صبر

سیدہ تبسم منظور

   ان اللہ مع الصبرین( سورۃ البقرہ آیت نمبر 153)

ترجمہ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

صبر کے معنی ہیں کسی خوشی میں مصیبت میں  غم اور پریشانی کے وقت خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا ہے۔صبر ایک ایسا عظیم اور اعلیٰ فضیلت والا عمل ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے اپنے نبیوں انبیاء کرام  کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔صبر کی أہمیت اور عظمت دنیا اور آخرت کے فائدے کا اندازہ اس بات سے خوب اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے قُرآن پاک میں بہت دفعہ اور ہماری زندگیوں کے مختلف حالات میں صبر اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

    صبر اور برداشت ایسی نعمت ہے کہ جو نہ صرف بہت سارے مسائل سے نجات دلانے کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت ہم ایک اچھی اور بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ اللہ تعالی نے صابر و شاکر بندوں کو جنت کی بشارت دی ہے مگر افسوس صد افسوس ہم نے اپنی زندگیوں میں شاید صبر کا استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔اسی لئے شاید ہم بہت زیادہ مسائل، تکلیف، مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوچکے ہیں.صبر کا اور اس دنیا میں بسنے والے ہر بشر کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔دنیا  کے ہر عمل میں صبر کی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔

 ’’ صبر ‘‘ جس کے معنیٰ ہیں اپنے آپ کو روکنا، برداشت کرنا،ثابت قدم رہنا صبرکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیاکہ ’’اور رنج و تکلیف میں صبراور نماز سے مدد لیاکرو “(سورۃ البقرہ، آیت45 )صبر اور نماز ہر مومن کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار میں پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ا للہ تعالیٰ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہوتی ہے اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔

  قرآن پاک میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا کہ ’’ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت155)

خدا وند کریم نے صبر کرنے والو ں کو اہل تقویٰ کا امام بنایا ہے۔قرآن پاک میں ایک اور جگہ فرمایا گیا’’ اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے” (سورۃ السجدہ، آیت 24)صبر کے حوالہ سے ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ’’ مگر جو لوگ صابر ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘ (سورۃ ھود، آیت11) کسی  مصیبت کے وقت دل برداشتہ اور مایوس نہ ہوں بلکہ اسے صبر و استقلال سے برداشت کریں اور نہ ہی کسی خوشی کے موقعہ پر بے قابو ہوں بلکہ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں۔صبر کرنے والوں پر بڑی بڑی مصیبتیں بھی آسان ہو جاتیں ہیں اور بے صبری انسان کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی مشکلات میں ڈال دیتی ہے۔ صبر کرنے سے اپنے آپ میں وہ قوت پیدا ہوتی ہے جس کی بدولت آپ میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

   تقدیر  پر ایمان لانا ضروری ہے اور مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا کہ اسے اس بات کا علم نہ ہو جو تکلیف اس پر آنے والی ہے وہ اس پر سے ہٹ نہیں سکتی اور جوتکلیف اس کو نہیں پہنچنی وہ اسے کبھی پہنچ  نہیں سکتی ہر چیز پر اللہ تعالی قادر ہے۔ صبر ایمان میں اس طرح ہے جیسے کہ جسم میں جان ہو  صبر  کرنے والے لوگ اللہ تعالی سے بغیر حساب کے اجر حاصل کریں گے۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا "بات یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا ” ( سورۃ الزمر آیت نمبر 10)

” انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا۔ اور جب وہ اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا”  ( سورۃ الفجر آیت نمبر- (15/ 16)

  کسی نہ کسی طرح آزمائشیں ہوتی رہیں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء کرام پر آزمائشیں ائیں اور انبیاء کرام نے کن کن موقعوں پر ایثار صبر و استقلال سے کام لیا اور صابر و شاکر رہے۔

(سورۃالانبیاء آیت نمبر 83تا 84)اور(سورۃ ص آیت 41 تا 44) میں ‌حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر  کا مختصر حال بیان کیا گیا ہے۔

سورۃ الانبیاء

ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔(83)

تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو۔ (84)

تفسیر

 حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے قرآن میں پاک میں صابر کہا ہے۔حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی۔تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں  مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالٰی نے ان سے یہ ساری نعمتیں چھین لی،حتی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم ہوئے اور بیماریوں میں گِھر کر رہ گئے۔کہا جاتا ہے کہ18 سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی،

اور اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔(83/84)

سورۃ ص

"اور ہمارے بندے ایوب علیہ السلام کا بھی ذکر کر،جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے۔”(41)

"اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے۔”(42)

"اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا اور انکے ساتھ( گنتی میں )ان کے برابر اور بھی( دیئے)اپنی رحمت خاصہ کے سبب سےاور اہلِ عقل کے لئے یاد گار رہنے کے سبب سے "(43)

“اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا مٹھا(جھاڑو)لے کر مارو اور قسم نہ توڑو بے شک ہم نے انکو صابر پایا”(44)

تفسیر.

(41) حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور ان کا صبر مشہور ہے۔جس کے مطابق اللہ تعالی نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی، جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔حتی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح و شام ان کی خدمت کرتی اور کہیں کام کاج کر کے بقدر کفاف رزق کا انتظام بھی کرتی ۔یہاں پر متعدد تفسیری روایات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مگر اس میں کتنا صحیح اور کتنا نہیں اسے معلوم کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں۔نُصبِ سے جسمانی تکلیف اور عذاب سے مالی ابتلا مراد ہے۔

بعض روایتوں اور کتابوں میں یوں آیا ہے کہ شیطان نے کہا کہ ایوب علیہ السلام اس لیے عبادت کرتے اور شکر گزاری کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دولت سے نواز رکھا ہے۔ اگر ان کی آزمائش کی جائے تو وہ ناشکری کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش مختلف آفات سے کی۔ سب سے پہلے اُن کے جانور مر گئے، پھر بچے انتقال کر گئے۔ پھر بیماری نے آ لیا صرف زبان ہی محفوظ تھی۔ اس حال میں بھی اُن کو یہ فکر تھی کہ زبان کو کچھ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کریں گے۔

(42)اللہ تعالی حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمائیں اور ان سے کہا کہ زمین پر پیر مارو،جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا اس کے پینے سے اندورنی بیماری اور نہانے سے ظاہری بیماری دور ہوگئی ۔بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور ہلاک کر دیا تھا،اسے زندہ کردیا اور اس کے مثل اور مزید کنبہ عطا کر دیا۔لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہوتی۔صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی  نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے انہیں نوازہ جو پہلے سے دوگنا تھا۔

(43)یعنی ایوب علیہ السلام کو یہ سب کچھ ہم نے جو دوبارہ عطا کیا،تو اپنی رحمت خاص کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلا و شدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب علیہ السلام نے کیا۔

(44)بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کو کسی بات سے ناراض ہوکر حضرت ایوب علیہ السلام نے انہیں سو کوڑے مارنے کی قسم کھالی تھی،صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا،کہ سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائے گی۔

  حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا مختصر  قصہ قرآن پاک کی روشنی میں بیان کیا ہے۔

الله رب العزت ہم سب کو صبر،شکر اور برداشت جیسی عظیم نعمت عطا فرمائے!!! آمین

تبصرے بند ہیں۔