سود اور اس کی حرمت (قسط 11)
جمشید عالم عبد السلام سلفؔی
سود سے بچاؤ کے اسباب و ذرائع
اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت اور اس سے متعلقہ احکامات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
ترجمہ : ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے، نیک عمل کیے، نماز قائم کیا اور زکوٰۃ ادا کیے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘ [البقرة : 277]
آیاتِ ربا کے بیچ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کا تذکرہ فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ جن کا ایمان و عقیدہ درست ہوگا اور جو لوگ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کریں گے وہ سود کے قریب نہیں پھٹکیں گے، بیچ میں اس آیتِ کریمہ کے لانے کا مقصود یہی ہے کہ سود سے بچاؤ کا سب سے اہم اور بنیادی سبب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اور حقوق کی ادائیگی میں پہلے سب سے اہم بدنی عبادت نماز کا تذکرہ ہوا ہے اور پھر مالی عبادات میں سب سے اہم عبادت ادائے زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے جو سود کی عین ضد ہے۔ اور یہ امرِ واقعہ ہے کہ انسان کا تعلق و لگاؤ جس قدر اللہ رب العالمین سے مضبوط ہوگا اسی قدر وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے دوری بنائے رکھے گا۔ اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ سودی لین دین میں سب سے زیادہ وہی لوگ ملوث ہوتے ہیں جو زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی میں سستی و کاہلی سے کام لیتے ہیں اور دیگر عبادتوں سے بھی دوری بنائے رکھتے ہیں نیز نماز، روزہ، صدقہ و خیرات سے انھیں کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ اور جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مال کی خیر و برکت کو چھین لیتا ہے، اس سلسلے میں قرآن کریم کے اندر بیان ہوئے ’’باغ والوں‘‘ کا قصہ ہمارے لیے باعثِ عبرت و موعظت ہے۔ کسی زمانے میں ایک شخص کا باغ تھا جو کافی پیدا واری تھا، اس شخص کی یہ عادت تھی کہ فصل کی کٹائی کے وقت ہی فقرا و مساکین اور سوال کرنے والوں کو پیداوار میں سے ان کا حق انھیں دے دیتا تھا جس کی برکت سے اس کا باغ بھی خوب فصل اُگاتا تھا، اس کی وفات کے بعد جب اس کے لڑکے وارث ہوئے تو انھوں نے سوچا کہ ہمارا باپ بیوقوف تھا جس نے لوگوں کو باغ کی کمائی دے کر پوری زندگی مفلسی کی حالت میں گذاری ہم تو خود ہی اس کے محتاج ہیں اور ہماری اپنی ضروریات ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں اس لیے ہمیں کسی غریب محتاج کو کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے، پھر آپسی مشورہ کے بعد انھوں نے یہ طے کیا کہ اب کی بار صبح تڑکے ہی ہم فصل کی کٹائی کر لیتے ہیں جس سے نہ کوئی فقیر محتاج سائل آئے گا اور نہ ہمیں انھیں کچھ دینا پڑے گا، انھوں نے اپنی اس اسکیم کو پورا کرنے کے لیے آپس میں قسمیں اٹھائیں اور اپنی حقِ ملکیت پر اس قدر مست ہوئے کہ ان شاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی، مگر ان کی ساری تدبیر و ہوشیاری دھری کی دھری رہ گئی اور اللہ نے راتوں رات اس باغ کو نیست و نابود کر دیا، جب وہ لوگ صبح سویرے اپنے باغ میں پہنچے تو اس کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا اور انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اور آپس ہی میں ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرتے ہوئے خود کی سرکشی کا اعتراف کرنے لگے۔ یاد رکھیں! فقرا و مساکین کا حق مارنے والے اور حرص و طمع رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے مخالفین اور اس کے دیے ہوئے مال میں بخل کرنے والوں پر اسی طرح کی آفت آتی ہے۔
گویا سود سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کے پابند بنیں اور اپنی معمولاتِ زندگی میں قناعت سے کام لیں، بیجا قسم کے حرص و طمع اور فضول خرچی سے پرہیز کریں، عسرت و تنگی سے گھبرائیں نہیں بلکہ صبر و تحمل سے کام لیں اور اللہ رب العزت کی ذاتِ واحد پر مکمل اعتماد و بھروسہ رکھیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ صبر و تحمل اور توکل علی اللہ مومن کا ایسا ہتھیار ہے جو اسے مضبوط بناتا ہے، ہر میدان میں اسے کامیاب کرتا ہے، اس کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آنے دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ہم کبھی تجارت میں خسارے سے دوچار ہوں تو فوراً سودی دروازوں کو کھٹکھٹانے کے بجائے ہمت و حوصلہ سے کام لیں اور اللہ رب العالمین کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسی سے مدد کے خواہاں ہوں وہ ضرور بسط و کشادگی اور حالات سے نبرد آزما ہونے اور مشکلات سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا فرمائے گا۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ سود کا لینا اور دینا دونوں گناہ میں برابر ہیں، البتہ یہاں ہمارے ہندوستان میں یہ بات ضرور ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے اصل سرمائے پر بینک کے واسطے سے سود آجاتا ہے مگر اسے اپنی اور اپنے متعلقین کی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے انھیں جگہوں پر صرف کریں جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی گئی ہے، اور مقدور بھر اس بات کی کوشش کریں کہ سود دینے کی نوبت ہی نہ آئے یعنی سود سے مشروط قرضے نہ اٹھائیں اور اپنے اخراجات کو محدود رکھیں۔ ذرا غور کریں! کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، مال و دولت کی فراوانی دے رکھی ہے اور بسا اوقات کہیں ہمیں ہمارے کسی سودے یا تجارت میں گھاٹا ہو جاتا ہے تو کیا خوفِ الٰہی کا یہی تقاضا ہے کہ ہم سودی قرضوں سے کام چلائیں؟ یہ اللہ کی آزمائش بھی ہو سکتی ہے، اللہ کبھی دے کے آزماتا ہے تو کبھی اپنی نعمتوں کو چھین کر آزماتا ہے یعنی فقیری اور مالداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک طرح کی آزمائش ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ہر دو معاملے میں کون لوگ شکر و صبر سے کام لیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾
ترجمہ : ’’ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی (بدحالی و سختی اور خوشحالی و آسانی) میں مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘ [الأنبياء : 35]
اور اس امتحان و آزمائش میں کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف جاگزیں ہوتا ہے اور ان کے معمولاتِ زندگی اسی کے اعتبار سے انجام پاتے ہیں۔ یاد رکھیں! کسی بھی حالت میں تنگ دستی سے نہ ڈریں کیوں کہ اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے دلوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں، ادائے زکوٰۃ و صدقات کی پابندی کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گذارتے ہیں تو اللہ رب العالمین ہمیں ایسی جگہوں سے رزق عطا فرمائے گا جس کا ہم تصور نہیں کر سکتے ہیں اور جہاں سے روزی کا حاصل ہونا ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ۞ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾
ترجمہ : ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ پیدا فرما دے گا۔ اور اسے (ایسی جگہوں سے) رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا، اور جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھے وہ اس کے لیے کافی ہے، بیشک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقیناً اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ [الطلاق : 2-3]
اس سلسلے میں حدیث میں وارد ایک سچا واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح اللہ رب العالمین صدقات ادا کرنے والے اپنے متوکلین بندوں کی خصوصی امداد فرماتا ہے اور ان کے مال و جائداد میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
ایک مرتبہ ایک آدمی زمین کے ایک ٹکڑے پر تھا کہ اس نے بدلی میں ایک آواز سنی : فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ تو وہ بادل ایک طرف ہوا اور اپنا پانی ایک پتھریلی زمین پر انڈیل دیا، پھر وہاں کی ساری نالیوں کا پانی ایک نالی نے اپنے اندر لے لیا، وہ آدمی اس پانی کے پیچھے چل پڑا، پھر وہ دیکھتا ہے کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال کی مدد سے پانی کو ادھر ادھر پھیر رہا ہے، تو اس سے کہنے لگا : اے اللہ کے بندے تمھارا کیا نام ہے؟ جواب دیا : فلاں، تو اس کا نام وہی تھا جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ تو اس نے اس آدمی سے پوچھا : اے اللہ کے بندے! تم نے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟ اس نے کہا : یہ پانی جس بدلی کا ہے میں نے اس بدلی میں ایک آواز سنی کوئی کہہ رہا تھا : فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ اور وہ تمھارا نام تھا۔ تم اس میں کیا کرتے ہو؟ جواب دیا: جب تم نے یہ بات کہہ دی ہے، (تو سنو!)
((فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ، وَآكُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ.)) ’’یقیناً میں اسے دیکھتا ہوں جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور پھر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کر دیتا ہوں، میں اور میرے گھر والے ایک تہائی حصہ کھاتے ہیں اور ایک تہائی حصہ اس (باغ) میں لگا دیتا ہوں۔‘‘
ایک روایت میں یہ ہے کہ : ((وَأَجْعَلُ ثُلُثَهُ فِي الْمَسَاكِينِ وَالسَّائِلِينَ وَابْنِ السَّبِيلِ.)) ’’اور اس کا ایک تہائی حصہ مسکینوں، سوال کرنے والوں اور مسافروں کے لیے خاص کر دیتا ہوں۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الصدقۃ فی المساکین]
جو کوئی بھی لوگوں کا مال باطل طریقے سے اینٹھنے اور حرام کمائی سے بچنا چاہے اور بیجا قسم کی حرص و لالچ سے بے پرواہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے، مال و دولت سے اسے بے نیاز کر دیتا ہے اور اسے حرام کمائی سے محفوظ رکھتا ہے لہذا ہمیں بھی سود سے بچنے کا پختہ عزم و ارادہ کرنا چاہیے اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے گا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
کچھ انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تو آپ نے انھیں عطا فرمایا، پھر انھوں نے مانگا آپ نے انھیں دیا، پھر انھوں نے سوال کیا آپ نے انھیں دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا ختم ہو گیا، جب ہر چیز ختم ہو گئی تو آپ نے ان سے فرمایا:
((مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ .))
ترجمہ : ’’میرے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ میں تم سے بچا کر نہیں رکھتا، اور جو کوئی آبرو کی حفاظت کرے گا یعنی سوال کرنے سے بچے گا اللہ اسے بچا لے گا، اور جو کوئی صبر سے کام لے گا اللہ اسے صبر دے گا، اور جو بے نیازی اختیار کرے گا اللہ اسے بے نیاز کر دے گا، اور کوئی بھی شخص صبر سے زیادہ اور اس سے بڑھ کر کوئی بھلائی نہیں دیا جاتا۔‘‘ [بخاری کتاب الزکاۃ باب استعفاف عن المسألة مسلم کتاب الزکاۃ باب فضل التعفف والصبر]
لہذا ہر حال میں ہمیں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے تاکہ ہم خوشگوار زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ سودی لین دین سے بھی بچ سکیں۔
اللہ ہمیں صبر و شکر کی توفیق دے اور صدقات و زکوٰۃ دینے کا پابند بناتے ہوئے سود کی حرمت و مضرت کو سمجھنے اور اس سے کما حقہ بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔