راہل کانگریس کو واپس نہیں لائیں گے، دفن کردیں گے
حفیظ نعمانی
جس وقت سے یہ خبر پڑھی ہے کہ کانگریس کے بھائی بہ ن اُترپردیش کے 18 شہروں میں سرجیکل اسٹرائک کرنے جارہے ہیں اس وقت سے حیران ہوں کہ ؎
دل کو روؤں کہ یا جگر کو میں
اپنی دونوں سے آشنائی ہے
کانگریس کے صدر راہل گاندھی کو معلوم تھا کہ اُترپردیش میں جو محاذ بنا ہے وہ اگر اندر سے نہ پھٹے تو اُترپردیش سے بی جے پی کو لوک سبھا کی دس سیٹیں بھی نہیں لے جانے دے گا۔ اور اگر کانگریس کا مقصد بی جے پی کو ہٹاکر اپنی حکومت بنانا ہے تو کم از کم ساٹھ سیٹوں کی حمایت انہیں اُترپردیش سے ملے گی۔
درمیان میں ایک بات کہنا بھی ضروری ہے کہ ایک سال پہلے جب اُترپردیش میں لوک سبھا کی تین سیٹوں کا ضمنی انتخاب ہونے والا تھا تو راہل گاندھی نے دبے دبے کہا تھا کہ ایک سیٹ پر اسے بھی لڑنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن 2017 ء میں راہل گاندھی نے اکھلیش یادو کے ساتھ مل کر جو اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اس کی تلخ یادیں سب کے ذہن میں تھیں۔ جو لڑرہے تھے یا لڑا رہے تھے وہ تو الگ رہے ہم جیسے جو گھر میں بیٹھے دیکھ رہے تھے وہ اس کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ نہ ہمیں راہل گاندھی ان سیٹوں پر نظر آئے اور جو غلام نبی آزاد انچارج تھے یا جو صوبائی صدر راج ببر تھے نہ وہ نظر آئے۔ اگر اس بے نیازی کا نتیجہ سات سیٹوں میں لکھ کر آگیا تو کون یہ تسلیم کرے گا کہ جنگ تو بہت سنجیدگی سے لڑی لیکن کامیابی مقدر میں نہیں تھی۔ اس کے بعد اکھلیش سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک سیٹ دے کر خطرہ مول لیں کہاں کی عقلمندی تھی؟
دوسرا اہم واقعہ ان تین صوبوں کا ہوا کہ جو جہاں اُمید تھی کہ تینوں جگہ کانگریس حکومت بنالے گی اور سپا بسپا وہاں کے دعویدار نہیںتھے۔ لیکن یہ بات تو راہل گاندھی خوب جانتے ہیں کہ مایاوتی کرناٹک میں بھی لڑتی ہیں گجرات میں بھی اور اتراکھنڈ میں بھی وہ ہر اس جگہ جہاں دلت ہیں اسے اپنی زمین مانتی ہیں اور ہر جگہ ہارنے کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے تینوں صوبوں میں اپنے آدمی کھڑے کئے اور سوائے اس کے کہ کانگریس کا جیتنا مشکل کردیا اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ مایاوتی چاہتی تھیں کہ کانگریس ان سے مل کر مدھیہ پردیش میں لڑے لیکن جتنی سیٹیں وہ مانگ رہی تھیں وہ اتنی تھیں کہ حکومت خطرہ میں آجاتی اس لئے سمجھوتہ نہیں ہوا اور بال پڑگیا۔
اب اگر راہل اور پرینکا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تقریروں میں تو وزیراعظم کو نشانہ بنائیں گے اور جڑیں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی کھودیں گے تو کون روک سکتا ہے؟ لیکن راہل گاندھی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُترپردیش میں بغیر مسلمانوں کے کانگریس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ایک سال سے ہر مسلمان یہ عہد کئے بیٹھا ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں اسی محاذ کے ہاتھوں مودی جی اور امت شاہ کو ذلیل کرکے یہاں سے نکالے گا۔ ہم نے اور ہمارے جیسے لکھنے والوں نے یہ کوشش کی تھی کہ مایاوتی اور اکھلیش اپنے ساتھ کانگریس کو ایسے ہی ملالیں جیسے بہار میں لالو ملا چکے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کہاں کیا کسر رہ گئی کہ راہل گاندھی نے وہ کیا جو سامنے ہے کہ لوک سبھا کا الیکشن صرف اُترپردیش میں ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا پرینکا اور سندھیا دو جنرل سکریٹری بنائے اور دونوں کو آدھے آدھے صوبے کی صوبیداری سونپ کر صرف یہ کام سپرد کیا کہ گٹھ بندھن کی تینوں پارٹیوں کی جڑیں کھود ڈالو اور بی جے پی آتی ہے تو آنے دو۔
ہوسکتا ہے کچھ لوگ کہتے ہوں کہ راہل گاندھی اب بہت سمجھدار ہوگئے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جو ایسے فیصلے کرے اسے بالغ بھی ماننا بے وقوفی ہے انہوں نے اپنی روش سے ہم مسلمانوں کو مصیبت میں مبتلا کردیا ہے۔ اب تک ہم برابر لکھ رہے تھے کہ جہاں کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ ہو وہاں ہر مسلمان کانگریس کو ووٹ دے اور جہاں علاقائی پارٹیاں جیسے سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، آر جے ڈی یا ترنمول کانگریس ہو وہاں صرف ان کو ووٹ دیا جائے اب راہل گاندھی جو کرنے جارہے ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی کھلی دشمنی ہے اور اس دشمنی کا جواب یہ ہوگا کہ مفتیانِ عظام کے سامنے صورت حال رکھ کر ان سے درخواست کی جائے گی۔ کہ وہ ہر جگہ کانگریس کو ووٹ دینا حرام قرار دے دیں اور اب تک جو رویہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ کرتے تھے وہی کانگریس کے ساتھ کریں۔
بی جے پی کو مسلمانوں نے جو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ یک طرفہ نہیں ہے۔ بھاگل پور سے شاہ نواز کا ٹکٹ کاٹتے وقت ایک آواز آئی تھی کہ مسلمان لالو کے آدمیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ اب کانگریس جو کررہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ امت شاہ سرخ رو ہوجائیں گے۔ کانگریس اگر یہ سوچ رہی ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کو ختم کردے گی تو اپنی قبر کھود رہی ہے۔ جس بی جے پی کے پاس 270 سیٹیں ہیں اس نے پورے ملک کی 40 چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لیا ہے راہل گاندھی سوچ رہے ہیں کہ وہ علاقائی پارٹیوں کو ختم کرکے ملک کی دوسری نیشنل پارٹی بنالیں گے جبکہ انہوں نے جو راستہ اپنایا ہے اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ 100 سیٹیں بھی نہ لاپائیں۔ پرینکا دو اہم پارٹیوں کے خلاف جن کی سب سے بڑی طاقت مسلمان ہیں اور دوسرے ہفتے وہ 18 ریلیاں کریں گی اور غریبی کے خلاف اسٹرائک کریں گی یہ وہی غریبی ہے جسے ان کی دادی نے 1971 ء میں نعرہ بنایا تھا کہ میں کہتی ہوں غریبی ہٹائو وہ کہتے ہیں اندرا ہٹائو فیصلہ آپ کے ہاتھ اور اس غریبی کی عمر اب 50 سال ہوچکی ہے ہم دونوں سے کہیں گے کہ اپنے فیصلہ کو واپس لیں کیونکہ ان کے اس فیصلہ کی چوٹ مسلمانوں پر پڑے گی اور فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو مسلمان معاف نہیں کرے گا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔