سرحد

نظر عرفان

جنگ ٹلتی رہے، جنگ ٹلتی رہے

امن کی بات رات و دن چلتی رہے

کسے کہتے ہیں سرحد

آپ آؤ اپنی زمین سے

میں آؤں اپنیزمین سے

 میرے ہاتھوں میں ہو مشکفشاں

تیرے ہاتھوں میں ہو امن کا پرچم

دیکھتا ہوں یہسرحد

ہاں اسے ہی کہتے ہیں سرحد

 بیٹھ جاؤں اس زمین پر

ہٹاؤں اس کانٹے کی دیوار کو

مٹا دوں اس سیاست کےنشان کو

بچھا ڈالو اس پرقالین کشمیر

گائیں ہم مل کر

ترانہ اقبال و تاگور

کس نے بنائی یہ تصویر

ہے جس میں کانٹوں سے کھینچی لکیر

جسکو ہم کہتے ہیں پیار سے سرحد

جسکےلئے ہم بہاتے ہیں خون انسانیت

اوروطن کا سرمایہ

تلف ہوتا ہے وطن کے نام پر

خون انساں کی شکل میں

کیااس سرزمین پہ پھول نہ تھے

بناتے چمن، لگاتے باغچہ

یہ زمیں نانک کی، معین کی، نظام الدین کی

یہ زمیں بودھ کی، گاندھی کی

اور یہ زمیں کبیر کی، خسرو کی

جنہوں نےدی دنیا کو امن کی تعلیم، محبت کا پیغام

اور بتایا انسانیت کو بڑا مذھب

ہو میری جنگغربت و افلاس سے

ہو میری جنگ روٹی کپڑے مکان کا

ہو میریجنگ تعلیم کے لیے

ہو میری جنگ، ناخواند گی نہ رہے اس سرزمین پر

ہومیری جنگ،کارخانے کے نوالےنہبیں بچے

اور ہو میری جنگ، نہ ہوں اس زمین پہ فسادات

اور ہو میری جنگ،

 نہ سنوں کبھی میں پھر گودھرا و گجرات

نہ سنوں کبھی میں پھر ممبئی کے فسادات

نہ سنوں کبھی میں پھر بھاگلپور و مرادآباد

ہو میری جنگ،

کرپشن نہ بنے مرے ملک کی شناخت

اورہویہ زمین، بد عنوانی سے پاک

اس سرزمین کا ہو ہرصبح مثل صبح بنارس،

 ہرشام مثل شام اودھ

اس زمین کا ہرموسم ہو مثل وادئ کشمیر

یہ میری سرزمین

ہو انصاف ہردفتر میں

منصف نہ بنے کبھی رہزن

ہو میری جنگ

مزدور کا بچہ کبھی بھوکا نہ سوۓ

اور کوکھ میں پالتی بچہ کو ماں!

نہ دیکھوں کبھی اسے کھیت کھلیانوں میں

اور نہ کبھی جانا پڑے اینٹ کی کانوں میں

اور نہ ہی کبھی سوتی میل کے کارخانوں میں

اور ہو میری جنگ

جہان میں امن آسنی کے لۓ

سرحد کے نام

جنگ ٹلتی رہے،جنگ ٹلتی رہے

امن کی بات چلتی رہے

تبصرے بند ہیں۔