سنگ دل جب کبھی کلیوں کو مسل جاتے ہیں

محمد طاہر زلفی

 (پیپل سانہ ، مرادآباد)

سنگ دل جب کبھی کلیوں کو مسل جاتے ہیں

قلب گلشن کے مکینوں کے دہل جاتے ہیں

عشق میں آنسو جو آنکھوں سے نکل آتے ہیں

ہوکے مایوس وہ رخسار سے ڈھل جاتے ہیں

حسن کو اپنے تو محلوں میں چھپالے لیکن

عشق کے تیر تو پردوں میں بھی چل جاتے ہیں

تذکرہ تیرا کہیں سامنے جب آتاہے

ہم ترے نام کو سنتے ہی مچل جاتے ہیں

ایک میں ہوں جو بچھا دیتاہوں دل کا گلشن

ایک وہ ہیں کہ جو قدموں سے کچل جاتے ہیں

زیست شداد کی دیتی ہے سبق یہ ہم کو

پلنے والے تو ہر اک حال میں پل جاتے ہیں

اپنی روداد الم کیسے سناؤں ان کو

سامنا ہوتاہے میرا تو وہ ٹل جاتے ہیں

پر خطر راہوں کو کرجاتے ہیں وہ طے ایک دن

ٹھوکریں زلفی جو کھا کھا کے سنبھل جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔