سوری زینب (چیف جسٹس، آرمی چیف، پاکستان کی عوام کے نام گزارش)
محمد احمد رضا ایڈووکیٹ
کیا تقدیر نے اس لئے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
جب سے زینب بہن کی تصویر دیکھی ہے، بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، کھلی آنکھوں کے سامنے وہ معصوم چہرہ آ جاتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں بسنے والے محمد رسول اللہ ﷺ کے نام لیوا مسلمان ہی ہیں ؟؟ کیا یہ ہی وہ پاکستان ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور آج دنیا میں عورتوں کے حقوق میں دس بدترین ممالک کی فہرست میں ہے؟؟ میں ہر بار زینب سے اپنے آنسؤوں کے ذریعے سوری کرتا ہوں کہ۔۔
ان چند سطروں میں چند حقائق اور رپورٹس بیان کر کے ایک ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے چیف جسٹس، آرمی چیف اور عوام سے اپیل کرنا چاہتا ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں زینب بننے والی بہنوں سے سوری کرنا چاہتا ہوں۔ ۔
سوری زینب! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمہاری جان اور عزت نہ بچ سکی اور شاید ہم اکیس کروڑ کا ہجوم تمہیں بھی دو چار دن میں بھول کر کسی نئی زینب کا انتظار کرے گا۔ پھر کسی کے گھر صفِ ماتم بچھے گی، کسی کی زینب کوڑے پر قتل ہوئی ملے گی، نوٹس لیا جائے گا، جے آئی ٹی بنے گی، کوئی ایک آدھا معطل ہو گا اور پھر ہم ایک نئی زینب کا انتظار کریں گے۔ کوئی احتجاج کرے گا کہ یہ قصور اسلام کا ہے کوئی کہے گا کہ لبرل ازم کا ہے، کسی کے نذدیک یہ عورت کے لباس کا قصور ہے تو کوئی وزیر صاحب بیان دیں گے یہ تو ہوتا رہتا ہے، اس سے تحفظ والدین کی ذمہ داری ہے۔ لیکن تمہیں انصاف کسی ایک سے بھی نہیں ملے گا۔ سوری زینب !!!
زینب بہن تم سے سوری اس لئے ہے کہ یہاں تم پہلی زینب نہیں ہو جو کسی کی درندگی کا شکار بنی ہو، تم پہلی نہیں ہو جس پر جے آئی ٹی بنی ہو، تم کوئی پہلی نہیں ہو جس پر احتجاج ہوا ہو، یہاں تو (رپورٹس کے مطابق) روزانہ 18 بہنیں بیٹیاں زینب بنتی ہیں۔ یہاں تو پچھلے ایک سال میں 5660 کیسز (عورتوں کے خلاف جرائم) دائر ہوتے ہیں۔ ایک سال میں قوم کی 274 بہنوں بیٹیوں کو مرد اپنی غیرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، 206 سے اجتماعی زیادتی اور 2840 سے زیادتی ہوتی ہے، 681 کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ صرف پنجاب میں 3400 مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے آنچل تار تار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار (ٹی وی اینکر) کی رپورٹ کے مطابق روزانہ 11 معصوم پھول اور کلیاں درندگی کا شکار بنتے ہیں اور ان کے انصاف کے لئے احتجاج کرنے والوں پر پولیس سیدھے فائر کرتی ہے، تمہاری لاش کچرے سے اٹھا کر ورثاء کے حوالے کرنے پر دس ہزار روپے انعام بھی مانگا جاتا ہے۔۔
سوری زینب! یہاں دن دیہاڑے ماڈل ٹاؤن میں حاملہ ماں کے چہرے پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور چند کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھے بے بس وزیر اعلی کو واقعے کی خبر شام کو ٹی وی دیکھنے کے بعد ہوتی ہے۔ تمہارے ہی شہر قصور میں سینکڑوں کی تعداد میں معصوم پھولوں سے درندگی ہوتی ہے، انٹرنیشنل مارکیٹ میں چار سو سے زائد ویڈیو کلپس بیچے جاتے ہیں اور ملزمان کو اسمبلی میں بیٹھے ایک ایم پی اے کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، قانون اور عدالتیں منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور مجرم آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ فیصل آباد کے ایک ایم این اے کے تین بیٹے کسی کی زینب کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور قانون بے بس رہتا ہے۔ شیخوپورہ میں ووٹ نہ دینے پر مزدور کی بیٹی کی عزت لوٹی جاتی ہے۔ جہلم میں پانچویں کلاس میں پڑھنے والی کسی کی زینب سے استاد زیادتی کرتا ہے اور چیئرمین کا امیدوار اس کی وکالت کرتا ہے۔ شیخوپورہ کی بہن کا آنچل تار تار ہوتا ہے اور وہ مقدمہ درج کروانے کو در در ٹھوکریں کھاتی ہے۔ جلال پور پیر والا میں چیئرمین میونسپل کمیٹی یتیم لڑکی سے زیادتی کرتا ہے۔ پھالیہ میں میٹرک کی طالبہ اغوا ہوتی ہے، کئی روز تک زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ بہاولنگر میں محنت کش کی نابالغ بیٹی اغوا ہوتی ہے، ملزم گرفتار بھی نہیں ہوتے۔ شیخوپورہ میں محنت کش کی دس سالہ بیٹی اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دی جاتی ہے۔ زینب بہن ابھی تمہاری لحد کی مٹی خشک نہیں ہوتی، اسی اثناء میں تمہارے شہر قصور کی ایک اور زینب اغوا کے بعد قتل ہو جاتی ہے، فیصل آباد، پتوکی، سرگودھا میں ہوس کے پجاری درندگیوں کے بعد قتل کرتے ہیں۔ یہاں مائیں یہ کہہ کر کیس واپس لے لیتی ہیں کہ جناب! میری دو جوان بیٹیاں ہیں اور ملزم با اثر ہیں، میں یہ کیس نہیں لڑ سکتی۔۔۔ قانون ؟
اور ان سب پر وزیر اعلی صاحب نوٹس لیتے ہیں، جے آئی ٹیز بھی بنتی ہیں، عدالتیں بھی لگتی ہیں لیکن محترم جناب وزیر اعلی صاحب، قانون کے محافظ مجھ کم علم کو اتنا بتانا پسند کریں گے کہ آج تک آپ نے غریب کی بیٹی کی عزت لٹنے، قتل ہونے، ہوس کی بھینٹ چڑھنے والے کسی مجرم کو سزا دی ہو؟
زینب کے کیس پر آرمی چیف نے بھی نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس صاحب نے بھی۔ چیف جسٹس صاحب تو عدل قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں تو ان سے خصوصی طور پر اور چیف آف آرمی سٹاف سے بھی دست بدستہ عرض ہے کہ جناب یہ پہلی زینب نہیں ہے۔ آپ اس درندگی کو روکنے پر مخلص ہیں تو مندرجہ بالا سطور میں آنچل تار تار ہوتا پاکستان بھی نظر میں رکھیئے گا۔ قصور میں 2015 میں درندگی کی بھینٹ چڑھنے والے 280 معصوم پھول بھی یاد رکھیئے گا۔ اور اپنے نوٹس میں اس چیز کو بھی حصہ بنائیں کہ دس سال میں بہنوں، بیٹیوں کی عصمت دری اور قتل پر وزیر اعلی صاحب نوٹس لیتے ہیں لیکن کسی ایک کو بھی انصاف کیوں نہ مل سکا؟؟ کہیں نوٹس ہی انصاف کے راستے کی رکاوٹ تو نہیں یا بیچارے وزیر اعلی صاحب بیحد بے بس ہیں کہ کوئی ان کی سنتا ہی نہیں۔ ۔
جناب والا! پورے ملک میں بحث ہے کہ درندوں کو دردناک سزا دی جائے۔ محترم یقینا اسی لئے اسلام نے اس فعل کے مجرم کے لئے دردناک سزا رجم مقرر کی تھی۔ شاید رجم سے زیادہ دردناک سزا کوئی نہیں۔ اگر آپ اب کی بار ان مجرموں کو عوامی جگہ پر سرعام رجم (سنگسار) کر کے کیفرکردار تک پہنچا دیں تو امید ہے آپ کی اور ہماری زینب محفوظ رہ سکے۔ معاشرے میں عدل کی ذمہ داری اور معاشرے کے افراد کی آہ وبکا، ننھی کلیوں اور معصوم پھولوں کی ان دردناک چینخوں کی داد رسی فقط آپ ہی کر سکتے ہیں۔
جناب والا ! رات کو سونے سے قبل اپنے گھراور خاندان کی معصوم زینب کو سامنے بیٹھا کر ایک بار تصور کر لیجئے گا، یقینا آپ کا منصب آپ پر ضرور واضح کر دے گا کہ معصوم کلیوں پر جب یہ ظلم ہوتا ہو گا تو کس قدر دردناک چینخوں سے آسمان پھٹتا ہو گا، رب کا عرش بھی کانپتا ہو گا، پھر جب ان کے گلے دبائے جاتے ہوں گے ان کی ننھی اور معصوم آنکھیں کیسے باہر کو نکلتی ہوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی زینب کو سامنے بیٹھا کر یہ تصور کر کے آپ مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خدارا اس کیس کو جلد نپٹائے گا۔ ممکن ہے کسی درندے کی سرعام یہ سزا دیکھ کر کسی کی زینب محفوظ ہو جائے۔
عوام سے فقط اتنی اپیل کرنا چاہوں گا کہ خدارا اب کی بارہمیں اس زینب کو بھول نہیں جانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب پھر اس زینب کو بھول کر کسی نئی زینب کا انتظار کرنے لگیں۔ خاص طور پر اگلے الیکش میں ووٹ ڈالتے وقت ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پر ہونے والی ان درندگیوں کو یاد رکھنا ہے۔ ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے وقت ہمیں زینب سمیت پاکستان کی ہر بہن بیٹی کا چہرہ سامنے رکھنا ہے۔ ووٹ دیتے وقت احتیاط کرنا کہیں ان کوووٹ نہ دے دیں جو مجرموں کی سزا میں رکاوٹ ہیں۔ ورنہ پھر اپنی اپنی زینب کو ان درندوں سے محفوظ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اپنی اپنی زینب کو زنجیریں ڈال کر گھر میں قید کر دیں۔ درندگی اور ہوس کا شکار ہونے والی ہر زینب کو ہم نے جواب دینا ہے کہ ہاں یہ ہی ہے اسلامی
جمہوریہ پاکستان۔ ہاں اب یہاں مائیں، بہنیں، بیٹیاں محفوظ ہیں۔ ہاں زینب ہم نے تمہارے مجرم واصلِ جہنم کر دیئے ہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
میں بیٹی کا باپ کیوں نہیں بننا چاہتا ؟
(ایک دوست کی جذباتی تحریر)
ہم کتنے اچھے انسان اور کتنے اچھے مسلمان ہیں. ہم کتنے اسلام پسند اور کتنے عاشق رسول ہیں ؟ اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہ انڈیکیٹر ہی کافی ہے کہ جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ ایک طرف اس رحمت کے نزول پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے اچهے نصیب کے لئے دن رات دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر لوگ جب مبارک باد دیتے ہیں تو یہ دعا بھی ضرور دیتے ہیں کہ اللہ نصیب اچھے کرے۔ ایسا کیوں؟ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبے اس معاشرے سے اتنا ڈر کیوں؟
ہمارے ہاں جو سلوک بہو کے ساتھ عموما روا رکھا جاتا ہے اس کی توقع دیندار یا کم دیندار تمام گھرانوں سے کی جا سکتی ہے یہ ہمارا ثقافتی اظہار ہے۔لڑکی جب تک کام کے قابل رہے تو سسرال والے میکے جانے کی اجازت دینے میں ہزار حیل و حجت کرتے ہیں اور اگر شدید بیمار پڑ جائے یا بچے کی پیدائش کا معاملہ ہو تو بہتر دیکھ بھال کے لئے میکے بھیج دیا جاتا ہے۔ اور اگر سسرال میں ہی رہنے دیے جانے کا احسان کر دیں تو بہو کو عدم توجہ سے موت کے منہ میں دھکیل دینا معمولی بات ہے.ایسی بے غیرتی اختیار کرنے والے جب مسجد کی رونقیں بڑهاتے ہیں، نعت شریف سنتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں، اپنے گهر کی دلہنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والے جب گلی محلے کو دلہن کی طرح سجاتے ہیں تو …
ہمارے مولوی نے اپنے سننے والوں میں جو مزاج بھی پیدا کرنا چاہا وہ پیدا کر کے رہا۔ مولوی کی جتنی بھی مذمت کی گئی، لیکن وہ اپنا ہر ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن چونکہ اپنے سامعین کی اخلاقی تربیت اس کا ہدف کبھی رہا ہی نہیں، اسی لئے اسلام کی محبت ہو یا عشق رسول، یہ لوگوں کوان کی ایسی کسی غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت سے انہیں روکتا نہیں۔ رسولِ خدا کی آخری وصیت میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین بھی تھی۔ لیکن عشقِ رسول میں ڈوبی اس قوم کو اپنے محبوب رسول کی اس آخری وصیت پر عمل کی فرصت ہے نہ خیال ۔
بیٹیوں کو یہ کہہ کر رخصت کرنا کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جا رہی ہے وہاں سے تمہارا جنازہ نکلنا چاہئیے، اور یہ کہ سسرال میں لڑکیوں کے ساتھ ایسا تو ہوتا ہی ہے صبر کرنا چاہیے تھا اللہ صبر کا پھل دیتا ہے، یہ بیٹیوں کا بدترین استحصال ہے.۔ جو لڑکی اس ذلت پر پر سمجھوتہ نہ کر سکے، اسے بدتمیز اور ناعاقبت اندیش کہہ کر سارا معاشرہ رد کر دیتا ہے، کوئی کم دین دار یا کوئی عاشق رسول ایسی غیرت مند لڑکی سے شادی کرنا نہیں کرتا اور اگر وہ چاہے بھی تو اس کے گھر والے نہیں چاہیں گے، کہ پھر وہ مشق ستم کس پر کریں گے۔ ادھرگھر کے سربراہ بزرگ مرد حضرات یہ کہہ کر ان معاملات میں نہیں پڑتے کہ یہ عورتوں کے معاملات ہیں ۔ حالانکہ یہ ان کی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنی عورتوں کو حد سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ ان سے قیامت کے دن اس کی پوچھ ہوگی، لیکن چونکہ مولوی نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ اس پر بھی پوچھ ہو سکتی ہے اس لیے وہ بھی دین کو نماز، روزہ، چندہ اور تہوار منانے سے آگے کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ اسلام بالکل ایک سیکولر اسلام ہے، جو مکمل طور پر ذاتی نوعیت کا ہے اور اس کا گھریلو معامالت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
لڑکیوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرنے والا یہ معاشرہ ہرگز اس قابل نہیں کہ میں اس میں اپنی بیٹی کی پیدائش کا گناہ گار بنوں. صاحبو!
یہ وجہ ہے کہ بیٹی کی شدید خواہش کے باوجود میں نہیں چاہتا کہ بیٹی کا باپ بنوں۔