دریچہ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

صارفیت، مصروفیت اور مشغولیات کے اس دور میں وقت کی کمی کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے، اب لوگوں کے پاس داستان، ناول اور طویل افسانے پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے داستان ناول، لکھنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے، افسانہ مختصر کہانی کے طور پر ہی لکھا جاتا تھا اور وہ زندگی کے کسی ایک واقعہ؛ بلکہ کبھی واقعہ کے کسی ایک جز کو موضوع بنا کر لکھا جاتا تھا، پھر دھیرے دھیرے سعادت حسن منٹو نے مختصر ترین کہانی لکھنی شروع کی اور اسے ”سیاہ حاشیہ“ کے نام سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، منٹو کے اسلوب، سماج پر طنز اور تقسیم ہند کے پس منظر میں یہ

کہا نیاں مقبول ہوئیں، افسانے کے اجزاءترکیبی کی وجہ سے یہ افسانہ ہی رہا، لیکن مختصر ترین ہونے کی وجہ سے” نون اور ہے کے درمیان ایک ”چ“ کا اضافہ کرکے اہل ادب نے اصناف ادب میں اسے ”افسانچہ“ کے عنوان سے متعارف کرایا، احمد رضا ہاشمی نے بجا طور پر اسے ”لمحاتی احساس کو لفظوں سے سجانے“ سے تعبیر کیا ہے۔افسانچوں میں پلاٹ، کردار، مکالمہ، ماحول اور مخالف ماحول پیدا کرنے سے زیادہ اس کے اختتامیہ پر پوری توجہ مرکز کرنی ہوتی ہے، جسے پنچ لائن کہتے ہیں، لطیفوں میں بھی یہی کچھ ہوا کرتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ لطیفوں کا اختتامیہ ایسے جملوں پر ہوتا ہے، جس سے آپ کے ہونٹوں پر ہنسی کھیلنے لگتی ہے اور افسانچہ کی آخری سطر کو پڑھ کر آپ کو ہنسنے پر نہیں کچھ سوچنے اور اخلاقی اقدار کے زوال پر ماتم کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے، اسے ایک مثال سے سمجھئے۔ بہت پہلے ایک افسانچہ پڑھا تھا کہ” دو گدھ نے ایک مردار کو دیکھا، ایک نے دوسرے سے کہا ؛ چلو دوسروں کو خبر کرتے ہیں، سب مل بانٹ کر کھائیں گے، دوسرے نے کہا اس کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ہی اسے نوش کریں گے، دوسرے گدھ کا یہ جواب سن کر پہلے نے کہا یار! لگتاہے تو بھی انسان ہو گیا“ سعادت حسن منٹو کا ایک مشہور افسانچہ ان کی کتاب سیاہ حاشیے میں شامل ہے کہ ”آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا، صرف ایک دوکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے“۔

منٹو کے بعد ایک طویل فہرست افسانچہ نگاروں کی ہے، جن میں خواجہ احمد عباس، جوگندر یال، رتن سنگھ، رام لال، الیاس احمد گدی، شین مظفر پوری، عطیہ پروین، فاروق ارگلی،بشیشر پردیپ، افتخار ایلی، مناظر عاشق ہرگانوی، رضوان احمد، خسرو متین، انجم عثمانی، سید احمد قادری، بانو سرتاج، نینا جوگن، نوشاد عالم آزاد، سو شو بھن سین گپتا وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں، ان حضرات کے افسانچوں کی فہرست طویل نہیں ہے، لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 افسانچوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک افسانے میں کئی کئی افسانچے ہوتے ہیں، آپ افسانے سے پیراگراف کاٹ کر لکھ دیجئے اور اختتامیہ کے جملے جاندار ہوں تو وہ افسانچہ بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم ارکان کی رعایت کے ساتھ نثری تحریروں میں سے الگ الگ جملوں کو لکھتے ہیں تو وہ نثری شاعری یا آزاد شاعری کے نام سے نئی چیز ہمارے سامنے ہوتی ہے، افسانچے نے جب افسانے سے الگ اپنی پہچان بنالی توپہلے سو الفاظ کے افسانے لکھے گیے، پھر پچاس الفاظ کے اور اب احمد بن نذر پچیس الفاظ پر مشتمل افسانچے لکھ رہے ہیں جو

بر صغیر میں کافی مقبول ہیں، وہ بڑی تیزی سے افسانچوں کی تخلیق کر رہے ہیں، اور بڑی حد تک کامیاب ہیں۔

 ہمارے عہد میں ایک دوسرا بڑا نام افسانچوں کے حوالہ سے احمد رضا ہاشمی کا ہے، بنیادی طور پر ان کی پیشہ وارانہ وابستگی ہندی صحافت سے ہے، دوردرشن پر ہندی کے ساتھ اردو کی بھی خبریں پیش کرتے ہیں، ماس کمیونیکیشن پٹنہ اور کالج آف کامرس میں بھی خدمات انجام دی ہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں مشغولیت کی وجہ سے بہت ساری تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا ہے، قابل ذکر یہ بات بھی ہے کہ ریاستی سطح کے مقابلے میں مختصر کہانی نویسی کا پہلا انعام بھی انہیں مل چکا ہے، ”ایساکیوں“ کے نام سے ہندی میں ان کے پچھہتر(75) افسانچوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے، اور اب یہ اردو کے قالب میں ہمارے سامنے ہے، ہم ان کو پڑھ کر سماج کے گھنونے احساس، ٹوٹتی قدریں اور مادیت کے دور میں منتشر ہوتے رشتوں کی باز گشت سن رہے ہیں اور ان کا اختتامیہ ہمیں سوچنے اور حالات کی سنگینی کو محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے، ان افسانچوں کے خیالات ہمارے گرد وپیش اور روز مرہ کی زندگی سے ماخوذ ہیں، بعض افسانچے خالصا اسلامی افکار وخیالات سے مستعار ہیں، جس کو افسانچہ نگار نے اپنے خاص اسلوب میں ہم تک منتقل کر دیا ہے، خصوصا ماں سے متعلق جو افسانچے ہیں اور اس کتاب کا نام جس افسانچہ سے لیا گیا ہے دریچہ، اس میں بھی انسانی اقدار کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔

اس مجموعہ کے سارے افسانچے تاثر کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں، بعضوں کا اختتامیہ اتنے سادے طور پر ہو گیا ہے کہ ہمارے ذہن میں کوئی خاص تاثر نہیں ابھرتا، یہ صحیح ہے کہ ہیئت اور فورم سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ پیغام کیا دیا جا رہا ہے، البتہ جس ہیئت میں ہم پیغام دینا چاہتے ہیں ان کے خصائص اور مسلمات کی رعایت بھی ضروری ہے، ورنہ افسانہ، افسانچہ سیدھا اور سپاٹ ہو جاتا ہے، یا بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھر دُرا، مثال کے طور پر بدلاؤ کے اختتامیہ کو دیکھا جا سکتا ہے، کاش میرے والد زندہ ہوتے تو میں ان کی انگلی پکڑ کر چلنے میں خوش قسمت سمجھتا، بات سچی ہے، لیکن سپاٹ ہے،اسی طرح لگھوکتھا کا اختتامیہ بھی قاری پر کوئی خاص اثر نہیں چھوڑتا، بھیا جی ! اب تو میں آپ کی لگھو کتھا ہر دن سنوں گی، اپنی بستی میں لوگوں کو سناؤں گی، پڑھنا کوئی نہیں جانتا، پر سندیس سب کو پسند ہے، میرے بابا اور بٹیا بھی سنیں گے“۔

میں دریچہ کے سارے افسانے کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ رہا، بلکہ بعض کے بارے میں یہ بات لکھی ہے اور میں نے شعوری اور احترازی طور پر اس کے لیے بعض لفظ کا استعمال کیا ہے،اسی طرح بعض کہانیوں کا اختتامیہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور اس سے غلط پیغام لوگوں تک پہونچے گا، مثال کے طور پر ”عبدل“ کو دیکھا جا سکتا ہے، اس افسانچہ کو اختتام تک پہونچاتے وقت احمد رضا ہاشمی کے دماغ میں شاید ندا فاضلی کا یہ شعر گردش کر رہا تھا، جو اختتامیہ میں سما گیا، ندا فاضلی کے اس شعر سے میں اتفاق نہیں کر سکا، لکھتے ہیں:

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں

 کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

یہ میرا اپنا احساس ہے، اس موقع سے میں اساطین ادب کے ان خیالات کو بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو اس کتاب کی مشمولات کا حصہ ہیں، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ناول نگار ڈاکٹر عبد الصمد لکھتے ہیں:

” جب ایک ساتھ میرے سامنے ان کے کئی مختصر افسانے آئے تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں ان کے افسانوں کو افسانچہ کے زمرے میں نہیں رکھ سکتا، ان کے افسانے مختصر ضرور ہیں، بلکہ بعض مختصر ترین ہیں، پھر بھی افسانے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں اور افسانہ نگار ان کے ذریعہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کی ترسیل کامیابی کے ساتھ ہوجاتی ہے“۔

یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے تعاون سے چھپی ہے، ایک سو ساٹھ صفحات کی قیمت دو سو روپے رکھی گئی ہے، سستی کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے، نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز کے تحت یہ قیمت زیادہ بھی رکھی جا سکتی تھی، ملنے کا پتہ ایک ہی القلم پبلک اسکول لوہروا گھاٹ عالم گنج پٹنہ 7ہے، انتساب والدین کے نام احمد رضا ہاشمی کی سعادت مندی اور قدردانی کی دلیل ہے، انتساب میں دعائیہ جملے آخرت کے اعتبار سے بھی مفید ہیں، اصل کتاب شروع کرنے سے قبل مصنف کا ابتدائیہ” میرے قلم سے“، ”چھپی ہوئی چنگاری “ڈاکٹر عبد الصمد، ” دیباچے سے“ ڈاکٹر ریحان غنی، ”دریچہ زندگی کا“ جناب سر فراز عالم اور” من کا دریچہ“ جناب انظار احمد صادق کی تحریریں ان افسانچوں کو سمجھنے اور کتاب کی قدر وقیمت کو واشگاف کرنے میں معاون ہیں، یہ تحریریں نہ بھی ہوتیں تو مشک آنست کہ خود بیوید نہ کی عطار گوید کے مثل اس کتاب کی کہانیاں قاری کے دل ودماغ کو ان مسائل کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتیں، ان حضرات کی تحسین وتعریف کے کلمات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔