توقیت شبلی

ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی

۱۸۵۷ء

 ۴؍جون کوآبائی وطن موضع بندول، ضلع اعظم گڑھ میں پیداہوئے۔ اسی دن انقلابیوں نے اعظم گڑھ جیل کا پھاٹک توڑ کر قیدیوں کو آزاد کرایا تھا۔

  ان کے والد شیخ حبیب اللہ (ف:۱۲؍نومبر ۱۹۰۰ء)اعظم گڑھ کے مشہور وکیل اور زمیندار تھے۔

 ۱۸۶۳ء

تعلیم کا آغاز ہوا۔ ابتدائی تعلیم حکیم عبداللہ (پ:۱۸۴۳ء-ف:۱۸۹۰ء) اور مولوی    شکراللہ (ف:۱۸۹۷ء)سے حاصل کی۔

۱۸۷۳ء

  مولانا فاروق چریاکوٹی (ف: ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۹ء)سے تحصیل علم کے لئے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور بھیجے گئے۔

علامہ شبلی کے والدشیخ حبیب اللہ نے اعظم گڑھ شہر میں ایک عربی مدرسہ قائم کیا۔ جس میں پہلے مولوی فیض اللہ مئوی (ف:۲۰؍جولائی ۱۸۹۸ء) سے اور پھر مولانا فاروقچریاکوٹی سے تعلیم حاصل کی ؛جنہیں شیخ حبیب اللہ نے مدرسہ عربیہ اعظم گڑھ میں  استاذمقرر کیا تھا۔

 چندروزمدرسہ حنفیہ جون پور میں بھی زیر تعلیم رہے۔

۱۸۷۴ء

  رام پور کا تعلیمی سفر کیا اورمولانا ارشاد حسین رام پوری (ف:۱۰؍نومبر ۱۸۹۳ء) سے فقہ   اور اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

لاہور گئے اورمولانا فیض الحسن سہارن پوری (م: ۱۸۸۷ء)سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔

اسی سال دارالعلوم دیوبند گئے،تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔ لیکن تعلیم میں شریک نہیں  ہوئے۔ البتہ اس کے کتب خانہ سے استفادہ کیا۔ علم فرائض سے یہیں دلچسپی پیدا ہوئی۔

 ۱۸۷۶ء

سہارن پور گئے اورمولانا احمد علی محدث سہارن پوری (ف: ۱۱؍اپریل ۱۸۷۹ء)سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

 اسی سال ۱۹؍سال کی عمر میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔

 مدینہ منورہ کے کتب خانوں سے استفادہ کیااورروضۂ اقدس پر اپنا منظوم نذرانہ عقیدتپیش کیا:

اے بہ کرم کار جہاں کرد ساز

مرہمہ را پیش تو روئے نیاز

چوں بہ درت آمدہ ام با امید

از کرم خویش مکن نا امید

چوں بہ درت آمدم امید وار

سایہ لطفے زسرم برمدار

۱۸۷۷ء

روس نے ترکی پر حملہ کیا، جس سے عالم اسلام میں ایک آگ سی لگ گئی۔ترکوں کی ہمدردی اورتعاون کے لئے مسلمانان اعظم گڑھ نے جو کمیٹی تشکیل دی، مولانا شبلی اس کےسکریٹر ی مقررہوئے۔انہوں نے اس زمانہ میں تین ہزار روپئے جمع کرکے ترکیسفیر حسین حبیب آفندی(بمبئی) کے ذریعہ دارالخلافہ قسطنطنیہ بھیجا۔

  ۱۸۷۸ء

 اعظم گڑھ میں درس و تدریس کا فریضہ نجی طور پر انجام دیتے رہے۔ مولانا حمید الدین  فراہی (ف:۱۱؍نومبر۱۹۳۰ ء صاحب تفسیر نظام القرآن) مولوی محمد سمیع(ف:۱۹۱۶ء)اور مولوی محمد عمر (بیناپارہ) وغیرہ اسی دور کے شاگرد تھے۔

 مناظرے کاشغل اسی زمانہ میں رہااور متعددکامیاب مناظرے کئے۔

۱۸۷۹ء

 وکالت کا امتحان دیا لیکن نا کام رہے۔

  ۱۸۸۰ء

وکالت کا دوبارہ امتحان دیا اور کامیابی حاصل کی۔

پہلی عربی تصنیف اسکات المعتدی علی انصات المقتدی  مطبع نظامی کان پور  سے شائع ہوئی۔ جس کی طباعت کے اخراجات ان کے چچا شیخ مجیب اللہ نے اداکیے۔

 صاحبزادے حامد حسن نعمانی پیدا ہوئے۔

۱۸۸۱ء

اعظم گڑھ میں وکالت کا شغل اختیار کیا۔

رسالہظل الغمام فی مسئلۃ القرأۃ خلف الامام، مطبع نظامی کانپور سے شائع ہوا۔

علی گڑھ کا سفر کیا اور سرسید احمدخاں (ف:۱۸۹۸ء)کی خدمت میں عربی قصیدہ پیشکیا جوعلی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ۱۵؍اکتوبر۱۸۸۱ ء (ج۱۶نمبر۸۲ص ۱۱۷۵)میں

 شائع ہوا۔یہ قصیدہ مع اردوترجمہ حیات شبلی میں شامل ہے۔

 ۱۸۸۲ء

 والد کی خواہش پر قائم مقام قرق امین کے عہدہ پرچند ماہ ملازمت کی۔

 والد کے نیل کے کاروبار کی نگرانی کی۔

 وکالت کے لئے  ضلع بستی گئے۔

 ایک انگریزی نظم کا منظوم اردو ترجمہ ’’رزمیہ کابل و قندھار‘‘ کے عنوان سے کیا۔

  ۱۸۸۳ء

جنوری میں ایم۔اے۔اوکالج،علی گڑھ پہونچے۔ فارسی کے پروفیسر اور عربی کےاسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ فروری میں درس وتدریس کا آغاز ہوا۔

سالارجنگ اول حیدرآبادکے انتقال پر فارسی مرثیہ لکھا اور تعزیتی جلسے میں پیش کیا۔یہمرثیہسرسید احمد خاں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ۲۷؍فروری ۱۸۸۳ء (ص ۲۲۹) میں شائع کیا۔

 ۲۰؍جون کو نیشنل اسکول اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی۔ جواب شبلی نیشنل پی جی کالج کے ناممسے ملک  کا ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے۔اس کے پہلے سکریٹری خود مولانا شبلی رہے۔

  اپنے وطن موضع بندول میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔

 قصیدہ عیدیہ اسی سال کی یادگار ہے۔

 اعظم گڑھ کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے مجلس موازنہ ’’ترقی قومی‘‘ قائم کی۔

 پروفیسر آرنلڈ سے جدید علوم وتحقیقات کی واقفیت حاصل کی اور آرنلڈ کو عربی پڑھائی۔ آرنلڈ آں کہ رفیق است وہم استاذمرا اکبر الہ آبادی سے روابط قائم ہوئے۔

۱۸۸۴ء

 تاریخ بنی عباس کا آغاز کیا۔ معتصم باللہ کے حالات تک پہونچ کر طوالت کے سبب  اسے موقوف کر کے نامورفرماں روایان اسلام کا انتخاب کیا۔

 ۱۸۸۵ء

 سرسید احمد خاں اور تحریک علی گڑھ کی حمایت میں مثنوی صبح امید لکھی۔

  اپریل میں چھوٹے بھائی مہدی حسن تعلیم کے لئے انگلینڈ گئے۔شیخ حبیب اللہ نے اس مناسبت سے ایک تقریب کی جس میں مولانا شبلی نے فارسی نظم پیش کی۔

اکٹوبرمیں نواب ضیاء الدین خاں نیر نے وفات پائی تو ان کا مرثیہ کہا۔

 ۱۸۸۶ء

 ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی۔

مارچ میں خلیفہ سید محمد حسن ریاست پٹیالہ کے وزیر الدولہ علی گڑھ تشریف لائے تو سید  محمود کی فرمائش پرقصیدہ پیش کیا۔

 مولانا شبلی کی والدہ قائمہ بی بی نے وفات پائی۔

 مثنوی صبح امید شایع ہوئی۔

۱۸۸۷ء

سرسید احمد خاں کی خواہش پر رسالہ’’ مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘‘ لکھااور لکھنؤ کی شاہی بارہ دری میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پیش کیا۔

المامون‘‘ اسی سال پایہ تکمیل کو پہنچ کر ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ کی طرف سے شائع ہوئی۔

 مامون کے انتخاب پر مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے اختلاف کیا جس کاعلامہ شبلی  نے جواب لکھا۔یہیں سے ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔

ایم۔ اے۔ او۔ کالج میں درس قرآن کا آغاز کیا۔ مولاناشوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولاناظفرعلی خاں، سیدسجادحیدر یلدرم اور شیخ محمد عبداللہ معروف بہ پاپا میاں وغیرہ کو علامہ شبلی  سے اسی زمانہ میں شرف تلمذ حاصل ہوا۔

 قصیدہ بہاریہ لکھا۔

 مولانا فیض الحسن سہارن پوری نے وفات پائی۔ فارسی میں ان کا بڑا پردرد مرثیہ لکھا۔

 مشہور مقالہ ’’تراجم ‘‘ بھی اسی سال لکھا گیا۔

نیشنل اسکول اعظم گڑھ ترقی کرکے مڈل اسکول ہوا۔

 سرسیدؒ کے ساتھ نینی تال کا سفر کیا۔

فارسی کلام کی بیاض کا ایک حصہ چوری ہوا۔

 برادراصغر محمدجنیدکو تعلیم کے لئے علی گڑھ بلایا۔

۱۸۸۸ء

 قصیدہ ’’بہاریہ‘‘ لکھا۔

۸؍اکتوبر کو مسٹر مہدی حسن تکمیل تعلیم کے بعد انگلینڈ سے وطن لوٹے، اس خوشی میں شہر

 اعظم گڑھ میں جشن مسرت منعقد ہوا، جس میں مولانا شبلی نے استقبالیہ نظم پڑھی۔

 نواب سرآسماں جاہ بہادر وزیراعظم حیدرآباد علی گڑھ تشریف لائے تو سرسیداحمد خاں کی  فرمائش پررودکی کے مشہور قصیدہ پرقصیدہ لکھ کر پڑھا۔

 جنرل عظیم الدین خاں رام پور کی فرمائش پر کتب خانہ رام پور کا معائنہ کیا اور کتب خانہکی ترتیب و تنظیم سے متعلق سفارشات پیش کیں۔ بعد میں انہیں خطوط کی روشنی میں   کتب خانہ کی ازسرنوتنظیم کی گئی۔

 ۱۸۸۹ء

سرسید احمد خاں ؒ کے دیباچے کے ساتھ المامون کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔

رسالہ’’ الجزیہ‘‘ لکھا۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے چوتھے اجلاس علی گڑھ میں شریک ہوئے اور فارسی ترکیب بند پیش کیا۔

 دسمبر میں ’’سیرۃالنعمان‘‘ کا پہلا حصہ مکمل ہوا۔

۱۸۹۰ء

 ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں شرکت کی اور خطاب کیا۔

 ۱۸۹۱ء

 ’’تاریخ بدء الاسلام‘‘ مرتب کی جو عرصہ تک کالج کے نصاب میں شامل رہی۔

اسی سال علی گڑھ کالج کے لئے سرسیداحمد خاں کے ساتھ حیدرآباد کا سفر کیا۔ میر محبوب علی  خاں نظام حیدرآباد نے کالج کے لئے۲؍ہزار سالانہ کی امداد منظورکی۔ اس خوشی میں شہر میں ایک جلسہ تہنیت منعقد ہوا،جس میں علامہ شبلی نے فارسی قصیدہ پیش کیا۔

 ستمبر میں فلک نما میں بزم شعروادب سجی اورمولانا شبلی نے قصیدہ پیش کیا۔

حیدرآباد سے واپسی کے دوران سرسید احمد خاں کے ساتھ بیگم بھوپال کی خواہش پر بھوپال میں قیام کیا۔

 ۱۸۹۲ء

علی گڑھ کالج کی طلبہ یونین کے مباحثہ میں گذشتہ طرز تعلیم کی حمایت میں تقریر کی۔

 امام ابوحنیفہ کی سوانح عمری’’ سیرۃ النعمان‘‘لکھی جوعلی گڑھ کالج کی طرف سے شائع ہوئی۔ مولانا شبلی نے اپنی جملہ تصنیفات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کالج کے  لئے وقف کر دیا تھا۔

سیرۃالنعمان کے دیباچے میں نامور فرماں روایان اسلام کی سوانح عمریوں کا خاکہ پیش کیا۔

 اسی سال ان کا مقالہ ’’کتب خانہ اسکندریہ‘‘ چھپا۔

سرسید احمد خاں نے صیغہ اغلاط تاریخی کی تصحیح قائم کرکے مولانا شبلی کو اس کا سکریٹری بنایا  اور ان کے تاریخی مقالات کو اس صیغہ میں شامل کیا۔

تاریخ اسلام کی نادر کتابوں کی تلاش وجستجو میں ۲۶؍اپریل کوروم ومصرو شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ۷؍مئی کو عدن اور ۲۳؍مئی کو قسطنطنیہ پہنچے۔ ۱۹؍جون کو رسم سلاملق کا  مشاہدہ کیا۔

 ترکی ادبا و شعراء اور ارباب کمال بالخصوص شیخ عبدالفتاح اور شیخ ظبیان سے ملاقات کی۔

  نادر کتابوں کی تلاش و جستجو میں قسطنطنیہ کے کتب خانے کھنگالے۔

 جنگ روم روس کے فاتح غازی عثمان پاشا سے ملاقات کی۔

پروفیسر انطون ایڈیٹر ہفتہ وار البشیر ترکی نے علامہ شبلی پر اداریہ لکھا۔

شیخ عبدالباسط الانسی کے ذریعہ شیخ ظاہرمغربی سے ملاقات کی۔

خلافت عثمانیہ کی طرف سے ۸؍اگست کو’’ تمغہ مجیدیہ‘‘ سے سرفراز ہوئے۔

 شیخ ظاہر مغربی ملاقات کے لئے علامہ شبلی کی قیام گاہ پر تشریف لائے۔

 جولائی میں بیروت، اگست میں بیت المقدس اور اکتوبر میں قاہرہ  پہونچے۔

  جامع ازہر کا معائنہ کیا۔

  کتب خانہ خدیو دیکھنے گئے۔

  نومبر میں علی گڑھ واپس آئے۔

اسٹوڈنٹ یونین کی طرف سے ۶؍دسمبر کو استقبالیہ دعوت کی ایک تقریب منعقد کی گئی۔

 مشہور مقالہ حقوق الذمیین اسی سال مولانا کے قلم سے نکلا۔

تحقیقی مقالہ’’ اسلامی کتب خانے ‘‘رسالہ’’ حسن‘‘ حیدرآباد میں شائع ہوااوررسالہ کی  طرف سے ایک اشرفی انعام میں ملی۔

 اعظم گڑھ شہر میں اپنے باغ میں ’’ شبلی منزل‘‘ تعمیر کی۔

  ۱۸۹۳ء

 ایک علمی رسالہ المعارف کا خاکہ تیارکیااورسرمورگزٹ ناہن میں اس کا اشتہار شایع کیا۔

  ’’مجموعہ نظم فارسی‘‘ مطبع نامی کان پور سے شائع ہوا۔

انگریزی حکومت نے شک کی نظرسے دیکھا۔

 انگریزی حکومت سے ’’تمغہ مجیدیہ‘‘ کے استعمال کی اجازت مانگی جو نامنظور ہوئی۔

ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں شریک ہوئے اور ایک اردو ترکیب بند پڑھا۔

 ۱۸۹۴ء

 حکومت نے ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس خوشی میں کالج میں ایک شاندارجلسہ ہوا، جس کی صدارت نواب محسن الملک نے کی۔ اس میں کالج کی تمام اہم  شخصیات نے شرکت کی اور مبارک باد پیش کی۔

 ۱۷؍فروری کو اسٹریچی ہال میں جلسہ منعقدہوا۔مسٹر ہونگٹن کمشنرمیرٹھ نے شمس العلماء کی سندکے ساتھ عمامہ،عبا اور تمغہ عطا کیا۔علی گڑھ کی تاریخ میں مولانا شبلی پہلے پروفیسر  تھے جنہیں شمس العلماء کا خطاب ملا۔

علامہ شبلی کی قائم کردہ طلبہ کی تنظیم لجنۃالادب اور اخوان الصفا نے بھی ۱۹؍ جنوری کو تہنیتیجلسہ منعقد کیا۔ اس کے ممبر اور علامہ کے عزیز شاگرد مولاناحمیدالدین فراہی نے عربیمیں اورمولاناظفرعلی خاں نے فارسی میں تہنیتی قصیدہ پیش کیا۔

علی گڑھ کالج کی سالانہ نمائش میں شریک ہوئے اور قومی مسدس ’تماشائے عبرت‘ پیش کیا۔

 سفرنامہ روم ومصروشام شائع ہوا۔

 اسی سال علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے سب ایڈیٹر اور محمڈن اینگلواورینٹل کالج میگزین کے شعبہ اردو کے ایڈیٹر منتخب ہوئے۔

 مقالہ ’’اسلامی حکومتیں اور شفا خانے ‘‘اسی سال لکھاگیا۔

  تحریک ندوۃالعلما کے پہلے اجلاس منعقدہ مدرسہ فیض عام کان پور میں شریک ہوئے   اورمجلس ندوۃ العلما ء کا دستور العمل تیارکیا۔

۱۸۹۵ء

 انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں سرسید احمد خاں ؒ کے ساتھ شریک ہوئے۔

 پہلی بیوی مجیدن بی بی کا انتقال ہوا۔

 الٰہ آباد یونیورسٹی نے بورڈ آف اسٹڈی کا رکن اور فیلو منتخب کیا۔

نیشنل اسکول ترقی کرکے ہائی اسکول ہوا۔

 ندوہ کے دوسرے اجلاس لکھنؤ میں شریک ہوئے، نصاب تعلیم کے موضوع پرتقریر کی اور علوم جدیدہ کے اضافے کی تجویز پیش کی۔یہ تقریر مولوی ابو محمد ابراہیم،مولوی محمد اعظم حسین اورمولوی شاہ سلیمان پھلواروی کی تقاریرکے ساتھ’’ مضامین اربعہ‘‘کے نام  سے یکجا شائع ہوئی۔

 الہ آباد یونیورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈی کی میٹنگ میں شریک ہوئے اور نصاب فارسی  برائے امتحانات الہ آباد یونیورسٹی مرتب کرنے کی تجویز منظور کی۔

۱۸۹۶ء

تحریک ندوۃالعلماء کے تیسرے سالانہ اجلاس منعقدہ بانس بریلی میں شرکت کی۔

 سید علی بلگرامی کی خواہش پرحیدرآباد گئے۔میر محبوب علی خاں نظام حیدرآباد نے سو روپئے  ماہوار وظیفہ مقرر کیا اور مولانا کی آئندہ تصنیفات کو سلسلہ آصفیہ میں شامل کرنے کا اعلان ہوا۔

امرائے حیدرآباد نے مولانا شبلی کے اعزاز میں سما پولیٹن ہوٹل[ کوٹھی نواب محسن الملک]میں جلسہ منعقد کیا۔جس میں مولوی عزیزمرزا نے سپاس نامہ پیش کیا۔

حیدرآباد میں اعجازالقرآن کے موضوع پر تقریر کی۔

 محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین میں قدیم اور نادر کتابوں کی اشاعت کی تجویز پیش کی۔

 مولانا عبدالحق حقانی نے دارالعلوم ندوہ کے قیام کی تجویز پیش کی جومولانا شبلی کی تائید سے منظور ہوئی۔اور انہوں نے مجلس دارالعلوم ندوہ کے قواعد تیار کئے۔

ندوہ کے وفد کے ساتھ کان پور اور غازی پور تشریف لے گئے اور تعاون کے لئے جا بہ جا  تقریریں کیں۔

آرمینیا میں شورش برپا ہوئی اور یورپ نے ترکوں کو مورد الزام ٹھہرایا تو علامہ شبلی نے  ’آرمینیا ‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کرترکی کی انصاف پروری اور یورپ کی دروغگوئی واضح کی۔

 آغاخاں علی گڑھ تشریف لائے تو علامہ شبلی نے فارسی میں قصیدہ پیش کیا۔

 ۱۸۹۷ء

 محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین کی ایڈیٹری کو خیربا د کہا۔

۲۹؍جون کو منجھلے بھائی مہدی حسن بیرسٹر منصف کا ن پور نے وفات پائی۔

 تحریک ندوۃ العلماء کے چوتھے اجلاس میں شریک ہوئے اور دارالعلوم کی ضرورت پر پرزور تقریر کی۔

ندوۃالعلماء کے اجلاس میرٹھ میں شرکت کے لئے میرٹھ گئے۔

دارالعلوم ندوہ قائم کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنی اور مولانا شبلی کو اس کا رکن نامزد کیا گیا۔

ندوہ کا دستورالعمل بنایا۔

 ۱۸۹۸ء

حامد نعمانی کا نکاح ہوا۔

بیگم بھوپال نے عربی مدارس کی تنظیم نظارۃالمعارف کارکن نامزد کیا۔۲۷؍فروری اور  ۲؍ مارچ کی میٹنگ میں شریک ہوئے اور ’’دستور العمل وہدایات برائے مدرسین ‘‘۔

  نصاب تعلیم اور نظام الاوقات تیار کیا۔ یہ ہندوستان کی تاریخ میں مدارس کی اصلاح کا  پہلا تاریخی نقشہ تھا۔

  بیمارہوئے اورکالج سے رخصت لے کر اعظم گڑھ آئے۔

نواب محسن الملک عیادت کے لئے اعظم گڑھ تشریف لائے۔ تین دن شبلی منزل میں قیام کیا

۲۷؍مارچ کوسرسید احمد خاں ؒنے وفات پائی۔

مئی میں علی گڑھ کی ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ ماہ جون میں اعظم گڑھ آئے اور شبلی منزل میں قیام کیا، یہی شبلی منزل اب دارالمصنّفین ہے۔

الٰہ آباد کا سفر کیا۔

 اسی سال ’’الفاروق‘‘مکمل ہوئی۔ ’’جس کاغلغلہ وجود میں آنے سے پہلے تمام ہندوستان میں بلند ہوچکا تھا‘‘۔ اس کا خاتمہ کشمیر میں لکھاگیا۔

 تاریخی تحقیقات کا مجموعہ ’’رسائل شبلی‘‘ اسٹیم پریس امرت سر سے شایع ہوا۔

نیشنل اسکول اعظم گڑھ میں والدہ مرحومہ کی یاد میں ایک ہال’’ صدرالمنازل‘‘ کے نامسے تعمیر کرایا۔

 وفدندوہ میں پٹنہ گئے اور متعدد مقامات پر ندوۃالعلماء کی اہمیت اور ضرورت پر تقریریں کیں۔

 ۸،۹؍مارچ کوتحریک ندوہ کے پانچویں اجلاس کان پور میں شرکت کی۔

سخت علیل ہوئے، صحت کی غرض سے کشمیر کے سفر پر گئے۔

۱۸۹۹ء

شیخ رشید رضا نے جامع ازہر مصر کی اصلاح کے لئے دیگر علماء کے ساتھ ہندوستان سےعلامہشبلی کا نام پیش کیا۔

جنوری میں ’’الفاروق‘‘ شائع ہوئی۔

 انٹرنس کورس فارسی برائے امتحانات الٰہ آباد یونیورسٹی تیار کیا۔

امیرعبدالرحمن والی کابل(افغانستان) نے دارالترجمہ کی نظامت کی پیش کش کی۔

شعرالعجم کا خاکہ تیار کیا۔

علاج کے لئے گونڈہ تشریف لے گئے۔

 ندوہ کے نصاب میں انگریزی شامل کرنے کی تجویزپیش کی۔

مئی میں سخت علیل ہوئے۔

  پھر کشمیر کا سفر کیا اور قصیدہ کشمیریہ لکھا۔

مولانا اقبال سہیل نے علامہ سے حماسہ پڑھی۔

 اورینٹل کانفرنس اٹلی میں شرکت کا ارادہ کیا مگر شریک نہ ہوسکے۔

اسی سال ایران کے سفر کا عزم کیا مگر یہ خواب بھی پورا نہ ہوسکا۔

 والی کابل نے ابن خلدون کے ترجمے کی خواہش کی مگر مولانا نے منظور نہیں کیا۔

 ۱۹۰۰ء

 اعظم گڑھ میں قیام کیا۔

اسی سال انٹرنس کورس فارسی برائے امتحانات یونیورسٹی آف الہ آباد شائع ہوا۔

 جون میں مولوی محمدسمیع کی ماموں زادبہن سے جو موضع خاص ڈیہہ کی رہنے والی تھیںعلامہ شبلی کا دوسرا نکاح ہوا۔

علی گڑھ کالج کی دینیات کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے۔

۱۲؍نومبر کو مولانا کے والد شیخ حبیب اللہ وکیل نے وفات پائی۔شبلی نے بڑا پردرد مرثیہ لکھا۔

امیر کابل نے دوبارہ دارالترجمہ کی سربراہی کی پیش کش کی۔جسے مولانا شبلی نے بوجوہ  منظورنہیں کیا۔یہ دارالترجمہ کلکتہ میں قائم ہونا تھا۔

 ۱۹۰۱ء

لفٹنٹ گورنر سراوڈ برن نے مدرسہ عالیہ کلکتہ کو مفید بنانے کے لئے کلکتہ آنے کی   درخواست کی۔

کلکتہ یونیورسٹی کے نصاب سے فارسی کے خارج کئے جانے کی مخالفت اور فارسی زبان وادب کی حمایت میں زبردست تقریر کی،جس سے فارسی کا اخراج ملتوی ہوگیا۔

 ۲۲؍مئی کو ناظم سررشتہ علوم وفنون سرکار آصفیہ حیدرآباد کے عہدہ پر تقرر ہوا۔

 جدید علم کلام کی تدوین کا خاکہ تیار کیا۔

 ۱۹۰۲ء

اگست میں امام غزالی کی سوانح عمری ’’الغزالی ‘‘مطبع نامی کان پور میں طبع ہوئی۔

علامہ اقبال کی پہلی کتاب ’’علم الاقتصاد ‘‘کی زبان کی اصلاح کی۔

 ’’علم الکلام‘‘ پایہ تکمیل کو پہونچی۔

ندوۃالعلماء کے سالانہ جلسہ منعقدہ امرت سر میں شرکت کی۔ندوۃالعلماء کی ضرورت   اورختم نبوت کے موـضوع پر تقریرکی۔

 منشی اطہرعلی نے ندوہ کے جلسوں میں علامہ شبلی کی تقریروں پرپابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی۔ جسے ارکان نے نا منظور کردیا۔

 ۱۹۰۳ء

جنوری میں انجمن ترقی اردو کے سکریٹری منتخب ہوئے اور اس کا دستورالعمل تیار کرکے متعدد اہل علم کے پاس بھیجا۔

مطبع مفید عام آگرہ سے’’علم الکلام‘‘ شائع ہوئی۔

ندوہ کے نصاب تعلیم میں اصلاح کی کوشش شروع کی اور انگریزی تعلیم کا آغاز ہوا۔

  ماہنامہ’’ الندوہ‘‘لکھنو کا خاکہ پیش کیا۔

ندوۃالعلماء کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے کئے امرت سر گئے۔

  مولانا حبیب الرحمن شروانی نے ندوہ کی نظامت کی پیش کش کی مگر علامہ شبلی نےنا منظورکردیا۔

 ۱۹۰۴ء

مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے ساتھ ماہنامہ ’’الندوہ‘‘ کے ایڈیٹر منتخب ہوئے۔

  اگست میں پہلا شمارہ شائع کیا۔

 پروفیسر آرنلڈ کو جب وہ واپس انگلینڈ جارہے تھے، الوداع کہنے حیدرآباد سے بمبئی گئے۔

سلسلہ کلامیہ کی تصنیف ’’الکلام‘‘ شائع ہوئی۔

 مدراس گئے اورندوہ کے چوتھے اجلاس کی صدارت کی۔

 دہلی میں ’’اسلام کی بے تعصبی ‘‘کے موضوع پر لکچر دیا۔

دوسری صاحبزادی رابعہ نے کم عمری میں وفات پائی۔

 والد نے جو قرض چھوڑا تھا وہ اس سال ادا ہوا۔

 دوسری بیوی سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔

 موازنہ انیس ودبیر پایہ تکمیل کوپہنچی۔

۱۹۰۵ء

کم سن بیٹے نے انتقال کیا۔

 فروری میں سررشتہ علوم و فنون کی نظامت سے مستعفی ہوکر اعظم گڑھ آئے

۲۳؍اپریل کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم منتخب ہوئے۔

ندوہ میں جدید نصاب تعلیم نافذ کیا۔

مولانا عبد اللہ العمادی کو ندوہ کا سب ایڈیٹر مقرر کیا۔

مولانا ابو الکلام آزاد کو ندوہ بلایا۔

 اکتوبر میں مولانا ابو الکلام آزادکو ماہنامہ’’ الندوہ‘‘لکھنو کا سب ایڈیٹر بنایا۔ وہ تقریباً

  آٹھ ماہعلامہ شبلی کی صحبت میں رہے۔

  دوسری بیوی نے انتقال کیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد مولانا شبلی کے ساتھ اعظم گڑھ آئے۔

نواب محسن الملک نے علی گڑھ کالج کی سنٹرل کمیٹی کا رکن نامزد کیا۔

  سلطان جہاں بیگم سے ملاقات کی اور ندوہ کے لئے امداد حاصل کی۔

بیگم بھوپال نے بھوپال میں قیام کی خواہش ظاہر کی۔

 ۱۹۰۶ء

 ندوہ میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اورعلامہ حمید الدین فراہی سے اس میں حصہ  لینے کی فرمائش کی۔ چنانچہ انہوں نے تعطیلات میں دو سال یہ فریضہ انجام دیا۔

 مولانا کے صاحب زادے حامد حسن نعمانی تحصیلدار مقرر ہوئے۔ان کی پہلی تقرری دیوگام میں ہوئی، پھر جون پور تبادلہ ہوا۔

اگست میں ’’ سوانح مولانا روم‘‘ شائع ہوئی جودورجدید میں مولاناروم پر پہلا تحقیقی  کام ہے۔

 ’’مونس الارواح‘‘ از جہاں آراء بیگم کا نادر نسخہ سو روپئے میں پنساری کی دوکان سے  خریدا، جو آج کتب خانہ دارالمصنّفین کی سب سے قیمتی کتاب ہے۔

 نواب سلیم اللہ خاں ڈھاکہ کی فرمائش پر ڈھاکہ کا سفر کیا اورمیرزا شجاعت علی خاں  ایرانی کونسلر کی صدارت میں ’’ تاریخ اسلام‘‘ پرڈھاکہ میں لکچردیا۔

 ڈھاکہ جاتے ہوئے کلکتہ میں قیام کیا۔یہاں اورنگزیب عالم گیر کے ہاتھ کا لکھا ہوا  قرآن، داراشکوہ اور زیب النساء کی تحریریں دیکھیں۔ ’’مسلمان اورفن تاریخ‘‘ کے   موضوع پر لکچر دیا۔

اسی سال ندوہ کے اجلاس بنارس میں شریک ہوئے اورایک علمی نمائش کا اہتمام کیا جسمیں شاہی فرامین خاص طور سے جمع کئے گئے تھے۔

  ندوہ کی امداد کے لئے بمبئی کا سفر کیا۔

اپنے شاگردمولانا محمد علی جوہر کی خواہش پر بڑودہ گئے۔

  انہی کی خواہش پر دسمبر ۱۹۰۶ء میں ماہنامہ الندوہ میں ’’مضامین عالمگیر‘‘ لکھنے کا آغاز ہوا۔

 مولانا سید سلیمان ندوی کو ماہنامہ ’’الندوہ‘‘ کا سب ایڈیٹر مقرر کیا۔

مولانا عبد السلام ندوی کے پہلے مضمون تناسخ کو تعریفی نوٹ کے ساتھ ماہنامہ الندوہ لکھنو میں شائع کیااور انعام دے کر حوصلہ افزائی کی۔

۱۹۰۷ء

اپنا ذاتی کتب خانہ ندوہ پر وقف کیا۔

 ۱۷؍مئی کو بھری بندوق چل جانے سے حادثہ گزند پا ہوا جس پر مولانا حالی، مولانا اقبال

 احمد خاں سہیل،نواب علی حسن خاں، خواجہ عزیزالدین عزیز، مولانا عبد السلام ندوی اورمولاناسید سلیمان ندوی نے رباعیاں لکھیں۔

 اسی مہینے میں ’’ موازنہ انیس ودبیر‘‘ شایع ہوئی۔

  ڈھاکہ، مظفر پوراور حیدرآباد کا سفر کیا اور وہاں کے جلسوں میں شریک ہوئے۔

   لکھنؤ میں ’’اسلام اور بے تعصبی ‘‘کے موضوع پر لکچر دیا۔

 نواب محسن الملک نے جومولانا شبلی کے بڑے مداح تھے، شملہ میں وفات پائی تو

  ’’ہائے محسن الملک‘‘ کے عنوان سے الندوہ میں تعزیتی نوٹ لکھا۔

پائوں بنوانے کے لئے بمبئی کا سفر کیا۔

شعرالعجم کا پہلا حصہ مکمل ہوا۔

  ۱۹۰۸ء

مدرسۃ الاصلاح سرائمیرقائم ہوا۔علامہ شبلی نے اس کی سرپرستی قبول کی۔ اس کے نظام تعلیم وتربیت کا ایک خاکہ تیار کیااور مولاناحمیدالدین فراہی سے اس میں شرکت کیفرمائش کی۔

  وقف علی الاولاد کے لئے تحریک برپاکی۔

رسالہ وقف علی الاولاد سپردقلم کیا۔

وقف علی الاولاد کے متعلق ہندوستان کے علماء سے فتاوی منگوائے اور اسے کتابی صورت  میں ’’فتاوی علمائے ہندوستان‘‘ کے نام سے شایع کرایا۔

وقف علی الاولاد کی حمایت میں چالیس ہزار افراد سے دستخط حاصل کئے اور حکومت کو پیش کیا۔

فارسی غزلوں کا مجموعہ’’ دستہ گل‘‘ شائع ہوا۔

  شعرالعجم کا پہلا حصہ شائع ہوا۔

حکومت حیدرآباد نے علوم مشرقیہ کی یونیورسٹی قائم کرنی چاہی تو اس کے نصاب کی تیاری علامہ شبلی کے سپرد کی۔ نظامت کی بھی پیش کش کی گئی تھی مگر انہوں نے معذرت کی۔

جامعہ عثمانیہ کا نصاب تیار کیا۔

 سلسلہ مضامین عالم گیر پایہ تکمیل کو پہنچا۔

اسی سال ندوہ میں ہندی اورسنسکرت کا شعبہ قائم کیا۔

اشاعت وحفاظت اسلام کا منصوبہ بنایا۔

 مارچ میں کرنل عبد المجید خاں کی دعوت پر راجپوت کانفرنس پٹیالہ میں شرکت کی۔

 ندوہ کے لئے ریاست بہاول پور سے پچاس ہزار روپئے حاصل کئے۔

بمبئی کا سفر کیااور دولت مند تاجروں کو ندوہ کی طرف مائل کیا۔

 حکومت سے ندوہ کی تعمیر کے لئے ۳۲؍بیگھہ زمین حاصل کی اوراس پر دارالاقامہ تعمیر کرایا۔ اس میں خود مزدوروں کی طرح کام کیا۔اس موقع پر بڑی پر اثر تقریر کی۔

۱۹۰۹ء

  ندوہ میں درجہ تکمیل قائم کیا۔

 ریاست بھوپال سے ندوہ کے لئے امداد حاصل کی۔

مضامین عالمگیر کتابی صورت میں امرت سر سے شائع ہوا۔

مارچ میں ندوہ کے لئے سرحد کے اضلاع پشاور وغیرہ کا مختصر دورہ کیا۔محمڈن کلب کے ہال میں ندوہ کے مقاصد پر تقریرکی۔یہاں سے راول پنڈی گئے اور تقریریں کیں۔

 اہل کوہاٹ نے مدعو کیا تو مولوی غلام محمدشملوی کے ساتھ کوہاٹ گئے اور اسلام کی جامعیت کے موضوع پر لکچر دیا۔

اکتوبر میں ان کے استاذ مولانا فاروق چریاکوٹی نے وفات پائی۔

  شعرالعجم حصہ دوم شائع ہوا۔

 ۲۴؍مئی کو شعرالعجم حصہ سوم پایہ تکمیل کو پہنچا۔

۲۸؍مئی کوکلکتہ کے سفر پرروانہ ہوئے۔

 سیدافتخار عالم مارہروی نے سوانح عمری لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔

۴؍جون کوضلع ’’گیا ‘‘گئے۔

 ۱۷؍ستمبر کو دہلی تشریف لے گئے اور کئی لکچر دئے۔

 بڑی صاحبزادی فاطمہ خانم نے انتقال کیا۔

 ۳؍اکتوبر کو بمبئی پہنچے۔

 فارسی غزلوں کا دوسرا مجموعہ’’بوئے گل‘‘ مطبع احمدی علی گڑھ میں طبع ہوا۔

نواب جنجیرہ کی دعوت پر ۷؍اکتوبر کوجنجیرہ پہنچے۔ لکچر دیا اور انجمن اسلام مروڈ کا معائنہ کیا۔

  ۱۹۱۰ء

مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے جلسہ میں شرکت کی۔

ندوہ میں صیغہ تصحیح اغلاط تاریخی قائم کیا اور مولانا سید سلیمان ندوی کو اس کا سکریٹری بنایا۔

 شعرالعجم کا تیسرا حصہ شائع ہوا۔

  مشرقی بنگال وآسام میں اصلاح مدارس کی کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے۔

انگریزی ترجمہ قرآن کی تجویز پیش کی۔

 مولانا کی خواہش پر سر آغا خاں ندوہ تشریف لائے تو منظوم سپاس نامہ پیش کیا۔

زمرہ مصنّفین کی دائمی خدمت کے جذبہ سے دارالمصنّفین کے قیام کی تجویز پیش کی۔

قانون وقف علی الاولاد کے سلسلے میں مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں شریک ہوئے۔

 مولانا عبدالسلام ندوی کو ماہنامہ ’’الندوہ‘‘ کا سب ایڈیٹر بنایا۔

  ڈاکٹر سید محمود نے ’’مضامین عالم گیر ‘‘ کا خلاصہ لندن میں شائع کیا۔

 ندوہ کے سالانہ اجلاس میں مجلس برائے اشاعت اسلام کی تجویز پیش کی۔

 نو مسلموں کو ارتداد سے بچانے کے لئے حفاظت واشاعت اسلام کا خاکہ پیش کیا۔اور اس سلسلے میں شاہ جہاں پور اور رائے بریلی وغیرہ مقامات کا دورہ کیا۔

ندوہ کی امداد کے لئے پنجاب، صوبہ سرحد اور بہار کے بعض شہروں کا دورہ کیا۔

ندوہ کے لئے ریاست رام پور سے پانچ سو روپئے سالانہ کی امداد منظور کرائی۔

 دہلی کے اجلاس ندوہ میں شریک ہوئے اور ندوہ کے زیر اہتمام’ ’اشاعت اسلام‘‘ کی تجویز پیش کی۔

نو مسلموں کی مردم شماری کی تجویز پیش کی۔

  نو مسلموں کو دوبارہ ہندو ہوجانے سے بچانے کی تدابیرپیش کیں۔

۱۹۱۱ء

قانون وقف علی الاولاد کے سلسلے میں محمد علی جناح سے بمبئی جا کر ملاقات کی۔

 شعرالعجم کو ۱۹۱۰ء کی بہترین کتاب قراردیتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی لاہورنے طلبہ کو اس کے مطالعے کی ہدایت دی اور مصنّف کو ڈیڑھ ہزار روپئے کے انعام سے نوازا۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس دہلی میں شریک ہوئے۔اسی اجلاس میں علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی اور انہیں کانفرنس کی طرف سے ’’ترجمان حقیقت‘‘کے خطابملنے پر پھولوں کا ہار پہنایا اور غالب ثانی ہونے کی پیشین گوئی کی۔

عیسائی مورخ جرجی زیدان ایڈیٹر الہلال مصر کی کتاب تاریخ التمدن الاسلامی کے رد  میں عربی تصنیف الانتقاد علی تاریخ التمدن الاسلامی لکھی جو اسی سال ہندوستان اور مصر  سے شائع ہوئی۔

کثرت مطالعہ کے سبب ایک آنکھ میں پانی اتر آیا۔

تمغہ مجیدیہ غائب ہوا۔

 ایم۔اے۔او۔کالج علی گڑھ کو یونیورسٹی بنانے کے لئے تحریک میں شامل ہوئے اور اس  کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی۔

 یونیورسٹی وفد کے ساتھ وزیر تعلیم سے ملنے شملہ گئے۔

 مشرقی کمیٹی شملہ کے رکن نامزد ہوئے۔

 ۱۹۱۲ء

سیرت نبویؐ کی تالیف کا اعلان کیااور مجلس تالیف سیرت نبویؐ قائم کی۔

ندوہ میں بھاشا کی تعلیم کا آغاز کیا۔

بانکی پور پٹنہ کے عظیم الشان جلسے میں شرکت کی۔

 انجمن خدام الدین کی بنیاد ڈالی۔

 مجلس برائے اشاعت و حفاظت اسلام قائم کی اور مولانا سید سلیمان ندوی کو اس کاسکریٹری بنایا۔

لکھنؤ سے اخبار مسلم گزٹ جاری کرایا۔ مولوی وحید الدین سلیم کو اس کا ایڈیٹر منتخب کیا۔

 ارتداد کے فتنے سے متاثرہوکرنومسلموں کی مردم شماری کے لئے فارم تیار کیااور متعدد مقامات بدایوں، بیاور،اجمیر،جے پور،جودھ پور،کشن گڑھ،الور،باندی کوئی اور ریواڑی   وغیرہ کی مردم شماری کرائی۔یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔

  اسی سال سیرت اکیڈمی قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔

  شعرالعجم کا چوتھا حصہ شائع ہوا، ضخیم ہوجانے کی وجہ سے چوتھے حصے کو دوحصوں میں تقسیم کیا۔ پانچواں اور آخری حصہ ان کی وفات کے چار سال بعد ۱۹۱۸ء میں دارالمصنّفین نے شائع کیا۔

 سیرۃ النبی کا آغاز اسی سنہ میں جون کے مہینہ میں ہوا۔

 ندوہ کے اجلاس لکھنؤ میں شیخ رشید رضا مصری کو مدعو کیا اور انھوں نے اجلاس کیصدارت کی۔

 ورناکولر اسکیم الٰہ آباد کی مخالفت کی اور اردوکو ناگری ہونے سے بچایا۔

تحریک چلا کر تعطیل جمعہ منظور کرائی۔

  مجلس علم کلام کی تجویز پیش کی،جس میں علماء اور جدید تعلیم یافتہ دونوں کوشرکت کی دعوت دی۔

وقف علی الاولاد کے سلسلے میں کلکتہ کاسفر کیا۔

 تعطیل جمعہ کے سلسلے میں پٹنہ کا سفر کیا۔

اکتوبر میں جنجیرہ تشریف لے گئے۔

 اسی سال مشہور سیاسی مقالہ’’ مسلمانوں کی پولیٹکل‘‘ کروٹ لکھا۔ اس کی مخالفت میں فیض آباد اور راول پنڈی میں تحریک برپا ہوئی۔

 شاہ منیر عالم صاحب غازی پوری نے مولانا شبلی کے حالات پر مشتمل مضمون لکھا جو   مسلم ریویو الہ آباد۔اگست ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔

بمبئی کا سفر کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی کو دفتر سیرت میں شامل کیا۔

  ماہنامہ الندوہ کی ادارت سے مستعفی ہوئے۔

 شہر آشوب اسلام لکھی۔ جس کا آغاز اس شعر سے ہوا ہے۔

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک

چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک

  ۱۹۱۳ء

اگست میں مچھلی بازار کان پور کی مسجد کا وضو خانہ حکومت نے منہدم کر ادیا۔ مولانا شبلی نے  اس پر اپنی نظموں میں شدید رد عمل ظاہر کیا جس کے پورے ملک پر اثرات مرتب ہوئے۔

 اردو میں اخلاقی اور تاریخی نظموں کی داغ بیل ڈالی۔

اردو کلام کا مجموعہ ’’نالہ شبلی‘‘ کے نام سے مطبع مفید عام آگرہ سے شائع ہوا۔

عطیہ فیضی کے شوہر مسٹرسیموئل رحمین نے علامہ شبلی کی تصویر بنائی جو۱۹۱۳ء کی پیرس کی نمائش میں کمال مصوری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ٹھہری۔

مولانا عبدالسلام ندوی کو دفتر سیرت میں مددگار بنایااور ان کو ساتھ لے کر بمبئی گئے۔

 ماہنامہ الندوہ میں مولوی عبدالکریم نے حکومت مخالف مضمون لکھا۔ حکومت کے عتاب سے بچنے کے لئے تمام ارکان ندوہ نے مل کر انہیں معطل کر دیا اور جب ان کی معطلی کی خبراخباراتمیں شائع ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری علامہ شبلی کے سر ڈال دی اوران   کے خلاف ایک طوفان برپا کیا، جس سے دل برداشتہ ہوکر ندوہ کی معتمدتعلیم کےعہدہ سے مستعفی ہوگئے۔

 حکومت نے نظموں کا ایک مجموعہ ضبط کیا جس میں علامہ شبلی کی بھی ایک نظم شامل تھی۔

اکتوبر میں حیدر آباد کا سفر کیا اور وظیفہ حیدرآباد میں دوسوروپئے کا اضافہ ہوا۔

 جولائی میں ندوہ سے مستعفی ہوئے۔

 لکھنؤ میں درس بخاری کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں بعض ارکان ندوہ نے طلبہ کو   شرکت سے روکا۔

 تالیف سیرت کے لئے سلطان جہاں بیگم بھوپال نے دوسو(۲۰۰) روپئے ماہوار وظیفہ  مقرر کیا۔ اسی موقعپر علامہ شبلی نے یہ اشعار کہے تھے:

مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت

کہ ابر فیض سلطان جہاں بیگم زر افشاں ہے

رہی تالیف و تنقید روایت ہائے تاریخی

تو اس کے واسطے حاضر مرا دل ہے مری جاں  ہے

غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل

کہ جس میں اک فقیر بے نوا ہے ایک سلطاں ہے

نواب حمید اللہ خاں بھوپال نے سیرت نبوی سے متعلق کتابیں خریدنے کے لئے  یک مشت دوہزار روپئے دینا منظورکیا۔

 اسی سال مدینہ یونیورسٹی کے قیام کی تجویز سامنے آئی اور درس وتدریس کے لئے  ہندوستان سے علامہ شبلی نعمانی اور ان کے عزیزترین شاگرد علامہ حمید الدین فراہی  کا نام پیش کیا گیا۔

 مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کی طرف متوجہ ہوئے۔ نیشنل اسکول، دارالمصنّفین  اور مدرسۃ الاصلاح کو ملا کر ایک وسیع جامعہ اسلامیہ کا خیال پیدا ہوا بلکہ اب ان کی تمامآرزوؤں کی تکمیل کا مرکزیہی ادارے ٹھہرے۔

۱۹۱۴ء

جنوری میں اپنے وطن اعظم گڑھ آئے اورشبلی منزل میں قیام کیا۔

 اوقاف اسلامی کے تحفظ کے لئے تحریک شروع کی۔

خواجہ حسن نظامی کے حلقہ مشایخ میں تصوف کے موضوع پر تقریر کی۔

 فروری میں سیرۃ النبیؐ جلد اول پایہ تکمیل کو پہنچی اوردوسری جلد کی تصنیف کا آغاز ہوا۔

مسلم یونیورسٹی فائونڈیشن کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے اور لکھنو کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی۔

مارچ میں دارالمصنّفین کا خاکہ مرتب کیاجو الہلال کلکتہ میں شائع ہوااور اس کے لئے اعظم گڑھمیں اپنا باغ، بنگلہ اور اعزہ کی جائدادیں وقف کیں۔

سیرت نبوی کا وظیفہ بند کرانے کے لئے مولانا عبدالشکورفاروقی نے سیرت پر بے سروپا  تنقید لکھ کر کتابچے کی شکل میں بیگم بھوپال کو بھیجا۔

دہلی میں ندوہ کی اصلاحی کمیٹی کے جلسے میں مولانا شبلی پرچار فتوی تکفیر تقسیم ہوئے۔ان  میں ایک فتوی مولانا عبدالحق حقانی کا تھا۔ یہ فتاوے بیگم بھوپال کو بھیجے گئے۔

۷؍مارچ کو علامہ شبلی کی حمایت میں طلبا ئے ندوہ نے تاریخی اسٹرائک کی۔مولانا مسعودعلی ندوی نے ان کی قیادت کی۔

لکھنؤ میں مولانا شبلی کا صندوقچہ چوری ہوا۔

  رسالہ معارف جاری کرنے کا خیال آیا۔ مولانا عبدالسلام ندوی اس کے ایڈیٹر قرار  پائے۔ مگر ان کے الہلال میں جانے کی وجہ سے جاری نہ ہوسکا۔

 ناگ پور یونیورسٹی کے قیام کا اعلان ہوا اور علامہ شبلی سے تعاون کی درخواست کی گئی۔

۱۵؍اگست کو منجھلے بھائی مولوی محمد اسحاق وکیل ہائی کورٹ الہ آباد نے انتقال کیا۔علامہ  شبلی نے ایک خط میں لکھا ’’میرا سب کچھ جاتا رہا، اِناللہ‘‘۔

مرثیہ اسحاق لکھا جو’’ نوحہ اسحاق‘‘ کے نام سے مطبع مفید عام آگرہ سے شایع ہوا۔

  اسی ماہ میں اسہال کے سبب سخت علیل ہوئے۔

 ۱۵؍نومبر کو مولوی عبدالحکیم بندولی سے جو سیرۃالنبی کے مسودہ نویس تھے، ایک موٹا کپڑا منگواکر مسودہ سیرت بندھوایا اور بھر ایک صندوق میں مقفل کرادیا اورتاکید کی کہ اسےمولانا ابو الکلام آزاد،مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا سیدسلیمان ندوی کے علاوہ کسی کو نہ دینا، حتیٰ کہ بیگم بھوپال کو بھی۔پھرمولاناابوالکلام آزاد کو کلکتہ، مولانافراہی کو حیدرآباداور مولانا سید سلیمان ندوی کو کلکتہ، پونہ اور دیسنہ کے پتے پر تار بھیجے۔

۱۸؍نومبر کو سیرت، سیرت کہتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور جاپہنچے۔

  اناللہ وانا الیہ راجعون۔

عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہاہوں سیرت پیغمبرؐ خاتم

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

اسی دن احاطہ شبلی منزل میں تدفین عمل میں آئی۔

 ۲۱؍نومبر کوان کے تلامذہ نے مجلس اخوان الصفا قائم کی۔ مولانا حمید الدین فراہی اس کے صدر، مولاناسید سلیمان ندوی سکریٹری، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا شبلی متکلم اور مولوی مسعود علی ندوی ممبر نامزد ہوئے اور علامہ شبلی کے عزائم اور علمی وتحقیقی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے دارالمصنّفین کے کاموں کا آغاز ہوا۔یہ علامہ شبلی اور ان کے نامورتلامذہ کے خلوص کی برکت ہے کہ دارالمصنّفین اب تک نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کا شمار عالم اسلام کے عظیم علمی، تحقیقی اورتصنیفی اداروں میں ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔