کا حصہ نہ بنیں لیکن ہندوستان کی قائدانہ تنظیمیں جمیعت العلماء ہند ( ا- م)، جماعت اسلامی، پاپولر فرنٹ جیسی تنظیموں کے ہی لاکھوں کارکنان متحدہ طورپر تحریک چلائیں گے تو ہندوستان میں وہ تاریخ لوٹ آئیگی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں سے انصاف حاصل کرنے کے لئے تحریک چلائی تھی۔ مسلمانوں کی عظمت و شجاعت کا سوال ہے اگر مسلمان اب بھی محض مناظرے، بحث و مباحثے اور مشوروں کی محفلوں میں بیٹھے رہینگے تو مسلمانوں کا خاتمہ عنقریب ہوجائیگا۔ این آر سی جیسے قانون کو عمل میں لانے کی بات کرتے ہوئے پہلے ہی مسلمانوں کو ڈرایا جارہاہے، یو اے پی اے جیسے قانون کا استعمال کرنے کی بات کرتے ہوئے مسلمانوں کو خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن مسلمان بس اتنا سوچیں کہ کتنے لوگوں کو یہ جیلوں میں بھر سکتے ہیں؟

مسلم قائدین کو چاہئے کہ وہ اب اپنے کردار میں جمال کے ساتھ ساتھ جلال بھی پیدا کریں۔ جلال بھی اللہ کی صفت تو اس جلالیت سے کیوں گریز کیا جارہاہے۔ ہماری آج کی خاموشی کل کی نسلوں کو پوری طرح سے خاموش کردیگی، جب جب فرعون پیدا ہوا تھا اسوقت موسیٰ بھی پیدا ہوئے، جب ابراہیم پیدا ہوئے تو اس وقت نمرود بھی پیدا ہوا، جس وقت سلیمان ؑ کا دور تھا اسوقت شیاطین کی فوج بھی زمین پر اتریں، جس وقت ابوجہل تھا اسوقت عمر فاروق بھی تھے لیکن ہر دور میں جیت حق کی ہوئی اور باطل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اب وقت کے فرعون اور شیاطین کی فوجوں سے لڑنے کے لئے مسلمان ہی کافی ہیں تو اس جدو جہد کے لئے ہمارے قائدین آواز دیں، انشاء اللہ پوری قوم نہ صحیح حق پرست مسلمان ضرور ساتھ دینگے۔

زندگی کی پرواہ وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں موت پریقین نہیں، شہادت وہ مانگتے ہیں جنہیں دنیا کی زندگی پر بھروسہ نہیں۔ جو قوم خوف خدارکھتی ہے وہ قوم خوف فرعون نہیں رکھتی اور جس امت میں بیت المقدس فتح کرنے کا جذبہ ہے وہ قوم فسطائی طاقتوں سے خوف نہیں کھاتی۔ اس مضمون کو پڑھنے والے ہر مسلمان سے ہماری یہی گذارش ہے کہ اسے ہمارے قائدین تک پہنچایا جائے اورقائدین کو اس بات سے آگاہ کیاجائے کہ قوم کیا چاہتی ہے اور کیا سوچ رہی ہے ؟۔اسی لئے علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ

دیا ر عشق میں اپنا مقام پیداکر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیداکر

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔