سہیل انجم
افطار کا وقت ہونے میں ابھی دس پندرہ منٹ ہیں۔ ہر عمر کے روزے دار اپنے اپنے گھروں سے پلیٹوں اور رکابیوں میں افطاری لے کر مسجد پہنچ رہے ہیں۔ الگ الگ قسم کی افطاری۔ کسی پلیٹ میں شوربے دار سبزی او ر روٹی ہے تو کسی میں سوکھی سبزی اور روٹی۔ کسی میں چنے ہیں تو کسی میں کوئی مٹھائی۔ پلیٹوں میں گوشت کسی کسی دن ہی نظر آتا ہے۔ لوگ غریب ہیں اس لیے نہ تو کھجور ہے نہ ہی شربت۔ نہ کوئی پھل ہے نہ ہی فروٹ چاٹ۔ ابھی گاؤں میں بجلی نہیں آئی ہے۔ مٹی کے تیل سے جلنے والا چراغ اور کچھ دنوں کے بعد لیمپ روشن کر دیا جاتا ہے۔ مسجد کے دروازے پر بچوں کی بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ سب کی نگاہیں روزے داروں کے چہرے پر پر لگی ہوئی ہیں۔ وقت قریب آتا ہے تو کوئی شخص اونچائی سے دیکھ آتا ہے کہ سورج غروب ہو گیا۔ روزے دار جیسے ہی ایک لقمہ منہ میں رکھتے ہیں بچے ’روزہ کھل گیا، روزہ کھل گیا‘ کا شور مچاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو دوڑتے ہیں۔ جو مسجد میں نہیں آسکے وہ، اور گھر کی عورتیں بچوں کی آواز پر روزہ کھولتے ہیں۔ ’صوبیدار‘ سے جو کہ سحری میں چار پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع مواضعات میں ’اٹھو روزہ دارو سحری کھا کے سونا، فجر کی نمازوں سے غافل نہ ہونا‘ گا گا کر روزے داروں کو جگاتے ہیں، اذان دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔
ان سے اس لیے اذان دلوائی جاتی ہے کہ سحری میں اتنا لمبا سفر کرنے کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ پاتے۔ اذان دینے کے بعد وہ بھی افطاری میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جس روز وہ نہیں ہوتے، کوئی روزے دار روٹی کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ کر اذان دے دیتا ہے۔ مغرب کی نماز ہوتی ہے، پھر عشا کی اور پھر تراویح۔ تراویح کے کچھ دیر کے بعد بہت سے لوگ چراغ یا لیمپ کی روشنی میں مسجد میں تلاوت قرآن میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سحری کے وقت بلکہ اس سے بہت پہلے یعنی بعض اوقات رات میں بارہ ایک بجے ہی صوبیدار ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں ڈنڈا لے کر لوگوں کو جگانے نکل پڑتے ہیں۔ جب گاؤں میں لاوڈ اسپیکر آگیا تو نوجوانوں یا مدرسے کے طلبا کا ایک دستہ مائکروفون لے کر بیٹھ جاتا ہے اور حمد، نعت اور دوسری نظمیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کو جگاتا ہے۔ فجر کی نماز کے بعد کچھ لوگ کچھ دیر تک تلاوت کرتے ہیں اور پھر بہت سے لوگ وہیں مسجد میں سو جاتے ہیں۔ صبح دس گیارہ بجے تک ہو کا عالم رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ چہل پہل بڑھتی ہے اور شام تک رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ گاؤں میں دو مسجدیں ہیں اور دونوں میں یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
جب گاؤں میں بجلی آگئی تو لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔ بڑی مسجد کی دیوار سے ایک لمبا سا بانس باندھ کر اس پر سرخ اور ہرے رنگ کے بلب لگا دیے جاتے ہیں۔ سحری کا وقت قریب آتا ہے تو ہرے رنگ کا بلب جلا دیا جاتا ہے۔ وقت ختم ہوتے ہی سرخ بلب جل جاتا ہے۔ بچے ہرے اور سرخ بلب پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ سرخ بلب جلتے ہی ’لال لال بتی جل گئی، لال بتی جل گئی‘ چلانے لگتے ہیں اور تاخیر سے سحری کرنے والے اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ اس درمیان لاوڈ اسپیکر سے دو گھنٹے پہلے ہی سحری کے لیے لوگوں کو جگانا شروع ہو جاتا ہے۔ اب لوگوں کا ایمان کافی مضبوط ہو گیا ہے۔ رات رات بھر فُل وولیوم میں لاوڈ اسپیکر پر تلاوت ہو رہی ہے، نظمیں پڑھی جا رہی ہیں اور تقریریں ہو رہی ہیں۔ گاؤں میں پچیس تیس فیصد گھر غیر مسلموں کے بھی ہیں۔ ایک گھر کی دیوار تو بڑی مسجد کی دیوار سے ملی ہوئی ہے۔ مسجد کے مسلم پڑوسی بعض اوقات اپنی نیند خراب ہونے کی شکایت کرتے ہوئے لڑکوں کو ڈانٹتے ہیں اور لاوڈ اسپیکر بند کر دینے کو کہتے ہیں۔ لیکن غیر مسلم پڑوسی نے یا کسی اور غیر مسلم نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ نہ رات میں نہ دن میں۔ نہ کسی بچے سے نہ کسی بڑے سے۔ حالانکہ نیند ان کی بھی بری طرح خراب ہوتی رہی ہے۔ اس طرح رمضان کا پورا مہینہ گزر جاتا ہے۔ ۲۹ یا پھر ۳۰ رمضان کو بعد نماز مغرب لوگ مسجد کی چھت یا کسی اونچائی پر چڑھ جاتے ہیں۔ چاند دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کو نظر آتا ہے وہ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے، دعا یاد ہے تو وہ پڑھتا ہے ورنہ ’السلام علیکم‘ کہتا ہوا دوسروں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔
چونکہ صبح عورتوں کو بھی نماز عید ادا کرنے کے لیے عید گاہ جانا ہے اس لیے وہ پوری رات جاگ کر عید کے لیے مخصوص قسم کے پکوان تیار کرتی ہیں۔ ہر گھر سے تقریباً ایک ہی قسم کی خوشبو آتی ہے۔ صوبیدار اور روزے داروں کو جگانے والا ایک اور فقیر رحیم چاچا عید کی صبح گھر گھر جا کر پورے رمضان کی جانے والی محنت کا صلہ مانگتے اور لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ان کی جھولیوں میں ڈال دیتے ہیں۔ گاؤں کے بازار میں چائے کے متعدد ہوٹل ہیں۔ مگر رمضان کے احترام میں بند ہیں۔ البتہ غیر مسلموں کے کھلے ہوئے ہیں لیکن رمضان کا احترام وہ بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ہوٹلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں۔ عید کی خوشیاں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں۔ غیر مسلم بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ غیر مسلموں میں لودھ اور گپتا برادری کی اکثریت ہے۔ گپتا برادران کئی روز قبل سے ہی عید میں فروخت کرنے کے لیے مٹھائیاں تیار کرتے ہیں۔ عید گاہ پر مٹھائیوں کے علاوہ بچوں کے کھلونے اور خاص طور پر لیمن چوس کی خوب بکری ہوتی ہے۔ عید کی نماز کے بعد عید گاہ سے نمازی اور غیر مسلم دکاندار اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں اور اسی ہندو مسلم اتحاد و یکجہتی اور بھائی چارے کے ساتھ پھر اگلے سال کے رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔
ایک بار آٹھ سے بارہ سال کی عمر کے تین بھائی سفید کرتا، پائجامہ اور رامپور کی کالی مخملی ٹوپی میں اپنے والد کے ساتھ گپتا برادری کے محلے سے ہو کر عید گاہ جا رہے ہیں۔ ان کی کالی ٹوپیاں دیکھ کر ایک ہنس مکھ اور مہذب خاتون اور کئی بچوں کی ماں ’وہ کالی ٹوپی والے ذرا نام تو بتا‘ گا کر بچوں کو چھیڑتے ہوئے اپنی عید کی خوشی ظاہر کرتی ہے۔ بچے مسکراتے ہوئے چلتے بنتے ہیں۔ اس گاؤں میں آج بھی رمضان میں لاوڈ اسپیکر سے فُل وولیوم میں نظموں ، تقریروں اور اعلانوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر مسلموں کے وہی گھر ہیں اور اسی طرح ان کی رات کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔ پرانی نسل تو جا چکی، مگر نئی نسل بھی اسی پرانی روایت پر قائم ہے۔ ملک کے موجودہ ماحول کا اس گاؤں پر کوئی اثر نہیں۔ لوگ پہلے کی مانند باہم شیر و شکر ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی فساد ہو جائے اس گاؤں کے باشندوں کی آپسی محبت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ غیر مسلموں کی دکانیں مسلمانوں کے دم سے چلتی ہیں۔ شادی بیاہ اور مرنی کرنی میں سب ایک جُٹ رہتے ہیں۔ کچھ شرانگیز قسم کے نوجوانوں نے اس اتحاد کو توڑنے کی ایک دو بار کوشش کی۔ مگر انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ کالی ٹوپی کہہ کر چھیڑنے والی اور بچوں سے محبت کرنے والی غیر مسلم خاتون اب دنیا میں نہیں ہے۔ مگر اس کے بیٹے اب بھی چائے کے ہوٹل چلا رہے ہیں۔ ایک بیٹے کا ہوٹل تو مسلمانوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔ لوگ فجر بعد سے ہی وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ جب بھی کسی مسلمان کا کوئی دوست سعودی عرب یا کہیں اور سے اسے فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کہاں ہو تو جواب ملتا ہے ’جوگی کی دکان پر ہوں‘۔
تبصرے بند ہیں۔