سنگ دل جب کبھی کلیوں کو مسل جاتے ہیں
محمد طاہر زلفی
(پیپل سانہ ، مرادآباد)
سنگ دل جب کبھی کلیوں کو مسل جاتے ہیں
قلب گلشن کے مکینوں کے دہل جاتے ہیں
…
عشق میں آنسو جو آنکھوں سے نکل آتے ہیں
ہوکے مایوس وہ رخسار سے ڈھل جاتے ہیں
…
حسن کو اپنے تو محلوں میں چھپالے لیکن
عشق کے تیر تو پردوں میں بھی چل جاتے ہیں
…
تذکرہ تیرا کہیں سامنے جب آتاہے
ہم ترے نام کو سنتے ہی مچل جاتے ہیں
…
ایک میں ہوں جو بچھا دیتاہوں دل کا گلشن
ایک وہ ہیں کہ جو قدموں سے کچل جاتے ہیں
…
زیست شداد کی دیتی ہے سبق یہ ہم کو
پلنے والے تو ہر اک حال میں پل جاتے ہیں
…
اپنی روداد الم کیسے سناؤں ان کو
سامنا ہوتاہے میرا تو وہ ٹل جاتے ہیں
…
پر خطر راہوں کو کرجاتے ہیں وہ طے ایک دن
ٹھوکریں زلفی جو کھا کھا کے سنبھل جاتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔