کیا ہماری روح مطمئن ہے؟

کامران غنی صبا

ہمارا وجود جسم اورروح کا مرکب ہے۔ جس طرح ہماری جسمانی نشو ونما کے لیے اچھی غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر ہم غذائوں کے معاملہ میں بداحتیاطی کرتے ہیں تو ہماری جسمانی صحت پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹھیک اُسی طرح ہماری روحانی نشوو نما کے لیے پاکیزہ روحانی غذائیں ناگزیر ہیں۔جسمانی غذائیں ہمارے جسم پر اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہیں جبکہ روحانی غذائیں ہمارے اخلاق و کردار اور ہماری شخصیت پر اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔جس طرح کچھ لوگ جسمانی غذائوں کے معاملہ میں بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے، وہ عموماً اپنی صحت سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی طرح روحانی غذائوں پر توجہ نہیں دینے سے ہم مختلف قسم کی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جسمانی غذائوں کے مقابلے میں روحانی غذائوں پر توجہ دینا نسبتاً زیادہ مشکل کام ہے۔کیوں کہ جسمانی غذائوں کا تعلق صرف ہمارے دہن سے ہے۔یعنی غذائیں منھ کے ذریعہ سے ہمارے شکم میں ہوتی ہوئی جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچتی ہیں۔ جبکہ روحانی غذائیں ہماری بصارتوں، سماعتوں اور افکار و احساسات کے ذریعہ ہماری روح میں داخل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنی روح کو جیسی غذائیں مہیا کریں گے ہمارے اخلاق و کردار پر ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کے اس مادی دور میں اپنی روح کو پاک و صاف رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جسمانی صحت کو متاثر کرنے والی غذائیں اگر ہمارے سامنے پیش کی جائیں تو ہم بہت آسانی سے بچ سکتے ہیں لیکن روحانی صحت کو متاثر کرنے والی غذائوں سے بچ پانا آج کے عہد میں انتہائی مشکل چیلنج ہے۔ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کر کے نہیں زندہ رہ سکتے۔ ہمارے ارد گرد مخرب اخلاق اور حیا سوز مناظر گردش کر رہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں دیکھنے پر مجبور ہیں۔ کیا ہماری روح پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ ہماری سماعتیں محفوظ نہیں ہیں۔ہم وہ چیزیں سننے پر مجبور ہیں جن سے ہماری سماعتیں آلودہ ہوتی ہیں۔ یقیناً سماعتوں سے ہو کر یہ آوازیں جب ہماری روح میں اترتی ہیں تو ہماری روح پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنی روح کو ماحول کی آلودگی اور زہرناکی سے کس طرح محفوظ رکھیں؟اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک جملے میں ہماری مکمل رہنمائی کر دی ہے۔ قَدافلح من زکاھا۔ کامیاب ہوا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کیا۔(سورۃ الشمس آیت9)۔ تزکیہ کرنا صاف اور پاک کرنے کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے پاک اسے کیا جائے گا جس میں کچھ آلودگی ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ پاک و صاف کرنے کی کچھ صورتیں بھی ہوں گی۔ جس طرح جسمانی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ڈاکٹر کچھ خاص غذائیں تجویز کرتے ہیں۔ کچھ خاص غذائوں سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ان سب کے باوجود مریض کو آفاقہ محسوس نہ ہو تو الگ سے بھی کچھ دوائیں تجویز کرتے ہیں اسی طرح روحانی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں کچھ خاص روحانی غذائیں لینی پڑتی ہیں۔وہ روحانی غذائیں جو ہماری بصارتوں اور سماعتوں سے ہوتی ہوئی ہماری روح کو آلودہ کرتی ہیں، ان سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جسمانی صحت کے لیے ورزش کی جاتی ہے اسی طرح روحانی نشوو نما کے لیے بھی ورزشیں ضروری ہیں۔ صوفیائے کرام اپنی خانقاہوں میں روحانی ورزش کی بھی مشق کرایا کرتے تھے۔لوگوں سے کم ملنا جلنا، گوشہ نشین ہو جانا، کچھ خاص ایام کے لیے کسی غذا کو ترک کر دینا ، مخصوص اوراوراد وظائف وغیرہ انہیں ورزشوں کا حصہ تھے۔ افسوس کہ خانقاہوں میں یہ روایات اب اگر باقی بھی ہیں تو صرف رسوم کے طور پر۔

آج ہمارے چاروں طرف جو بداخلاقی، بے حیائی،بے حسی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ روحانی بیماریاں ہیں جو ماحول کے اثرات سے ہمارے اندر داخل ہو چکی ہیں۔ اخبارات و رسائل، ٹیلی ویژن چینلز، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، یوٹیوب غرض ہمارے چاروں طرف اخلاق سوز مناظرکا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ نوجوان نسل نہ چاہتے ہوئے بھی اس سمندر میں اترنے پر مجبور ہے۔ ہم مسلسل آلودہ ہو رہے ہیں۔ اس سے بچنے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ ہم "قد افلح من زکاھا” کے عمل کو مسلسل دہراتے رہیں۔اگر نادانستگی میں ہماری سماعتیں اور بصارتیں آلودہ ہو رہی ہیں تو فوراً رجوع الی اللہ کرکے اپنے نفس کو پاک کر لیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ یعنی: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔(سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذکر التوبة)۔نفس کی پاکیزگی کے لیے کچھ اضافی اعمال کو اپنی معمولات کا حصہ بنا لیں۔ مثلاً نوافل کی کثرت، توبہ و استغفار کی کثرت، صدقۂ جاریہ کے کچھ ایسے کام جن کا اجر ہمیشہ ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہے۔بندگان خدا کی فلاح و بہبود کے ایسے کام جن سے ان کی دعائیںملتی رہیں اور مسلسل اپنا محاسبہ۔

اللہ ہماری روح کو پاکیزگی عطا فرمائے اور ہماری نفوس کو اس مقام تک پہنچا دے جن کے متعلق قرآن نے یہ بشارت دی ہے ۔” اے اطمینان والی روح!اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔پس میرے بندوں میں شامل ہو۔اور میری جنت میں داخل ہو۔(سورۃ الفجر)

تبصرے بند ہیں۔