صحافت کا اعزاز: چار ہندوستانیوں میں سے تین مسلمان
ڈاکٹر سلیم خان
ملک کی جیلوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے تناسب پر بہت بحث ہوتی ہے لیکن کوئی اس پر گفتگو نہیں کرتا کہ عالمی ایوارڈ پانے والےہندوستانی صحافیوں میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے لیکن جرائم کا ریکارڈ رکھنے والےقومی ادارے این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق قصوروار قرار دیئے گئے مسلمانو ں کی تعداد 16.6 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 18.7 فیصد ہے۔ ملک میں فروغ پانے والے فرقہ پرستی کے ماحول نے انتظامیہ اور عدلیہ کو متاثر کیا اور وہ جس مقننہ کے تحت کام کرتے ہیں وہاں تو فسطائیت نے اپنی جڑین مضبوط کرلی ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا اپنی آبادی ڈھائی فیصد زیادہ لوگوں کا سزا یافتہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس میں بدعنوانی کا بھی اپنا کردار ہے۔ امیر کبیر لوگ اپنے مجرمین کو بڑے وکیل اور رشوت کے بل بوتے پر بچا لیتے ہیں جبکہ غریب کو یہ سہارے نہیں مل پاتے۔ جہاں زیر سماعت قیدیوں میں مسلمانوں آبادی سے زیادہ ہونے کا سوال ہے یہ سراسر انتظامیہ کے بھید بھاو کا نتیجہ ہے۔ اس کا مظاہرہ ہر فساد کے بعد ہوتا ہے کہ جن کا گھر لٹا، جو زخمی ہوئے اور مارے گئے انہیں کی گرفتاریاں بھی خوب ہوئیں۔ کھرگون سے لے کر جہانگیر پوری تک یہی کہانی ہے۔
اس تفریق و امتیاز کی ایک مثال ارنب گوسوامی کے لیے رات ۸؍بجے عدالت کا پیشگی ضمانت دینا اور امن چوپڑا کو اس سے نوازنا ہے جبکہ صدیق کپن ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں جمہوریت پھل پھول رہی ہے وہیں صحافت کی آزادی کا بیڑہ بھی بتدریج غرق ہوتا جارہا ہے۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق میڈیا کو دبانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں آزادیٔ صحافت کی 635 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں اورپچھلے ایک سال کے دوران کم از کم 49 صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔ آئی پی آئی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وطن عزیز میں آزادی ٔ صحافت کی سب سے زیادہ 84 خلاف ورزیاں درج کی گئیں اور جملہ چار صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑانیز آٹھ حراست میں ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار تک رسائی کے لیے جارج آرویل کی ایک مشہور کہاوت مدد کرتی ہے کہ ’اگر آپ کو سمجھنا ہو کہ دراصل کنڑول کس کے ہاتھ میں ہے تو ان قوتوں کی طرف دیکھو جن پر نہ تنقید ہوتی ہے اور نہ ہی کھل کر بات۔‘ ہندوستان کی صورتحال جارج آرویل کے افسانے کی منہ بولتی حقیقت ہے۔
آزادی ٔ صحافت کے موقع پر امسال شائع ہونے والی سن 2021 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان صحافیوں کے لیے بہت خطرناک ملک بن گیا ہے۔ پچھلے دنوں مدھیہ پردیش کے اندر کچھے کے اندر پولیس کی حراست میں صحافیوں کی بھیڑ اس کی غماز تھی۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جو صحافی اور صحافتی ادارے سرکار پر تنقید کرتے ہیں ان پر سوشل میڈیا میں ٹرولنگ کے ذریعے دباؤ بڑھایا جا تا ہے۔ اس پینل نے صدیق کپن اور کشور رام کا نام لے کر ان پر قائم مقدمات کا ذکر کیا۔ صحافی کپن کو یوپی میں ہاتھرس جاتے ہوئے ایک دلت دوشیزہ کی عصمت دری کی رپورٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دلت صحافی کشور رام کو عصمت دری کا شکاردلت خاندان کے ساتھ انٹرویو کے دوران ذات پات کا مسئلہ اٹھانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ اس سال پوری دنیا میں سب سے زیادہ 100 سے زائد مرتبہ انٹرنیٹ بند انٹرنیٹ بند کرنے سہرا ہندوستان کے سر ہے۔فی الحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سوڈان، ایران اور میانمار کی صف میں کھڑی ہے۔ حق کی آواز بلند کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ میڈیا کی آزادی ہی سماجی آزادی کی کسوٹی ہے۔
ہندوستان کے اندر صحافت کی اس دگر گوں صورتحال کے بیچ عالمی سطح پر معتبر ترین ایوارڈ کا اعلان ہوگیا۔ امسال ‘پلٹزر پرائزز2022 ‘ پانے والے میں ہندوستان کے چار فوٹوگرافر شامل ہیں اور ان میں سے تین مسلمان ہیں۔ اس اعلیٰ ترین ایوارڈ کا سلسلہ 1917 میں شروع ہوا تھا۔ جوزف پلٹزر نے کولمبیا یونیورسٹی میں جرنلزم اسکول شروع کرنے اور پلٹزر ایوارڈ کے لیے اپنی زندگی بھر کی کمائی مختص کر دی تھی۔ افغانستان میں پچھلے سال ہلاک ہونے والے ممتاز فوٹو گرافر دانش صدیقی کو پھر ایک بار پلٹزر پرائز 2022 سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امیت دیو کو اس اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ ان لوگوں کی ہندوستان میں کوویڈ سے ہونے والی اموات کی تصاویر پر یہ باوقار انعام ملا۔ یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ اس فہرست شامل ثناارشاد کا تعلق کشمیر سے ہے جہاں صحافت کو سب سے زیادہ کچلا گیا۔ پچھلے سال یعنی 2020 میں بھی تین کشمیری فوٹو جرنلسٹ ڈار یاسین، مختار خان، اور چنی آنند نے پلٹز انعام جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
دانش صدیقی کو جب پچھلے سال پس از مرگ ممبئی پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں سالانہ ‘ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم’ پیش کیا گیاتو ان کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا این۔ وی رمنا نے کہا تھا کہ "وہ جادوئی آنکھ والے انسان تھے اور عصرِ حاضر کے معروف فوٹو جرنلسٹ میں شمار کیے جاتے تھے‘‘۔ میدانِ جنگ میں دانش کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’جنگ کا احاطہ کرنے والے نامہ نگاروں کا کام خطرات سے بھرا ہوا ہے‘‘۔ اس ایوارڈ نے گودی میڈیا کے چاپلوس جوکروں کو آئینہ دکھا دیا۔ ان کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ مداری کے کھیل میں اچھل کود کرنے سے کچھ سکےّ تو مل جاتے ہیں لیکن عزت نہیں ملتی۔
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشنز میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے دانش صدیقی پر صحافت کی بلندیاں حاصل کرنے کا جنون تھا۔ رائٹرز نامی معروف خبررساں ادارے سے 2010 میں وابستہ ہوکر انہوں نےافغانستان اور عراق میدانِ جنگ میں پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ روہنگیا بحران ، ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہرے اور ہندوستان این آر سی کےعلاوہ کورونا وبا کے دوران بھی اپنے کیمرے کو ناقابل بیان لمحات کا گواہ بنایا تھا۔وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس کو میانمار کے روہنگیا مہاجر بحران کی دستاویز کرنے کے لئے 2018 میں فیچر فوٹو گرافی کے لئے پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کی بدولت روہنگیا مہاجرین کو میانمار سے فرار ہونے میں درپیش تشدد کے واقوات دنیا کے سامنے بے نقاب ہوئے۔ اسی لیے انہیں روہنگیا کا ہیرو بھی کہا جاتا تھا۔
ایک طرف دانش صدیقی ، عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امیت دیو جیسے جانباز صحافی ہندوستان کا نام روشن کررہے ہیں دوسری جانب نیوز 18کا امن چوپڑا ہے جسے راجستھان پولیس پکڑنے کے لیے نکلی تو وہ بزدل روپوش ہوگیا۔ امن کے دشمن اس متنازع متشدد مشتعل مزاج ٹی وی صحافی کو مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے پولیس تلاش کررہی تھی۔ امن چوپڑاپر الزام ہے کہ اس نے جھوٹی اور فرضی تفصیلات پیش کرکے راجستھان حکومت پر الور کے مندر گراکر جہانگیر پوری کا بدلہ لینے کا الزام لگایا۔ وہ اشوک گہلوت کو اورنگ زیب کہہ رہا تھا جبکہ مندر کو گرانے کا فیصلہ بی جے پی کی بلدیاتی کونسل نے سڑک چوڑی کرنے کے لیے کیا تھا۔ امن چوپڑا نے گرفتاری سے بچنے کے لیے راجستھان ہائی کورٹ سے اپنے خلاف دو ایف آئی آر میں راحت حاصل کی لیکن تیسری میں نہیں کرسکا اس لیے ڈنگر پور ضلع کی مقامی عدالت نےگرفتاری کے وارنٹ جاری کردیا اور ہندوتوا کا نام نہاد بزدل شیر چوہے کی مانند اپنے بل میں چھپ گیا اور پیشگی ضمانت ملنے کے بعد ہی باہر آیا۔
امن چوپڑا جیسے لوگوں کے سبب رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں، آزادی صحافت کے معاملے میں بھارت 142 ویں مقام سے 150 ویں نمبر پر آ گیا جو زمبا بوے سے بھی نیچے ہے۔ یہ درجہ بندی کل 180 ممالک کے لیے ہے۔”فری اسپیچ کلیکٹو” کے لیے تیار کردہ گیتا سیشو کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کے اندر سن2020میں 67صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور 200کے قریب کو جسمانی تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون (UAPA)کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جموں وکشمیرمیں صحافیوں کو قتل، اقدام قتل ، گرفتاریوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 1989سے اب تک متعدد صحافی قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں کام کرنے والے دیگر صحافی اپنی برادری پر ہونے والے مظالم کی مخالفت کیوں نہیں کرتے؟ (الاماشاء اللہ)۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق حکومت ہند ہرسال تیرہ ہزار کروڈ روپیوں کے اشتہار بانٹتی اور اس طرح اچھے اچھوں کو چبائے بغیر ترنوالہ بنا کر نگل لیا جاتا ہے لیکن ایسے میں صدیق کپن، کشور رام ، ثنا ارشاد، رویش کمار اور رعنا ایوب جیسے لوگوں نے صحافت کی لاج رکھی ہوئی ہے اس لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔