شبِ قدر کی صحیح تاریخ کون سی ہے؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی

اگر ہم دن بھر تپتی دھوپ میں کام کریں اور شام میں جب مزدوری لینے کا وقت آئے اور مالک پوری کی پوری تجوری سامنے کردے اور کہے کہ جو چاہو لے لو تو ہماری خوشی کی کیا عالم ہوگا؟شبِ قدر اسی تجوری کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ ان بندوں کو پیش کرتا ہے جو بیس دن صرف اسکی خوشنودی کیلئے بھوک پیاس برداشت کرتے رہے۔ شبِ قدرکیا ہے؟ وما ادراک ما لیلۃ القدر لوگ بالکل نہیں جانتے کہ شبِ قدر کیا ہے ورنہ کوئی عورت شاپنگ کرتی نظرنہ آتی ، کوئی مرد فضول کاموں میں رات ضائع کرتا نظرنہ آتا۔

کچھ لوگ شب قدر کو 27 ویں شب میں ڈھونڈھتے ہیں اور کوئی ساری طاق راتوں میں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ حقیقت میں شبِ قدر کب ہے۔ اس کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شبِ قدر کیا ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں قیام کرنے والے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی ہے کہ جو ایمان اور احتساب کے ساتھ اس رات قیام کرے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

’’من قام لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔

قیام سے مراد نماز میں کھڑے ہونے کے لئے جاتے ہیں ۔ یہ نیند کے مقابل ہے یعنی اپنی نیند کو قربان کرکے جاگنا،  اللہ کے حضور استغفار، دعا اور نماز میں مشغول رہنا۔

موطاامام مالک کے مطابق صحابؓہ اور رسول اللہﷺ کو پچھلی امّتوں کی عمر چونکہ طویل ہوا کرتی تھی اسلئے ان کی عبادتوں پر بڑا رشک آتا تھا۔ حضرت جبرئیل ؑ حاضر ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کی امّت کیلئے ایک ایسی رات نازل کی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر ہے۔ یعنی ۸۳ سال کی عبادت کے برابر۔ سبحان اللہ۔ اتنی عظیم نعمت سے جو محروم رہ گیا وہ واقعی محروم شخص ہے ۔ ابن ماجہ میں ایسے شخص کے تعلق سے وعید آئی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو اس رات سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے ہی محروم رہ گیا۔ ’’من حرمہا حرم الخیر کلہ‘‘۔

اب دیکھتے ہیں شبِ قدرکون سی رات ہے، طاق راتوں میں سے ایک یا ۲۵ویں یا ۲۷ویں یا ۲۹ویں؟۔ یہ سارے جوابات صحیح ہیں کیونکہ ایک نہیں کئی صحیح احادیث میں ان کی سند موجود ہے۔ لیکن اس زاویہ سے سوچئے کہ:

اگر چاند کی تاریخوں میں گڑبڑ ہوجائے  جیسے کہ اس سوال خود سعودی عرب میں ہواتو؟

ایک ہی شہر میں دو، دو چاند ہوجائیں جیسا کہ مسلکوں کے اختلاف کی وجہ سے اکثر ہوتا ہےتو؟

آپ کون سی تاریخ پر اعتبار کریں گے۔ کیا فرشتے انسانوں کو غلطی کا فائیدہ دیتے ہوئے کیااپنی تاریخ تبدیل کرلیں گے؟ یا اگر کوئی بیماری یا کسی اور وجہ سے شبِ قدر سے محروم ہوجائے تو؟ پھر یہ بھی حدیث ہمیں ملتی ہے کہ شبِ قدر کی تاریخ ہر سال بدلتی ہے۔ پھر اب آپ یہ بتایئے شبِ قدر کا تعیّن کیسے کیا جائے گا؟

اس کا ایک ہی حل ہے۔ وہ حل ہمیں سیرت نبویﷺ سے ہی ملتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی حدیث ہے کہ شبِ قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو (بخاری و مشکوٰۃ)۔ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرے میں داخل ہوتے تو آپ ﷺ کا نمازوں میں انہماک اس قدر شدید ہوجاتا کہ ہم سال تمام یہ کیفیت نہیں دیکھتے۔ آخری عشرے میں گویا آپ کمر کس لیتے۔ ’’احیا اللیل‘‘ یعنے تمام رات جاگتے اور ’’ایقذا اہلہ‘‘یعنی اپنے بیوی بچوں کو بھی اٹھاتے۔ پتہ یہ چلا کہ آپ ﷺ خود اکیلے نہیں بلکہ گھر والوں کو بھی اس رات عبادت کی ترغیب دیتے۔

قدر کے مختلف معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ قدر والی یعنی عظمت والی، شان والی رات ہے۔ اس رات کی عبادت قدر والی ہوجاتی ہے۔ دوسرے معنی ہیں تقدیر لکھی جانے والی رات۔ جیسے کہ سورہ دخان میں وارد ہوا کہ:

انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین۔ فیھا یفرق کل امر حکیم۔

یعنی اس رات قرآن نازل کی گئی اور اس رات اللہ تعالیٰ اگلے سال تک کی تقدیر کے فیصلے صادر فرماتے ہیں۔ ابن  عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس رات ہر شخص کی موت و حیات، رزق و عمر، حفظ و امان کے فیصلے صادر کئے جاتے ہیں۔ تقدیرپرہمارا ایمان یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سےہے جو بدل نہیں سکتی۔ لیکن ایک حدیث ہمیں ہمت دلاتی ہے کہ ’’کوئی شئے تقدیر کو نہیں بدل سکتی سوائے دعا کے‘‘۔

 اندازہ لگایئے اتنی عظیم رات میں اپنی تقدیر میں خیر مانگنے کے بجائے اگر کوئی شاپنگ میں، کوئی باتوں میں اور کوئی دیگر لہوولعب میں یا سونے میں مصروف ہوجائے تو اس سے بڑا بدنصیب اور کون ہوگا؟

قدر کے تیسرے معنی ہیں تنگی کے۔ اس رات ’’تنزل الملئکۃ والروح ‘‘ یعنی جبرئیل اور تمام فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اس بندے کے اطراف جمع ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کے حضور گڑگڑانے میں لگا ہے۔ وہ  اُسے سلام کرتے ہیں اور اس کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ  ہوتی ہے کہ جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔ ’’سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘ یعنی یہ سلسلہ فجر تک رہتا ہے۔ سبحان اللہ

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عبادت دن میں بھی تو ہوسکتی ہے رات میں ہی کیوں؟ دراصل اللہ تعالیٰ کو بندے کا اپنی نیند قربان کرکے ساری دنیا کی نظروں سےاوجھل ہوکر اپنے محبوب کے آگے کھڑا ہونا بے حد پسند ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت رات کے آخری حصے میں جوش میں آجاتی ہے اور پکارتی ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا میں اُسے دوں؛‘‘

خود قرآن نے ان دس راتوں کی گواہی دی ہے۔ سورہ فجر میں کہا کہ ’’والفجرولیال عشر‘‘ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔ اگرچہ کہ کئی مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن لئے ہیں لیکن کئی علما نے ظاہری اور لفظی معنوں کی قربت کی بنا اسے رمضان کی آخری دس راتیں قرار دیا ہے۔ جو بھی ہو، یہ تو طئے ہے کہ جو بھی ان پوری دس راتوں میں اللہ کے حضور اپنے آپ کو وقف کردے اسے انشااللہ شبِ قدر مل کر رہے گی۔

اب آخری سوال یہ ہے کہ اس رات کیا کرنا ہے۔ سیرت سے ہمیں اس رات صرف دعائیں، استغفار اور طویل سورتوں کی تلاوت والی نمازوںکا ذکر ملتا ہے۔ کہیں نہ کسی جلسے یا خطاب کا یا دعوت و تبلیغ کا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپﷺ صحابہؓ کو جمع کرتے اور خطبہ دیتے اور اس طرح شبِ قدر کا بھی ایک خطبہ وجود میں آتا، لیکن آپ نے یہ سب نہیں کیا۔ اس رات ہم لوگ جلسے کرکے، چوری کی الکٹریسیٹی سے مسجدوں کو سجا کر، کھانوںکا اہتمام کرکے، علما لمبی لمبی تقریریں، تفسیریں کرکے ، حمد و نعت کے مقابلے کرواکر لوگوں کو اتنا تھکا دیتے ہیں کہ پھراس کے بعد مزید کسی عبادت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آدمی سیدھے بستر کا رخ کرتا ہے یا پھر دوستوں کے ساتھ چائے خانے کا رخ کرتا ہے۔ اگر جلسے کرنا ہے، شبِ قدر کی اہمیت پیش کرنا ہی ہے تو ظہر یا عصر کے بعد بھی تویہ کئے جاسکتے ہیں۔ اس رات لوگوں کو جلسوں میں مشغول کروانا بالکل غلط ہے۔

اس رات اگر آپ کو جتنی سورتیں یاد ہیں ان کے معنے اچھی طرح سمجھ کر رات بھر پڑھتے رہیں تو یقین مانئے ایسے لگے گا جیسے آپ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کررہے ہیں۔ علامہ اقبال کے والد انہیں ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ بیٹا قرآن ایسے پڑھو جیسے یہ تم پر نازل ہوئی ہو۔ سمجھ کر پڑھنے سے یہ کیفیت برابر حاصل ہوتی ہے۔انشااللہ۔

اس رات کی اہم د عا جو رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہے وہ  ہے :

’’اللھم انک عفوا تحب العفوا فاعف عنا’’

یعنی ائے اللہ تو معاف فرمانے والا ہے۔ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس ہم کو معاف کردے۔ آمین

وآخر دعونا عن الحمد لللہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔