راہل کا ہر فیصلہ ایک معمہ بن گیا ہے
حفیظ نعمانی
اللہ نظر بد سے بچائے اُترپردیش کے گٹھ بندھن کو کہ ہر طرف سے اس پر حملے ہورہے ہیں۔ اب اس کا وقت نہیں ہے کہ یہ بحث کی جائے کہ قصور کس کا ہے؟ ملائم سنگھ کے بھائی شیوپال نے پارٹی کے سامنے کچھ مطالبات رکھے تھے جو قابل قبول نہیں تھے۔ یہ کشمکش 2017 ء میں شروع ہوئی تھی اور اکھلیش یادو نے انتہائی سنجیدگی سے ان سب باتوں کو برداشت کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ شیوپال کہتے تو یہ ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اپنے بھائی ملائم سنگھ کی اجازت سے کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بھابھی کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں جو نہ تو یہ برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں کہ ملائم سنگھ کے جانشین اکھلیش ہوں اور نہ یہ برداشت کرتی ہیں کہ ڈمپل یادو ایم پی بنیں۔ وہ ڈور تو ملائم سنگھ کی ہلاتی ہیں اور نشانہ ان کا بڑا بیٹا اور بڑی بہو ہوتی ہے۔
شیوپال کی اس کے علاوہ کبھی کوئی حیثیت نہیںرہی کہ وہ ملائم سنگھ کے بھائی ہیں وہ آج بھی کہتے ہیں کہ نیتاجی کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیںکرتا۔ اور ملائم سنگھ نے وہ رویہ اپنایا ہے کہ جو دشمن کا ہوتا ہے لیکن انداز وہ رکھا ہے جو دوست کا ہونا چاہئے۔ شیوپال نے پرگتی شیل سماج وادی پارٹی بناکر یہ چاہا کہ وہ کانگریس سے کسی بھی شرط پر رشتہ جوڑلیں لیکن کانگریس نے اس کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی کہ اسے منھ لگائے۔ اور شیوپال نے پیس پارٹی کو اپنے ساتھ ملالیا اور ثابت کردیا کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ پیس پارٹی کے اور امت شاہ کے رشتوں سے ہر وہ آدمی واقف ہے جس نے انقلاب اخبار کے پہلے صفحہ پر چھپنے والے پورے صفحہ کے وہ اشتہار دیکھے ہوں گے جو اکھلیش کے زمانہ میں ہر دن چھپتے رہے ہیں۔ یہ تو امت شاہ ہی بتاسکتے ہیں کہ کتنے کروڑ روپئے برباد کرکے وہ جان پائے کہ ڈاکٹر ڈاکو بھی ہوتے ہیں۔ اب دونوں مل کر سماج وادی کے ووٹ کاٹیں گے اور جو ملے گا وہ بانٹ لیں گے۔
کانگریس کی جان کہی جانے والی پرینکا گاندھی کے اُترپردیش کے صرف تین اضلاع کے دورہ میں جو کچھ دیکھا وہ پرگتی شیل پارٹی اور پیس پارٹی سے الگ نہیں کہا جائے گا۔ ان کے بارے میں کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے بھی امت شاہ سے سودا کرلیا ہے لیکن مقصد وہی ہے کہ گٹھ بندھن کے ووٹ کاٹ لئے جائیں۔ کانگریس اس پر تیار نہیں ہے کہ وہ اقتدار کی سب سے نچلی سیڑھی پر بیٹھی رہے۔ وہ اُترپردیش میں نمبر دو بننا چاہتی ہے۔ پرینکا گاندھی نے مرزا پور میں سیتامڑھی مندر کے اندر جاکر پوجا کی اور اس کے بعد وہ خواجہ اسماعیل چشتیؒ کی درگاہ میں حاضر ہوئیں اور وہاں چادر چڑھائی اور جب وارانسی پہونچیں تو وہ کاشی وشوناتھ مندر میں گئیں اور پوجا کی۔
ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ماننے والے بزرگوں وہ خواجہ اسماعیل چشتی ہوں، حضرت غریب نواز ہوں یا حاجی وارث علی شاہ یا دوسرے، سب کا سب سے اہم پیغام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ہر گناہ معاف کرسکتے ہیں مگر شرک کو معاف نہیں کریں گے۔ اور جو پرینکا نے کیا یا وہ سب کرتے ہیں جو بزرگوں سے عقیدت کا اظہار چادر چڑھاکر کرتے ہیں اور جس بابا کا مندر سامنے ہو وہاں جاکر پوجا کرتے ہیں۔ ان لیڈروں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ جو مسلمان مزار کے قریب ہوں ان کے ووٹ بھی مل جائیں اور جو ہندو مندر کے قریب ہوں اُن کے ووٹ بھی مل جائیں۔ پرینکا گاندھی نے گنگا ندی کی پوجا کرنے کیلئے آرتی اُتاری اس کے کنارے پر آباد لاکھوں مچھواروں کو اپنا بنانے کی کوشش کی وہ جب وارانسی پہونچیں تو ان کے اور راہل کے زندہ باد کے نعروں کے جواب میں مودی مودی کے نعرے بھی لگے اور دونوں پارٹیوں کے کم عقل نوجوان ایک دوسرے سے بھڑ گئے اور پرینکا یہ دیکھ کر خوش ہوگئیں کہ مردہ کانگریس میں انہوں نے اتنی جان ڈال دی کہ اس کے جوان مودی کے جوانوں سے گھونسہ لات کرنے سے ڈرے نہیں۔
راہل گاندھی اور پرینکا کے انداز سے محسوس ہورہا ہے کہ کانگریس نے منصوبہ بند طریقہ سے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنی طاقت بی جے پی سے مقابلہ میں ضائع کرنے کے بجائے ملک میں اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لینے میں لگائیں گے۔ شاید انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ صوبوں میں جن علاقائی پارٹیوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے ان سے مورچہ لینا بی جے پی سے مورچہ لینے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ آسان ہے۔ اور یہی سوچ کر انہوں نے اُترپردیش کے علاوہ بنگال کو بھی نشانہ بنایا ہے جہاں 50 سال سے کانگریس نہیں ہے اور 1968 ء میں جب اندور میں بھارتیہ کرانتی دل بنا تھا تب اجے مکھرجی اور ہمایوں کبیر دونوں کانگریس کی لاش لے کر آئے تھے۔ بنگال میں 40 سال سے زیادہ بایاں محاذ نے حکومت کی اور اب ممتا بنرجی کی مٹھی میں بنگالی ہے۔ بایاں بازو کی پارٹیوں نے کانگریس سے مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہاں بھی راہل اپنی من مانی کرنے پر اَڑ گئے اور اب کانگریس اکیلے الیکشن لڑے گی۔
ہمیں سب سے زیادہ فکر مسلمان ووٹروں کی ہے بنگال میں ممتا نے مسلمانوں کو ان کا پورا حق دیا ہے۔ کانگریس اپنے پرانے رشتوں کے حوالہ سے یہ چاہے گی مسلمان اسے ووٹ دیں بایاں محاذ نے بھی جیوتی بسو کے دَور تک تو مسلمانوں کا بھرپور خیال رکھا لیکن جب بھٹاچاریہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو رنگ بدل گیا اور بنگال کا مسلمان پوری طرح ممتا کے ساتھ آگیا اور اب بھی ساتھ ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف ایک طریقہ اپنانا ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیوں کا محاذ ہے جیسے یوپی یا سیکولر پارٹی کی حکومت ہے جیسے بنگال وہاں تو ان کو کامیاب کرانا ہے اور جہاں بی جے پی اور کانگریس کا سیدھا مقابلہ ہے وہاں کانگریس کو ہی ووٹ دینا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کا ہر مسئلہ الگ ہے اور ہر صوبہ میں ان کے شعور کی آزمائش ہے ہر جگہ کے مخلص اور باشعور مسلمانوں اور عالموں کا فرض ہے کہ سیاسی مسئلہ کو شرعی نہ بنائیں بلکہ انہیں وہ مشورہ دیں جو وہاں کے حالات میں ان کے لئے مفید ہو اور یہ خیال رکھیں کہ نیک مشورہ بھی عبادت ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔