سالِ نو، غیر شرعی اعمال اور ہماری ذمہ داریاں

محمد خالد حسین نیموی قاسمی

(صدر جمعیت علماء بیگوسرائے)

چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کی دو بڑی مخلوق ہیں ، انسانی زندگی پر ان دونوں کے غیر معمولی اثرات ہیں اور نظام حیات میں ان کے بڑے فوائد ہیں۔سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔

انسان حساب درست رکھنے اور مہینے، ہفتے اور سال کے شمار کے لیے چاند اور سورج کا محتاج ہے۔ اللہ تعالی نے  ارشاد فرمایا۔ فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ‌ۚ وَ جَعَلَ الَّيۡلَ سَكَنًا وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ حُسۡبَانًا‌ ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ ۞(سورۃ الأنعام: 96)
ترجمہ:

وہ رات کو چاک کرکے صبح نکالنے والا ہے ‘ اور اس نے رات کو آرام کے لیے بنایا اور سورج اور چاند کو حساب کے لیے بنایا ‘ یہ بہت غالب اور بےحد علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔

اسی طرح سورہ یونس میں فرمایا :
ھوالذی جعل الشمس ضیآء والقمرنورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب “(یونس : ٥)

ترجمہ : وہی ہے جس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نور اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم لوگ سالوں کی گتنی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔

اس آیت کریمہ کے مطابق چاند اور سورج دونوں کی ایک بڑی منفعت یہ ہے کہ  ان کے ذریعے لوگ ماہ وسال کے حساب سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔

چاند سے جس تاریخ کی شروعات ہوتی ہے۔ اسے قمری تقویم کہا جاتا ہے۔ قمری تقویم میں
سال نو کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتا ہے؛ جب کہ سورج سے جس تاریخ کی شروعات ہوتی ہے۔ اسے عیسوی یا شمسی تقویم کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز یکم جنوری سے ہوتا ہے۔

شمسی کیلنڈر اور  عیسوی تقویم کے ساتھ عیسائیوں کی مذہبی عقیدت اور ان کے جذبات جڑے ہوئے ہیں ، ان کے مذہبی معاملات اور ان کی شناخت شمسی تقویم کے ساتھ اس طور پر جڑ گئی ہے کہ لوگ شمسی سال نو کو انگریزی سال نو بھی قرار دیتے ہیں۔
یکم جنوری کو سال نو کے استقبال کے نام پر غیر مسلموں اور عیسائیوں کی طرف سے بہت سی غیر اخلاقی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں، حیا و شرافت کے خلاف بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔۔۔شراب و شباب کا دور چلتا ہے۔ جام ومینا کھنکھناتے ہیں۔۔۔ اور یہ کوئی باعثِ تعجب امر بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ان کے پاس اس طرح کے امور کے لیے کوئی لازمی اخلاقی تعلیم نہیں ہے۔
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ خیرِ امت کا مقام پانے والی امت اور مسلم شناخت رکھنے والے افراد کی طرف سے بھی
ایسے امور انجام دیے جاتے ہیں، جو جو شرافت، حیا اور تہذیب و شائستگی کے بالکل برعکس اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔

اس موقع پر آتش بازی کرنا، مرد و زن کا اختلاط اورتفریحی مقامات پہ جا کے رنگ رلیاں منانا، خاص طریقہ سے پکنک بازی کرنا، آتش بازی کرنا اور دوسرے ہلڑبازی کے کام کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسے امور ہیں؛ جن کی شریعت اسلامیہ کسی حال میں اجازت نہیں دیتی ہے۔ یکم جنوری سے قبل ہی مسلم قوم کے بہت سے افراد "نیا سال مبارک” کے پیغامات کی ترسیل اتنی کثرت سے کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔!

مسلم قوم کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ31  دسمبر کی رات 12 بجے کا انتظار کرتا ہے اور جوں ہی گھڑی کی سوئی بارہ کے ہندسہ پر پہنچتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کے وجود پہ بارہ بجنے لگا ہے۔  اور ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر یہ طبقہ ایسے  کام کرتا ہے، جو انسانیت؛ تہذیب و شرافت کے خلاف ہوتے ہیں۔  مثلاً مختلف قسم کے گانے گانا، سیٹیاں بجانا، ہلڑ بازی کرنا، ہنگامہ کرنا، ناریل پھوڑنا،شرم وحیا کے دامن تار تار کر دینا۔ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ناطے ہمارے لیے کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔ ہم ایک ایسی شریعت کو ماننے والے ہیں جو جامع اور کامل و مکمل ہے اور ہر طرح کے حالات کی رہنمائی اس کے دامن میں موجود ہے۔

اس سرچشمۂ ہدایت میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے لیے جو تقویم پسندیدہ ہے وہ قمری تقویم ہے۔ ہمارے لئے قمری تقویم یعنی ہجری کلینڈر کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ اسی کے لحاظ سے بہت سی عبادات کی شروعات ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِؕ-قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ-البقرہ (۱۸۹)
ترجمہ:آپ سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ فرمادیں کہ ،یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں۔

اسی کے ذریعے  روزے کی شروعات ہوتی ہے۔ عید الفطر، عید الاضحٰی، یوم عاشورہ، یوم عرفہ وغیرہ کا اعتبار اسی سے ہوتا ہے اور بھی متعدد چیزیں چاند سے وابستہ ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :لتبتغوا من فضلہ و لتعلموا عدد السنین والحساب۔ تاکہ تلاش کرو اپنے رب کا فضل اور تاکہ معلوم کرو گنتی برسوں کی اور حساب۔
اس آیت سے فی نفسہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سال اور مہینوں وغیرہ کا حساب جس طرح چاند سے لگایا جاتا ہے؛ آفتاب سے بھی لگایا جاسکتا ہے (روح المعانی)

لیکن چاند کے معاملہ میں جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کئے ہیں ان میں اس امر کا واضح اشارہ موجود ہے کہ شریعت اسلامیہ میں حساب چاند ہی کا متعین ہے۔ خصوصاً ان عبادات میں جن کا تعلق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہو جیسے روزہ، رمضان، حج کے مہینے، حج کے ایام، محرم، شب برات وغیرہ سے جو احکام متعلق ہیں وہ سب رویت ہلال سے متعلق کئے گئے ہیں۔  اس آیت کریمہ میں "ھی مواقيت للنَّاسِ والجح” فرما کر بتلا دیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک حساب چاند ہی کا معتبر ہے اگرچہ یہ حساب آفتاب سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔

شریعت اسلامیہ نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے۔ عالم، جاہل، دیہاتی، ان پڑھ، جنگلی سب کے لیے اس کا علم آسان ہے۔ جب کہ شمسی حساب کا جاننا بالعموم مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ آلات رصد یہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے۔ عبادات کے معاملہ میں تو اللہ تعالیٰ نے قمری حساب کو بطور فرض متعین کر دیا اور عام معاملات تجارت وغیرہ میں بھی اسی کو پسند کیا ہے۔

مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے  معارف القرآن میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ ہجری تقویم پر عمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہمارے لیے فرض کفایہ ہے۔ اور یہ ہماری ملی غیرت کا بھی تقاضہ ہے؛ اگر  سارے لوگ اس کو ترک کردیں گے تو گنہگار ہوں گے۔(مستفاد از معارف القرآن)

خود سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت اسلامیہ اور اس کے قلم رو میں شامل تمام خطوں کے لیے قمری تقویم کو اختیار فرمایا اور اس کی نسبت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر ہجرت کی طرف کی گئی۔

اس میں ایک اہم اور عظیم پیغام پنہاں ہے کہ جب بھی ہم اس تقویم  کو اختیار کریں گے، اس تقویم کے تحت اس کی قمری تاریخوں کا استعمال کریں گے؛ تو ہمیں خود بخود ہجرت کا پیغام یاد آئے گا۔ ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا عظیم سنگ میل ہے۔ یہ بڑا سبق آموز واقعہ ہے جو ایک صاحب ایمان کو اللہ کی رضا کے لیے ، دین کی سربلندی کے لیے ، اپنا سب کچھ: گھر بار، اہل و عیال ،ملک وطن سب کچھ کو تیاگنے اور اپنی محبوب سے محبوب چیز قربان کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

آئیے ہم اس موقع پر عہد کریں کہ ہم اپنی تہذیب اور شناخت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اپنی ہجری تقویم اور قمری کیلنڈر کی حفاظت کریں گے اور ہوا کے رخ پہ نہیں بہیں گے؛ بلکہ جشن کے خود ساختہ مواقع پر بھی مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں گے۔ اور ہر قسم کی بے حیائی اور ہلڑ بازی سے بچیں گے۔

اس موقع پر خاص طور پر وہ آیت کریمہ ذہن میں رکھیے جو اللہ تبارک و تعالی نے اس طرح کے حالات میں رہنمائی کے لیے  نازل فرما یا :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)
ترجمہ:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اس آیت کریمہ کے شان نزول میں مفسرین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے اصحاب، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے بعد شریعت مُوسَوی کے بعض احکام پر قائم رہے، وہ ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اس دن شکار سے لازماً اِجتناب کرتے اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے تھے ان کا یہ خیال تھا کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مُباح اور جائز ہیں ، ان کا کرنا ضروری نہیں۔ جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے، تو ان اعمال کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت مُوسَوی پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیاکہ اسلام کے احکام کی پوری طرح اتباع کرو یعنی نزولِ قرآن کے بعد توریت کے احکام منسوخ ہوگئے ہیں اب ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۸، ۱ / ۱۴۷)

اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ عام حالات میں ممکن ہے کہ ایک چیز جائز ہو؛ لیکن اگر وہ چیز کسی خاص قوم کی یا کسی مذہب کی  پہچان بن جائے تو پھر اس کی مخالفت کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” من تشبہ بقوم فہو منہم”۔ جس نے کسی قوم کی ان کے خاص اعمال میں مشابہت اختیار کی  تو اس کا شمار بھی اسی قوم کے زمرے میں ہوگا اس لئے ہمیں کے سال نو کے تصور کو بدلنا ہوگا، یا تو مکمل طور پر ہم ہجری تقویم کا استعمال کریں، یکم محرم الحرام کو ہجری تقویم کا سالے نو ہے، اس چیز کو ذہن میں رکھیں اور اگر ہجری تقویم کے ساتھ شمسی تقویم کا بھی استعمال کریں تو محض تعارف اور شناخت کے لیے  ہو۔۔۔ کسی مرعوبیت کی وجہ سے نہ ہو اور کسی خاص کلچر اور تہذیب کو اختیار کرنے کے نقطۂ نظر سے یہ چیز نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ایسے مواقع پر ہر قسم کی بے حیائی سے بچیں اور اس بات کا پختہ یقین رکھیں کہ اسلامی طریقۂ حیات ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔