اردو ادب میں تقابل ادیان کا فروغ: قومی یکجہتی کی علامت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

 فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو انگریزی زبان میں communal harmony کہا جاتا ہے اس کی ماہرین لسانیات نے درج ذیل مفہوم بیان کیا ہے communal harmony now is the fundamental need of every country’s fabric .یعنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی موجودہ زمانہ میں ہر ملک اور سماج و معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے۔

اس مفہوم کو اب تھوڑا وسیع پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ communal harmony means: that people of different religions,castes creeds,sex and different background live together in the society  with love and peace amongst them

پتہ یہ چلا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مقصد ہے باہم مختلف ادیان کے افراد، پیار و محبت اور امن وسلامتی سے رہیں۔ جس معاشرہ میں بھی ہم رہیں، وہاں انسانوں کی عظمت و تقدس اور ان کے دین ودھرم کا احترام کریں۔ سماج میں انسانیت کی افادیت و اہمیت کا درس عام کریں ۔ معاشرہ کے تمام افراد کے ساتھ مساوات و یکسانیت کا سلوک اپنایا جائے۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سخت ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ وطن عزیز میں ادیان کی کثرت، زبانوں اور تہذیبوں کی رنگا رنگی، سیاسی جماعتوں کی بہتات اور پھر ان کا اپنا اپنا نظریہ اور فکری اختلاف نے۔ ہندوستان   میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اہمیت وضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ہندوستانی معاشرہ میں  اس کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ  انگریزی زبان کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔

Communal harmony is the great nature of India.  and India is that community where various types of religions and belief  are living in country the nation voted us to power to see unity and communal harmony not for any division or commonality.

درج بالا منطقی  شہادت کی بناپر یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک طویل روایت ہے۔ ہاہمی اتحاد و اتفاق اور سب کا مل جل کر رہنا ہی  ہندوستان کی شناخت اور پہچان ہے۔ ہندوستان کی اس روایت کو فروغ دینے میں مختلف جماعتوں، اداروں اور سیکولر قوت فکر وعمل کے حامل ا افراد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ,اگر ہم بات کریں ادب وزبان کی تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پہلو نمایا ں طور پر پایا جا تا ہے۔ اردو ادب کی متنوع جہات ہیں۔ شاعری،ناول، افسانہ، ڈرامہ، فکشن اور نغمیں  وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم مذکورہ تمام اصناف کا انصاف سے تجزیہ کریں تو یہ بات اجاگر ہوتی ہیکہ ادیبوں اور دانشوروں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ہر پلیٹ فارم سے کاوش کی ہے۔ تاکہ معاشرہ اور اس گیتئ ہستی میں انسانییت کا احترام باہم اقوام و ملل کے سینہ میں پیوست ہوجائے۔ اسی کے ساتھ ہر ایک طبقہ اور قوم کے ادیان و مذاہب کا تقدس بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح مانا جانے لگے۔

اردو ادب کے اس اصطلاحی مفہوم کے علاؤہ بھی دیگر چیزوں کو اردو ادب میں شامل کیا جاسکتا ہے مثلا اردو زبان و ادب میں لکھی جانے والی مطالعہ ادیان پر کتب۔ اردو ادب کا ایک حصہ گردان نے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ مطالعہ ادیان پر اردو زبان میں بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ مسلم اسکالرز نے دیگر ادیان پر قلم اٹھاکر معاشرہ میں توازن و اعتدال اور باہم انگیز کرنے کی روایت کو فروغ دیا ہے۔ مطالعہ ادیان یا تقابل ادیان کی افادیت اور اس کی عظمت سے قطعی انکار  نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تفاہم ادیان کی پوری دنیا میں سخت ترین ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ نوع انسانیتب میں باہم تفریق وانتشار اور مفاد پرستی نے جس طرح تکثیری معاشرہ کے حسن وجمال کو بے نور کردیا ہے۔ اس میں دوبارہ جلا بخشنے اور بانور بنانے کے لئے لازمی ہے کہ ہم تفاہم ادیان کی روایت کو فروغ دیں۔ ہمارے معاشرہ کی بنیادی ضرورت بھی یہی ہیکہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی افادیت سے ہو نے والے فوائد اور باہم انگیز نہ کرنے کے احساس سے عوام کو متنبہ کریں۔ نیز اس بابت معاشرہ کے ہر فرد کو منظم و متحد ہوکر منصوبہ بندی سے کام کرنا ہوگا۔ اسی کے ساتھ unsocial , حرکتوں پر بھی انتھائی باریکی سے نظر رکھنی ہوگی۔  عوام کے مابین زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی نشر و اشاعت کی جائے جو محبت کا شاہکار ہو۔ ماہرین کا کہنا ہیکہ صالح اور پاکیزہ افکار پر مشتمل ادب وزبان کےاثرسے نہ صرف معاشرہ میں پائی جانے والی آ لائشوں اور گندگیوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بلکہ سچے اور غیر جانب دار ادیب سے حکومتیں بھی خوف میں مبتلا رہتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ جب بھی کسی حکومت نے غیر آ ئینی اور مظالم و انتھاہ پسندی کو اختیار کیا ہے تو وقت کے منصف مزاج اہل علم و فن اور قلم کاروں نے ان کے نہ صرف ظلم پر قد غن لگائی ہے، بلکہ اکثرو وبیشتر ظالم و جابر حکمرانوں کو اپنا اقتدار بچانا تک مشکل ہوگیا ہے۔ اس لئے ادب کی معاشرہ میں بڑی اہمیت ہے۔ چاہے وہ کسی بھی موضوع اور عنوان سے وابستہ ہو۔ رہا سوال اردو ادب میں تقابل ادیان یا مطالعہ ادیان کا تویہ  بات طشت ازبام ہے کہ جو تحریک اس موضوع سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ملتی ہے وہ کسی دوسرے موضوع سے نہیں ملتی ہے۔ مطالعہ ادیان پر مسلم اسکالر، علماء اور محقیقن نے تصنیف و تالیف اور بحث وتفحیص کے ذریعے، دنیا کو امن و سلامتی، اتحاد و اتفاق اور باہم احترام ادیان کا مثبت اور دور رس پیغام دیا ہے۔ اسی طرح جن غیر مسلم اسکالر نے اسلام کا مطالعہ عدل و انصاف، اخلاص اور امانت ودیانت سے کیا ہے۔ وہ بھی در اصل معاشرہ کو سنجیدگی،متانت اور صلح و آ شتی کے پیغام سے آ شنا کررہے ہیں۔ اس کے علاؤہ باہم مطالعہ ادیان سے جو فایدہ ہورہا ہے وہ یہ کہ معاشرہ سے ایک دوسرے کے مذہب کے متعلق نفرت و عصبیت اور بد گمانی کا مکروہ سلسلہ بھی دھیرے دھیرے ختم ہونے کے درپے ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ موجودہ زمانہ میں نوع انسانیت میں تفریق و انتشار اور بدگمانی انتہائی منظم اور منصوبند طریقہ سے کی جارہی ہے۔ افسوسنا ک بات یہ ہیکہ نفرت کے اس کھیل میں جہاں نام نہاد سیاسی اور مفاد پرست عناصر کی کار فرمائی نظر آ تی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ذرائع ابلاغ کے تمام شعبہ شامل اور ذمہ دار ہیں۔ مزید حیرت اس بات کی ہے اب تک تو یہ تفریق رنگ، نسل اور تہذیبی و علاقائی تفریق کے باعث تھی لیکن اب  انسانیت دشمن عناصر نے اس میں مذہب و دین کو بھی اپنی ذاتی منفعت کے لئے شامل کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اب فرقہ پرستی اور انتہا و شدت کے منفی اثرات، سماج ومعاشرہ پر پہلے کے بالمقابل زیادہ اثر انداز ہورہے ہیں۔ اگر اس کے پس پردہ حقائق وشواہد کو جاننے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو یہ بات بڑے وثوق و اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ سماج مخالف عناصر اب فرقہ پرستی کی خباثت وقباحت پر مذہب کی چادر اڑھانے کی سعی کر رہے ہیں۔ فرقہ پرستی، مذہب کے نام پر تقسیم و انتشار کے جو نقصانات معاشرہ صدیوں سے جھیل رہا ہے ان میں سب سے نمایاں خسارہ یہ ہیکہ آ ج کی نوجوان نسل اس تخریبی حرکت سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ اہل دانش بخوبی جانتے ہیں کہ نوجوان طبقہ کی منفی خطوط پر رہنمائی کرنا کس قدر خطرناک ہے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی آ ج کے سماج کی  بنیادی ضرورت ہے۔ جو معاشرہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زریں آ داب سے نا آشنا ہوتا ہے تو نہ صرف قتل و قتال، تعصب وںفرت میں لت پت ہوکر اپنی حیثیت گنوادیتا ہے۔ بلکہ اس کا سیاسی، اقتصادی اور معاشی قد بھی کم ہو جاتا ہے۔ فرقہ پرستی اور  نفرت و تعصب کا عفریت اب ملک کے بیشتر مقامات کو اپنی بھیانک و اذیت ناک لپیٹ میں لے چکا ہے۔ معاشرہ کو اس خطرناک سازش سے محفوظ و مامون رکھنے کے لئے تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کے عصری و روحانی تقاضوں سے موجودہ سماج کو واقف کرانا ہوگا۔ اور اس مقدس ادب کی ترویج و اشاعت کے تمام ممکنہ اسباب کو اختیار کرنا ہوگا  تبھی جاکر معاشرہ، تکثیریت اور تعدد کے زریں اصول و آ داب سے آ شنا ہوگا۔ آ ج معاشرہ کی ترقی و کامرانی کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے ہماری محدود سوچ و فکر اور تعصب و نفرت، افسوسناک بات یہ ہیکہ ہم کہیں بھی پہنچ جائیں، بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہوجائیں مگر ہماری فکر و سوچ کے زاویہ نہیں بدل پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرہ میں کتنے حقدار محروم رہ جاتے ہیں۔ اس طرح انصاف کا جنازہ نکال کر، نفرت و تعصب کی جڑمضبوط ہوجاتی ہے۔ نتیجتا نہ صرف معاشرہ کا امن وامان اور چین وسکون اٹھ جاتا ہے بلکہ فرقہ پرستی اور سماجی تناؤ کی پیداوار بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنے کردار وعمل سے فروغ دیں۔ اور اس کے لئے کوئی بھی صورت ہو اختیار کی جائے، معاشرہ سے فرقہ پرستی وتنگ نظری کا قلع قمع کرکے لئے  فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوشگوار روایت کو پروان چڑھایا جائے۔ نیز اردو ادب میں مطالعہ ادیان سے جو تحریک ملتی ہےاس کا معاشرہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو استحکام بخشنے میں بنیادی کردار ہے۔ اس نکتہ کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔