لبرل ازم LIBERALISM  

اللہ بخش فریدی

لبرل جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘ ہر طرح کی سوچ، فکر اور فہم سے آزاد۔ ہر طرح کے دین کے احکامات و روایات کی پابندی کی قید سے آزادمطلق و خود مختار ریاست کو لبرل ریاست کہتے ہیں ۔ شروع میں اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔ بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک، روشن خیال اور اعتدال پسند ہو۔ اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے کوئی چیز اس کی راہ میں روک ٹوک نہ کرنے والی نہ ہو۔ یہ تصور انسان کو اپنی ذات کا مقتدر اعلیٰ اور مجموعی طور پر ریاست کے تمام انسانوں کو ریاست کا مقتدر اعلیٰ بنتا ہے۔

جبکہ اقتدار اعلیٰ صرف اسی ہستی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اس نے انسان کو کیوں اور کس لیے پیدا کیا اور صرف اسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اس تصور نے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کرکے اپنی خدائی کا اعلان کر دیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ انسان نے خود کوتو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کہ خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہٰذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔

لبرل ازم مذاہب کا دشمن ہے یہ براہ راست مذاہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے۔ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔

لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اس نے خود اپنے لیے چناہے کہ اس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا، ہر قسم کی ضلالت، لہو و لعب میں پڑا، ناچ گانا کرتے ہوئے بھی دیکھے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو اعتدال پسند اور روشن خیال سمجھتا ہے، جس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔

لبرل ازم یعنی آزادی تباہ کن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے بھی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنہوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے لبرل ازم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اب اس تصور کودوبارہ اسلام کو ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

برطانوی فلسفی جان لاک وہ پہلا شخص ہے جس نے لبرل اِزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔ یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا اور نہ ہی خدا کو منصف گردانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں ۔ عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آ گئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیراور روسو اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا۔ یہی یورپ کی خدا سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرل اِزم اور کچھ نرم سیکولر اِزم ہے۔ یہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہی ہے جس نے موجودہ دور کے عصری تعلیمی اداروں میں ’’تصور وحی کی نہی‘‘ جیسے تعلیمی نظام کو فروغ دینے پر مجبور کیا ہے۔ نتیجتاً ہر خاص و عام، مادیت اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوگیا۔

لبرل ازم بذات خود ایک دین ہے جو مغرب کے آزاد، روشن خیال، اعتدال پسند، نفس پرست ذہنوں کی تخلیق کردہ ہے۔ لبرل ازم کا تصور ہر جمہوریت میں پایا جایا ہے، جمہوریت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور لبرل ازم جمہوریت کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہریت کی مساوات کی بنیاد پر جمہوریت کا جنم لبرل نظریات اور تحریک کا نتیجہ ہے۔ تمام افراد کو بلا تفریق یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی انتظام کے لئے اہل قیادت منتخب کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک ہوں یا دیگر، دونوں ہی لبرل ازم اور سیکولرازم کی جکڑ بندیوں میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں ۔ مسلم ممالک کے بیشتر سیکولر اور لبرل حکمراں ذاتی مفادات کے پیش نظر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلہ کاربنے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ خدا، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔

ہمارے حکمران اکثر و بیشتر یہ بات کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل ہونا چاہیے اس کے بغیر ترقی نا ممکن ہے، اگر یہ نہ ہو تو دنیا میں عزت اور وقار نہیں ملے گا۔ مشرف اپنے دور میں نعرہ لگاتا رہا روشن خیال، اعتدال پسندی کا جس کے پیچھے لبرل تصور ہی تھا جو خداوند کریم اور اس کے دین سے کھلی بغاوت ہے۔ میاں صاحبان بھی اکثر پاکستان کو سیکولر و لبرل بنانے کا عزم کرتے رہتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    لبرل ازم یعنی انسان پیدا ہوا ہے تا کہ اُس کو حقوق ملیں۔ لبرل ازم یعنی کسی کا کسی کے اوپر کوئی اختیار نہیں۔ اِس کے اندر انسان کا موازنہ حیوانات کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسا کہ جانوروں کے لباس نہیں تو انسان کو ملبوسات کی کیا ضرورت؟ یا جانوروں کی حدود نہیں تو انسانوں کو کیوں محدود رکھا جائے وغیرہ؟اِس طرزِ تفکر نے نہ صرف یہ کہ مذاہب کو ٹھیس پہنچائی بلکہ خود اِس کو بنانے والے اِس کی آفت کا شکار ہیں۔ آج مغرب جو کہ اِس تفکر کا بانی ہے ایسے مسائل سے دوچار ہے کہ خود اُن کے اوسان خطا ہوئے ہیں۔ کیونکہ مغرب میں برہنہ گھومنے سے لےکر ہم جِنس پرستوں سے لےکر یہ تحریک اِس حد تک جا چکی ہے کہ ایک فرزند گھر میں بیٹھ کر اپنے والدین سے حقوق طلب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مجھے کھلانا پلانا نہیں تو پیدا کیوں کیا تھا اور خود کو ہر قسم کی ذماداریوں سے مبرا سمجھتا ہے۔ یہ طرزِ تفکر ہمیشہ محض حقوق کی بات کرتا ہے اور اِس میں ذمہ داریوں کا کوئی تصور نہیں، اِسی بنا پر اِس کے نام حقوقِ بشر، حقوقِ نسوان اور حقوقِ فلاں و فلاں ہی کی صورت میں آپ کو نظر آئیں گے،جب کہ کبھی بھی ذمہ داریوں کی کوئی تحریک آپ کو نظر نہیں آئے گی۔

تبصرے بند ہیں۔