رافیل طیارہ گھپلہ
ندیم عبدالقدیر
سابق امریکی صدر جان ایف کنیڈی کے قتل کے بعد امریکہ کی صدارت نعمت غیر مترقبہ کے طور پر ’لائنڈن جانسن‘کے ہاتھ لگی۔ اُنہیں بھی نریندر مودی کی طرح سب کچھ تیارملا۔لائنڈن کو زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کے حصہ کی محنت دوسرے لوگ کرچکے تھے۔ لائنڈن نے صدارت کے الیکشن کی سب سے بڑی جیت حاصل کی۔ وہ جب صدر بنے، اُس وقت امریکہ کی معیشت آسمان چھورہی تھی، بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں تھا، امریکہ ترقی کی منزلیں طے کررہا تھالیکن شاید لائنڈن کے ’من کی بات‘ کچھ اور تھی۔ انہیں یہ خوشحالی اچھی نہیں لگی۔ انہوں نے اپنی ’ صلاحیتوں‘ کو بروئے کار لایا اور پھر صورتحال بگڑنےلگی۔ ویتنام جنگ اور اس کے بعد امریکہ کے اندر ہونے والے فسادات نے امریکہ کی معیشت کو گہری چوٹ پہنچائی۔ معیشت لڑکھڑاگئی اور دیگر مسائل سر ابھارنے لگے۔ ویتنام جنگ سے امریکی فوجیوں کی لاشوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ اس سے نمٹنے کیلئے ویتنام کی جنگ کے بارے میں لائنڈن نے ایک بھرم پھیلانے کی باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس مہم کا نام انہوں نے Only Good News یعنی ’صرف اچھی خبریں‘ رکھا۔ لائنڈن نے فوج کو غیر رسمی طور پر ہدایت دی کہ وہ ویتنام جنگ کے بارے میں امریکی میڈیا کو صرف ’اچھی خبروں‘ کی ہی سوغات دے اور بری خبروں کو مکاری کی چادر میں ڈھانک لے،تا کہ لوگوں پر اس کا خوشگوار اثر پڑے۔ فوج اور امریکی حکومت کو یہ بات نہیں پتہ تھی کہ جھوٹ بہت دنوں تک نہیں کہا جاسکتا ہے۔ جھوٹ کا سہارا ندر سے بالکل کھو کھلا ہوتا ہے جو وقت کے تھپیڑوں کے سامنے زیادہ دنوں تک نہیں ٹِک سکتا ۔ آخر کار’اچھی خبروں‘کا طلسم ٹوٹ گیا اور امریکہ کو ویتنام میں ایک ذلت آمیز شکست تسلیم کرلینی پڑی۔ لائنڈن کی ’گڈ نیوز ‘ کافارمولہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سچائی کو چھپانے کی آپ کتنی ہی کوشش کرلیں، اسے چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ لائنڈن کے بعد امریکہ کی منصبِ صدارت سنبھالنے والے رچرڈ نکسن نے یسوع مسیح کی قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ ’واٹر گیٹ اسکینڈل‘ میں ملوث نہیں ہیں لیکن بالآخر انہیں صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کی یسوع مسیح کی قسمیں جھوٹی تھیں۔
جھوٹ کا مسئلہ وہی پرانا ہے یعنی ’ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ۱۰۰؍جھوٹ بولنے پڑتےہیں‘۔ اتنی سی بات انسان کی موٹی عقل میں نہیں سماتی۔ ہماری حکومت اور ساری مشنری بھی یہی کررہی ہے۔ رافیل کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اورا س میں حکومت اور سرکار کے اداروں، حتیٰ کہ فوج کی طرف سے بھی ببانگ دہل جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں سارے ملک کے سامنے ہندوستانی فضائیہ نے جھوٹ کی اتنی بلند پرواز کی کہ سارے لوگ ہکا بکا گئے۔ فضائیہ نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ۱۹۸۴ء کے بعد سے ہندوستان نے کوئی بمبار طیار ہ نہیں خریدا۔ دنیا جانتی ہے کہ سکھوئی طیارہ خریدنے کا پہلا معاہدہ ۱۹۹۶ء میں اور دوسرا معاہدہ ۲۰۰۴ء میں کیا گیا اور دسمبر ۲۰۱۲ء کو سکھوئی ہندوستانی فضائیہ کے سپرد کیا گیا۔ ہندوستانی فضائیہ جیسا با وقار ادارہ جب ملک کی عدالت عظمیٰ میں سارے ملک کے سامنے اتنا سفید جھوٹ بولنے میں کوئی کراہیت محسوس نہیں کرے تو دیگر اداروں، ایجنسیوں او رافراد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ایسی ہی باتیں اس معاملے کو شروع سے مشکوک بناتی رہی ہیں۔ مودی حکومت نے رافیل معاملے میں اپنے انداز و اطوار سے ہی اپنی شامت کو دعوت دے دی۔
حکومت ہر بار تفصیلات کو بتانے سے انکار کا ورد کرتی رہی اور اسی رویے نے اس نکتہ کو تقویت دی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ حکومت اگر صاف گوئی سے کام لیتی تو شاید یہ معاملہ سپریم کورٹ تک نہیں پہنچتا لیکن حکومت کے آمرانہ انداز نے ہندوستان کو ’بوفورس۔ دوم‘ دے دیا۔ سرکار کے رویے سے لوگوں میں تجسس بڑھتا گیا کہ ایسا کیا ہے جو حکومت چھپانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ معاملے کو عوام کی نظروں سے دور رکھنے کی حکومت کی کوشش نے اس وقت تو حد ہی کردی جب ارون شوری، یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن سپریم کورٹ لے گئے ۔ اٹارنی جنرل نے سرکار کی ترجمانی کرتے ہوئے سیدھے سپریم کورٹ پر ہی سوال کھڑے کردئیے اور کہا کہ رافیل کو سمجھنے کیلئے تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہے یہ سپریم کورٹ کے سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس طرح انہوں نے سپریم کورٹ اور ملک کی عدلیہ کے وجود بھی بھی سوالیہ نشان بنادیا۔ ایسا حوصلہ تو شاید کسی آمرانہ حکومت کو بھی نہیں ہوا۔ مودی حکومت کی لاکھ مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ نے معاملے کی شنوائی کو منظور کرلیا۔
حکومت کبھی کہتی تھی کہ یہ سودا دو حکومتوں کے درمیان ہے۔ کبھی کہتی تھی یہ سودا دو کمپنیوں کے درمیان ہے اور کبھی کہتی کہ یہ سودا ہندوستانی حکومت اور فرانس کی کمپنی کے درمیان ہے۔ اب سپریم کورٹ میں حکومت نے کہا کہ حکومت فرانس نے اس میں کوئی گارنٹی نہیں دی ہے، اور اگر سودے میں کوئی تنازع ہوتا ہے تو اس کی شنوائی جنیوا کی عدالت میں ہوگی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فرانس حکومت نے کسی طرح کی کوئی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ یہ سودا ہندوستانی حکومت اور ’ڈاسو‘ کے درمیان ہے۔سرکار کو چارو ناچار سپریم کورٹ میں تحریری طور پران وجوہات کوبھی داخل کرنا پڑا جن کے سبب اس نے ۱۲۶؍طیاروں کے بجائے محض ۳۶؍طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے ریلائنس کے اس معاملے میں داخل ہونے کی بھی وجہ بتائی۔حکومت کےاِس تحریری مؤقف کو پڑھنے کے بعد درخواست گزار پرشانت بھوشن، یشونت سنہا اور ارون شوری نے اپنی بات بھی تحریری طور پر داخل کی اور کہا کہ حکومت نےجو بھی بتایا ہے وہ آئین، قانون، ضابطوں اور قواعد کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔عرضی گزاروں نے عدالت سےیہ بھی کہا کہ عدالت کو گمراہ کرنے اورمعاملے میں بے ضابطگی کے مرتکب افراد کے خلاف ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی سربراہی میں سی بی آئی جانچ کی جائے۔
حکومت کا یہ مؤقف کہ رافیل کی قیمت بتانے سے ملک کو خطرہ ہوسکتا ہے مضحکہ خیز حد تک کمزور ہے۔ ۔ مودی حکومت کے ہر کام نیارے ہیں۔ وہ اس طیارہ کی ساری تکنیکی جانکاری بتانے کو تیار ہے۔ وہ یہ بتانے کو تیار ہے کہ طیارہ میں کونسا انجن ہے، کونسا راڈار ہے، کونسا سسٹم ہے، یہ طیارہ کتنی دور تک وار کرسکتا ہے، کتنی دور سے دشمنوں پر نظر رکھ سکتا ہے، اس کی رفتار کیا ہے، اسے کون کون سے ہتھیار سے لیس کیا جاسکتا ہے، یہ طیارہ کتنی دیر میں چین او رپاکستان کی سرزمین پر پہنچ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ،لیکن حکومت یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ اس طیارہ کی قیمت کی ہے۔ یعنی وہ ساری چیزیں جنہیں چھپانے کا جواز بنتا ہے حکومت وہ باتیں بتانے کو بےتاب اور تیار ہے لیکن وہ چیز جسے بتانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا حکومت اسے چھپا رہی ہے۔ طیارہ کے بارے میں ویسے بھی کوئی شئے دنیا میں چھپی نہیں رہتی ہے، کیونکہ طیارہ بنانے والی کمپنیاں خود ہی اپنے طیارے کی ساری خوبیوں کی زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کر تی ہیں تاکہ اس کے ذریعے مختلف ممالک کو خریداری کیلئے راغب کیا جاسکے۔
حکومت، رافیل تیار کرنے والی کمپنی ’ڈاسو‘ کے سربراہ کے اس انٹرویو کو اپنی بے گناہی اور ایمانداری کی سند بتارہی ہے، جس میں کمپنی کے سربراہ نے کہا کہ اس سودے میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے۔ رافیل کے سربراہ کی باتوں کو آسمانی سچ ماننا بالکل ایسا ہے جیسے کہ وجئے مالیہ کے قرض کے بارے میں خود وجئے مالیہ کے مؤقف کو سچ سمجھنا۔ رافیل گھپلہ ایک بہت بڑا سیاسی ہتھیار بن سکتا ہے جسے ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں حکومت کے خلاف استعمال بھی کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ تمام اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے میں حکومت کے خلاف محاذ کھول دے۔ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی، لالوپرساد یادو، شرد پوار، چندرا بابو نائیڈو، ڈی ایم کے۔ اگر یہ سارے لیڈران بھی رافیل معاملے میں اسی طرح حکومت پر حملہ آور ہوجائیں جیسا کہ بوفورس میں تمام اپوزیشن پارٹیوں نے کیا تھا تو حکومت کے بکھرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، کیونکہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔