حسد: کائنات کا پہلا گناہ

آصف اقبال انصاری

جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوتی ہے، بالکل اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ہوتی ہے،انہی بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری "حسد ہے”۔

حسد کی تعریف یہ ہے کہ” کسی کے اندر کوئی (دینی یا دنیاوی) ترقی کو دیکھ کر، اس ترقی کو ختم کرنے کی تمنا کرنا، چاہے وہ( نعمت و ترقی) حاسد کو ملے یا نہ ملے”۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ گزشتہ امتوں کی طرح تم میں بھی حسد و بغض کی بیماری سرایت کر جائے گی۔

چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں، مسند احمد اور ترمذی شریف کے حوالے سے یہ روایت موجود ہے: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! "کہ تمہارے درمیان بھی گزشتہ امتوں کی طرح حسد و بغض کی بیماری سرایت کر جائے گی، اور یہ ایسی بیماری ہے کہ جو مونڈ دیتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈتی ہے، بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے (یعنی سرے سے ختم کر دیتی ہے)”۔

حسد کا مرض اس قدر موذی مرض ہے، کہ حاسد کے دل سے اپنے اور پرائے، بڑے اور چھوٹے، کی تمیز سلب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے خونی بھائی اور بعد میں نبوت سے سرفراز ہونے والے حضرت یوسف علیہ سلام سے حسد کیا تھا، جس کی تصریح سورۃ یوسف کے اندر موجود ہے کہ

"جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا! البتہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارا ہے، حالانکہ ہم ان سے زیادہ قوت والے لوگ ہیں، یقینا ہمارا باپ صریح خطاء پر ہے”۔

      حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے کہ جس کے بارے میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "آسمان میں سب سے پہلے گناہ اور نافرمانی کی ابتدا حسد سے ہوئی”( سورۃ الناس از تفسیر قرطبی جلد 20)

اس لیے کہ سب سے پہلے حسد کرنے والا "ابلیس” ہے، چنانچہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ سلام کو پیدا فرمایا تو اللہ تعالی نے یہ اعلان فرمایا کہ” آدم کو میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور اس کو زمین میں خلافت عطا کروں گا”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر حضرت آدم علیہ سلام کو علم کی فضیلت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ مقام عطا فرمایا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، بس یہ حکم سن کر ابلیس جل گیا کہ ان کو یہ مقام مل گیا، اور مجھے نہ ملا، اس کے نتیجے میں ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا!

"آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا”۔

اسی طرح زمین میں سب سے پہلے گناہ کے لئے جو سبب اور محرک بنا وہ بھی "حسد” ہے، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے: "ہابیل اور قابیل” قابیل نے ہابیل کو قتل جیسے گھناؤنے جرم کے لئے جو قدم اٹھایا تھا، اس کی بنیادی وجہ دیکھیں، تو وہ بھی "حسد” تھی، جیسا کہ آپ علیہ سلام نے اس قتل کی بنیادی وجہ کو اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ؛

"خبردار!! حسد سے بچو! کیونکہ حضرت آدم علیہ سلام کے ایک بیٹے (یعنی قابیل) نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے ہی قتل کیا تھا” تھا”( الرسالۃ القشیریہ جلد 1 صفحہ نمبر 288)۔

حسد کے نقصانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ حسد کرنے والا درحقیقت اللہ تعالی کے فیصلے پر اعتراض کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہ نعمت اس کو کیوں دی؟ مجھے کیوں نہیں دی؟ گویا یہ اعتراض کررہا ہے قادر مطلق کے فیصلے پر، اپنے محسن اور نعمت دینے والے پر، اسی لئے علماء فرماتے ہیں: "کہ جس طرح ظاہری اعمال میں سے بعض اعمال کو کرنا فرض ہے، جیسے نماز روزہ وغیرہ اور بعض واجب ہیں، جیسے وتر کی نماز، عیدین، اور بعض ظاہری گناہوں سے بچنا فرض ہے، جیسے حرام مال، اسی طرح باطنی اعمال میں سے بعض اعمال فرض ہیں، جیسے مسلمانوں کے لیے توحید کا عقیدہ رکھنا وغیرہ۔ اور بہت سے اعمال گناہ ہیں، جن سے بچنا بھی فرض ہے، ان باطنی گناہوں میں سے "حسد” بھی ایک ایسا گناہ ہے جس سے بچنا فرض ہے، اس لئے کہ یہ بیماری ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور ہے، جس کی وجہ سے حاسد اگلے شخص کے خلاف ہر وہ اقدام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے اگلے آدمی کا جانی و مالی یا عزت کا نقصان ہو، حسد کی بیماری خود حاسد کیلئے نقصان دہ ہے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا: "کہ خبردار حسد سے بچو!! کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جیسے آگ سوکھی لکڑی کو” (ابوداؤد، کتاب الآداب، باب فی الحسد)

آگ کی ایک قسم تو وہ ہوتی ہے، جو بہت بڑی ہوتی ہے، شعلہ زن ہوتی ہے، جو چند منٹوں میں سب کچھ جلا کر ختم کر دیتی ہے۔ اور ایک آگ کی قسم وہ ہے، جو آہستہ آہستہ سلگتی رہتی ہے، اور تھوڑا تھوڑا کرکے اس کو کھاتی رہتی ہے، حتیٰ کہ ساری لکڑی ختم ہو کر راکھ بن جاتی ہے۔ اسی طرح حسد کی وہ آگ، جو حدیث شریف میں بیان فرمائی ہے؛ اس قسم کی آگ ہے جو آہستہ آہستہ سلگتی رہتی ہے، ان کی نیکیوں کو ختم کر دیتی ہے، انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ میری نیکیاں ختم ہو رہی ہیں۔

نفس و شیطان دونوں ہی دشمن تیرے مگر
دشمن وہ دور کا ہے یہ دشمن قریب کا

   ایک حدیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے! "کہ بندہ خدا کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے” (صحیح ابن حبان)

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید و تحقیقی ایجادات نے آنکھوں کو تو خیرہ کر دیا، مگر اس کے برعکس، دل کی دنیا کھنڈرات کا شکار، اور دل کی زمین بےآباد ہے۔ اور اخلاقی و معاشرتی زوال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ہر آدمی وہ سکون کا متلاشی ہے۔

ایک اور جگہ طبیب حقیقی نباض امت صلی اللہ علیہ وسلم نے، اس مرض کی خبر اپنے زمانے ہی میں دے دی تھی، اور حسد کو اس جگہ سے تشبیہ دی، اور فرمایا! "کہ پرانی امتوں کی بیماری چپکے سے تمہارے اندر بھی آگئی ہے، یعنی” حسد اور بغض”،میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بال مونڈ دیتا ہے بلکہ یہ دین کو منہ دیتا ہے۔

مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے؛”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ابھی تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک آدمی آئے گا، کہ ایک انصاری صحابی تشریف لائے، جن کی داڑھی سے وضو کے قطرے ٹپک رہے تھے، اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے، جب اگلے دن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ فرمایا اور پھر یہی صاحب سامنے آئے، تیسرا دن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جملہ فرمایا اور یہی صحابی تیسری مرتبہ بھی اسی حالت میں تشریف لائے”۔

جب مجلس ختم ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما انصاری صحابی کے پاس گئے، اور ان سے کہا! میرا اپنے والد صاحب سے کچھ اختلاف ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے میں نے قسم کھا لی ہے کہ میں، تین دن تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے تین دن تک اپنے ہاں ٹھرالیں، انہوں نے اجازت دے دی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں تین دن تک ان انصاری صحابی کے ساتھ رہا ہوں، میں انہیں راتوں کو تہجدکےلیےاٹھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا،  ہاں جب بھی وہ نیند سے کچھ بیدار ہوتے، تو اللہ تعالی کا ذکر ضرور کرتے تھے،- صبح کی نماز کیلئے اٹھ جاتے، اور روزمرہ کے کاموں میں لگ جاتے، البتہ زبان سے کبھی کوئی نامناسب جملہ نہ نکالتے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، کہ جب تین راتیں گزر گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے خیال ہوا کہ ان کے نیک اعمال تو کوئی خاص نہیں ہیں، تو میں نے ان سے عرض کیا! کہ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تین دن تک، اہل جنت میں سے ہونے کی بشارت دی تھی، میں نے چاہا کہ تین دن آپ کے ساتھ رہوں تاکہ آپ کے نیک اعمال دیکھوں، مگر میں نے آپ کے پاس کوئی زیادہ اعمال نہیں دیکھے۔ تو آخر کیا وجہ ہے؟؟ وہ فرمانے لگے! کہ میرا سب معاملہ آپ کے سامنے ہی ہے، پھر جب ان سے رخصت ہو کر جانے لگا تو انہوں نے مجھے بلا کر فرمایا!

 "کہ میرے نیک اعمال تو وہی ہیں، جو آپ کے سامنے ہیں۔ البتہ اتنی بات ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ نہ پاتا، اور اگر کسی کو نعمت ملی ہوئی ہو تو، میں اس پر حسد نہیں کرتا”

عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہم نے عرض کیا! "یہی تو وہ بات ہے جس نے آپ کو جنت کا مستحق بنا یا ہے”۔ (منتخب احادیث، اکرام مسلم صفحہ 520)۔

اب اس مہلک ترین مرض کا علاج کیا ہے؟؟

اس کے علاج کے سلسلے میں حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے علاج دریافت کیا تو آپ نے فرمایا؛ تین ہفتہ اس پر عمل کرکے پھر اطلاع کرو

1 جس پر حسد ہو اس کے لئے ضرور دعا کا معمول بناو۔

2 اپنی مجالس میں اس کی تعریف کرو۔

3 وقتافوقتا ہدیہ اور تحفہ بھیجو۔

4 ناشتہ یا کھانے کی دعوت کرو۔

 5 جب سفر میں جاؤ تو ان سے ملاقات کرکے جاؤ، اور واپسی پر ان کے لیے بھی تحفہ لاؤ۔

  ۔ تین ہفتے کے بعد اس شخص نے لکھا! کہ حضرت میری بیماری حسد کی آدھی ختم ہو گئی۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا؛

"کہ تین ہفتہ پھر یہی نسخہ استعمال کرو”

تین ہفتے کے بعد انھوں نے لکھا کہ حضرت اب تو بجائے نفرت اور جلن کے، ان کی محبت معلوم ہونے لگی ہے(روح کی بیماریاں اور ان کا علاج، صفحہ: 139 140)

اسی طرح شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددزمانہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے سوال کیا! ” کہ مجھے بدگمانی کی عادت ہے، اور دل میں حسد کینہ وغیرہ بھی بہت ہے۔ جب کوئی مجھے اپنی خوشی سناتا ہے، تو دل میں اس کے لئے حسد شروع ہو جاتا ہے”

اس پر حضرت نے ارشاد فرمایا: "بدگمانی پر قیامت کے دن دلیل طلب کی جائے گی، وہ دلیل کہاں سے لاو گے، لہذا بدگمانی کر کے اپنی گردن مقدمے میں پھنسانا بہت بڑی حماقت ہے۔ جس سے حسد محسوس ہو، اس کے لئے اسی وقت دعا کریں۔ کہ یا اللہ!! "اس کی نعمت میں اور اضافہ کردے” ملاقات پر پہلے اس کو سلام کریں، کبھی تحفہ خواہ معمولی سا ہو پیش کریں، اپنے دوستوں سے اس کی تعریف کریں”

جی ہاں!!!

یہ تمام دوائیاں بظاہر تو تلخ معلوم ہوتی ہیں، مگر! حلق سے نیچے اترنے کے بعد دل کو سکون و اطمینان ملتا ہے۔ ورنہ انسان تمام زندگی حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے، اور سکون و چین سب چھین جاتا ہے، اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔ حسد کے بارے میں حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی نے کیا خوب فرمایا ہے!

حسد کی آگ میں کیوں جل رہے ہوں؟
کف افسوس کیوں مل رہے ہو؟
خدا کے فیصلے سے ناراض کیوں ہو؟
جہنم کی طرف کیوں چل رہے ہو؟

تبصرے بند ہیں۔