ڈاکٹر فیاض احمدعلیگ
آزاد ہندوستان میں جس وقت لڑکیوں کی اعلی تعلیم بالخصوص مخلوط تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور تما م تر ترقیوں کے باوجودگھر سے باہر کام کرنے یا نوکری کرنے کی عورتوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس پر آشوب دور میں طبیبہ ام الفضل نے نہ صرف اعلی تعلیم حاصل کی بلکہ تمام عمر گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ ہی ملازمت کی ذمہ داریاں بھی بحسن خوبی انجام دیں۔ بلا شبہ ایک صنف نازک کے لئے بیک وقت گھر داری سنبھالنا، بچوں کی پرورش کرنا، شوہر کی خدمت کرنا اور پھر گھر سے باہر نکل کر دن بھر ملازمت کرنا، انتہائی مشکل امرہے لیکن اگر گھر والوں کی حوصلہ افزائی اور شوہر کا تعاون حاصل ہو تو یہی کمزور عورت بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتی ہے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ عورتوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر عورت ٹھان لے تو وہ بیک وقت سعادت مند بیٹی، نیک بیوی، اور اچھی ماں ہونے کے ساتھ ہی گھر سے باہر، دنیا کے دیگرامور اورذ مہ داریاں بھی بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ بڑا مشہور محاورہ ہے کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ‘‘ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔ در حقیقت طبیبہ ام الفضل کی کامیابی کے پیچھے دو مردوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اول ان کے والد مولوی مرزا رضادار بیگ کا دوسرے ان کے شوہر حکیم محمدعبدالرزاق کا۔ یہ طبیبہ ام الفضل کی خوش قسمتی رہی کہ اپنے والد کے تعاون اور ان کی بھرپورحوصلہ افزائی کی وجہ سے ہی اعلی تعلیم حاصل کر سکیں اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکیم عبدالرزاق جیسے تیز طرار اور زمانہ شناس شوہر بھی ان کو مل گئے، جو ان کے لئے ’’گاڈ فادر‘‘ثابت ہوئے۔ ان کی رضامندی و ہمت افزائی کی وجہ سے انہوں نے شادی کے بعد مسلم یونیورسٹی، علی گڈھ سے بی یو ایم ایس کیا اور پھر ان کی وجہ سے ہی بحیثیت طبیبہ ہمدرد میں اور اس کے بعد طب یونانی کے مرکزی تحقیقاتی ادارہ سی سی آر یو ایم میں ریسرچ آفیسر کے منصب پر فائز ہوئیں اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ تک پہنچیں۔ کچھ عرصہ کے لئے کارگذار ڈائریکٹر بھی رہیں۔
طبیبہ ا م الفضل اپنے خاندان کی پہلی گریجویٹ خاتون اور آزاد ہندوستان میں پہلی خاتون طبیبہ تھیں جس نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے BUMS کی ڈگری حاصل کی اور آزاد ہندوستان میں فن طب کو بطور کیرئیر اورپیشہ اختیار کیا۔ طبیبہ ام الفضل بحیثیت طبیبہ دیگر خواتین کے لئے مشعل راہ بنیں اور لڑکیوں کے اندرطب یونانی کو بطور پیشہ اپنانے اور انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ چنانچہ اس کے بعدسے بے شمار خواتین نے طب یونانی کو بطور پیشہ اختیار کیا بلکہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کے طبیہ کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہو رہی ہے۔ طب یونانی کے مرکزی تحقیقاتی ادارہ (سی سی آر یو ایم) کے ساتھ ہی دیگر تحقیقاتی اداروں میں بھی بہت سی لڑکیاں بطور طبیبہ اور سائنسداں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
طبیبہ ام الفضل کی پیدائش ۱۳، اکتوبر، ۱۹۳۴ء میں ریاست حیدرآباد کے ایک شہر محبوب نگر میں ہوئی۔ طبیبہ ام الفضل اپنی سات بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھیں۔ طبیبہ ام الفضل اپنی بہنوں میں واحد فرد تھیں جس نے اسکول سے آگے یونیورسٹی تک اعلی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد مولوی مرزا رضادار بیگ جامعہ نظامیہ کے تعلیم یافتہ تھے اور نظام ریاست کے شعبہ تعلیم میں کلاس ون آفیسر تھے۔ اپنے والد کے مشورہ پر ہی طبیبہ ام الفضل نے گرلس ہائی اسکول، حسینی عالم سے میٹرک کرنے کے بعد، ۱۹۵۱ء میں گورنمنٹ نظامیہ طبیہ کالج، چار مینار، حیدرآباد میں داخلہ لے کر ۱۹۵۵ء میں طب یونانی کا چارسالہ ڈپلومہ کورس GUMC مکمل کیا۔ ۱۹۵۶ء میں طبیبہ ام الفضل کی شادی حکیم محمد عبدالرزاق سے ہوئی۔ شادی کے بعد، ۱۹۵۸ء میں اجمل خاں طبیہ کالج، مسلم یونیورسٹی، علی گڈھ سے بی یو ایم ایس کا نصاب مکمل کیا۔ (۱)اس لئے کہ اس وقت نظامیہ طبیہ کالج حیدرآباد میں چار سالہ نصاب ہی پڑھایا جاتا تھا اور وہاں کے بہت سے طلبہ علی گڈھ میں سال پنجم میں داخلہ لے کر بی یو ایم ایس کی سند حاصل کرتے تھے۔ (۲)، (۳) علی گڈھ میں طبیبہ ام الفضل کو حکیم محمد طیب صاحب سے خاص رشتہ تلمذ رہا ہے۔ اسی زمانہ میں حکیم طیب صاحب اور حکیم عبدالرزاق کے دوستانہ مراسم استوار ہوئے، جو دونوں کے درمیان تا حیات قائم رہے۔ (۲)، (۳) طبیبہ ام الفضل کوحکیم طیب (علی گڈھ) کے علاوہ اس وقت کے دیگر مشاہیر اطباء جیسے حکیم کبیرالدین(بہاری)، حکیم عبدالحمید(دہلی)، حکیم عبدالوہاب ظہوری وحکیم محمد شبلی (حیدرآباد)، حکیم شکیل احمد شمسی(لکھنئو) اور حکیم مظہر سبحان عثمانی وغیرہ سے بھی اکتساب فن کا موقع ملا۔
علی گڈھ سے بی یو ایم ایس کی تکمیل کے بعد۱۹۵۸ء میں طبیبہ ام الفضل کا طبیبہ ( لیڈی فیزیشین) کی حیثیت سے ہمدرد میں تقر ر ہو گیا اوروہ حکیم عبدالحمید کے مطب میں بحیثیت معاون طبیبہ کام کرنے لگیں۔ طبیبہ ام الفضل نے ہمدرد دواخانہ میں بحیثیت انچارج شعبہ نسواں ۱۹۵۹ء سے ۱۹۷۰ء تک کام کیا۔ اس زمانے میں بہت سی خواتین مریضوں نے ان سے استفادہ کیا اور بہت سی بے اولاد خواتین، ان کے علاج سے صاحب اولاد ہوئیں۔
حکیم عبدالرزاق اور طبیبہ ام الفضل کی ہمدرد میں مستقل ملازمت اورحیدرآباد سے ہجرت کر کے دہلی میں مستقل سکونت کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ان دونوں کو حیدرآباد میں بھی اچھی ملازمت مل سکتی تھی یا پھر وہ مطب بھی کر سکتے تھے لیکن کاتب تقدیر نے ان کی قسمت میں دلی کا آب و دانہ ہی لکھا تھا، اس لئے گھر والوں کی تمام کوشسوں کے باوجود، وہ حیدرآباد کے نہ ہو سکے اوردلی کی کشس انہیں دلی کھینچ لائی۔ وہ ہمیشہ کے لئے دلی کے ہی ہو کر رہ گئے۔ اس سلسلہ میں طبیبہ ام الفضل صاحبہ خودرقمطراز ہیں۔
’’ستمبر ۱۹۵۴ء میں حکیم عبدالرزاق کل وقتی طبیب تھے۔ دہلی میں حکیم عبدالرزاق کا حلقہ احباب
بڑھنے لگا تو والد صاحب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ دلی کے ہی نہ ہو جائیں لہذا انہوں نے ۱۹۵۶ء
میں حیدرآباد کے ایک معزز مولوی گھرانے میں طبیبہ ام الفضل کے ساتھ ان کی شادی کر دی جو
نظامیہ طبیہ لکالج سے ۱۹۵۵ء میں GUMC کی سند حاصل کر چکی تھیں ‘‘ (۴)
اس شادی کا مقصد یہ تھا کہ حکیم عبدالرزاق صاحب دلی چھوڑ کر مستقل حیدرآباد میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم رہیں، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بقول طبیبہ ام الفضل
’’ہمدرد کے متولی حکیم عبدالحمید صاحب نے جب یہ محسوس کیا عبدالرزاق صاحب شاید حیدرآباد چلے جائیں گے تو جنوری ۱۹۵۸ء میں ان کو ہمدرد کلینک کا میڈیکل سپرینٹینڈنٹ مقرر کر دیا اور ام الفضل کا بھی طبیبہ ( لیڈی فیزیشین)کی حیثیت سے ہمدرد میں تقر ر ہو گیا۔ اس طرح حکیم عبدالرزاق صاحب دہلی کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ‘‘ (۴)
۱۹۷۰ء میں طبیبہ ام الفضل نے وزارت صحت و خاندانی بہبود، گورنمنٹ آف انڈیا کے ادارہ، سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان انڈین میڈیسن اینڈ ہومیوپیتھی (CCRIM&H)سے وابستہ ہو گئیں اور اپنے شوہرو CCRUMکے پہلے ڈائریکٹرحکیم عبدالرزاق کے ساتھ مل کر بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ طب یونانی کے فروغ اور اس کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہوئے CCRUM کو ایک باوقار تحقیقاتی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کونسل میں طبیبہ ام الفضل پہلی خاتون طبیبہ تھیں جو ترقی کر کے ڈپٹی ڈائرکٹر کے عہدہ تک پہنچیں جبکہ ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۳ء میں وہ اس کونسل کی کارگذار ڈائریکٹر بھی رہیں اور ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ (۱)
طبیبہ ام الفضل نے اپنے شوہر حکیم عبدالرزاق کے ساتھ ایران اور کویت کی حکومت کی دعوت پر ان ممالک میں طب یونانی کی تحقیقات کے فروغ کے لئے بحیثیت ایڈوائزر بھی کام کیا۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء میں شاہ ایران کی سرکاری دعوت پر طبیبہ ام الفضل نے اپنے شوہر حکیم عبدالرزاق کے ساتھ ایران کا سفر کیا۔ طبیبہ ام الفضل اس وقت CCRIM&H کے تحت کلینکل ریسرچ یونٹ (یونانی) طبیہ کالج قرول باغ، دہلی میں ریسرچ آفیسر (یونانی) کی پوسٹ پر فائز تھیں۔ اس دورے کا مقصد ایران میں طب یونانی کے احیاء کے امکانات کا جائزہ لینا اور اس کے فروغ کے لئے وہاں کے حالات کے مطابق وہاں کی حکومت کو مناسب مشورے دینا تھا۔ یہ ڈیڑھ ماہ کا سفر تھا جس میں تہران، اصفہان، شیراز، ابدان، اہواز، مشہد، تبریزاور ہمدان شہروں کا دورہ بہت تفصیل سے کیا گیا۔ کئی اسپتالوں کا معائنہ کیا۔ کئی یونیورسٹیوں کے چانسلر صاحبان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ اصفہان اور تہران کے مختلف اداروں میں لیکچرس دینے کے لئے بھی مدعو کیا گیا۔ (۴) اس دورے کی رپورٹ Report on Alternative Medicine in Iran کے نام سے مرتب کیا۔ (۱)
۱۹۷۷ء میں وہ اپنے شوہر حکیم عبدالرزاق کے ہمراہ کویت کی وزارت صحت کی دعوت پر ایک ماہ کے لئے کویت بھی گئیں۔ وہاں کے اسپتالوں کا معائنہ کیااور اکثر ڈاکٹروں سے مباحثے ہوئے۔ کویت کے وزیر صحت عبدالرحمن العوضی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہاں طب یونانی (طب اسلامی) کے نام سے سینٹر کھولنا چاہئے۔ امیر کویت سے بھی ملاقات رہی اور تقریباً آدھا گھنٹہ بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ اخبارات اور میگزین میں انٹرویو چھپے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرام ہوئے تاکہ وہاں کی عوام کا ذہن بھی بنے۔ وہاں کے دورے کی ایک جامع رپورٹ پیش کی گئی جس کی سفارش پر وہاں طب اسلامی کے نام سے ایک ریسرچ سینٹر قائم ہوا، جس میں ادویات پر فارماکاگنوسی اور کلینکل کام شروع ہوا۔ (۴)کویت کے اس دورے کی رپورٹ Report on Arab Medicine and The State of Kuwait تیار کرنے میں اپنے شوہر حکیم عبدالرزاق کے ساتھ معاون مصنف کی حیثیت سے کام کیا۔ (۱)
مذکورہ اسفار کے علاوہ انہوں نے دیگر ممالک کے بھی سفر کئے۔ بقول حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی
’’بعینہ لیبیا، یو ایس اے، یو کے، سعودی عرب، یو اے ای، اور پاکستان کے اسفار بھی کئے۔ ‘‘(۱)
۱۹۹۳ء میں عالمی ادارہ صحت (WHO)نے روایتی طب (Traditional Medicine) کے میدان میں طبیبہ ام الفضل کو بحیثیت کنسلٹینٹ مامور کیا۔ (۵)
مذکورہ عہدوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ہی طبیبہ ام الفضل آل انڈیا طبی کانفرنس کی وائس پریسڈنٹ بھی رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں کی سلیکشن کمیٹی، نصابی کمیٹی اور یونانی فارماکوپیا کی ممبر اور مختلف جامعات اور کالجز میں ممتحن بھی رہ چکی ہیں۔ ۱۳ فروری، ۱۹۸۷ء میں منعقد ہونے والے طب یونانی کے پہلے انٹر نیشنل سیمینار کی آگنائزنگ کمیٹی کی ممبر بھی تھیں۔ اسی مذکورہ سیمینار کے سائنٹفک سیشن میں ان کو ’’سینئر پرائز فار کلینکل ریسرچ آن کثرت طمث ‘‘ کا ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔ (۱)
معالجاتی تحقیق(Clinical Research) طبیبہ ام الفضل کا خاص میدان رہا ہے، جس کے تحت متعدد امراض بالخصوص برص (Vitiligo)، کثرت طمث (Menorrhagia)، وجع المفاصل (Arthritis)، اور مزمن پیچش (Chronic Dysentry) وغیرہ پر تحقیقاتی کام کیا۔ انہوں نے بہت سے قومی و بین الاقوامی کانفرنس میں تحقیقی مقالے بھی پیش کئے۔ حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی کے بقول ’’ام الفضل، ۶ انٹر نیشنل اور ۱۰ نیشنل کانفرنسوں اور سیمینار وں میں فکر انگیز مقالات پیش کر چکی ہیں۔ آپ کے چند مقالات بھی شائع ہو چکے ہیں ‘‘۔ (۱)یہ مقالات کن موضوعات پر لکھے گئے ؟ کب اور کہاں شائع ہوئے ؟ ان کی تفصیلات مجھے نہیں مل سکیں۔ اس لئے ان پر کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں کوئی صاحب قلم ان پر بھی روشنی ڈال سکے۔
طبیبہ ام الفضل کی بیشتر ذمہ داریاں انتظامی امور سے متعلق تھیں یا پھر کلینکل۔ اس لئے وہ تمام عمر کوئی بھی تصنیفی و تالیفی کام نہ کر سکیں۔ ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ اپنے شوہر حکیم عبدالرزاق کے ساتھ کچھ رپورٹس اورچند کتابوں کی ترتیب میں شامل رہیں، جن میں دو اہم کتابیں حسب ذیل ہیں۔
۱۔ طب یونانی میں مانع حمل ادویہ اور تدابیر
اس کتاب کا اردو ایڈیشن پہلی بار۱۹۸۷ء میں قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو۔ نئی دہلی، سے شائع ہواجبکہ اس کا انگریزی ایڈیشن (Concept of Birth Control in Unani Medicine )سی سی آر یو ایم سے ۱۹۹۳ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے دیباچہ میں طبیبہ ام الفضل صاحبہ لکھتی ہیں کہ
’’ضبط تولید پر کتاب کی ترتیب کا مشورہ سب سے پہلے استاد محترم جناب حکیم عبدالوہاب ظہوری صاحب نے دیا تھا۔ میں جناب حکیم ظہوری صاحب کی ممنون ہوں کہ انہوں نے بڑی ہمت افزائی فرمائی۔ اور جناب حکیم عبدالرزاق صاحب (ڈائریکٹر مرکزی کونسل برائے تحقیقات طب یونانی) کی بھی شکر گذار ہوں کہ انہیں کے اصرار پر یہ کتاب تیار کی گئی۔ ساتھ حکیم سید صفی الدین علی صاحب (ریسرچ آفیسر) اور حکیم سید محمد قاسم صاحب (ریسرچ اسسٹنٹ) کی بھی ممنون ہوں کہ یہ بھی اس کی ترتیب میں شامل رہے۔ ‘‘ (۶)
۲۔ طب یونانی میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب
یہ کتاب در حقیقت طب یونانی کے مرکزی تحقیقاتی ادارہ کی اس اسکیم کا حصہ ہے، جس کا مقصدعوام الناس کے استفادہ کے لئے عام بیماریوں کے گھریلو علاج سے متعلق کتابچے تیار کرنا تھا۔ اسی مقصد کے پیش نظر اس کتاب میں ایسے امراض کا علا ج شامل کیا گیا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں عام طور سے واقع ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں وہ نباتی، حیوانی اور معدنی ادویہ شامل کی گئی ہیں جو ہر جگہ آسانی سے دستیاب، سستی اور موثر ہونے کے ساتھ ہی ان کے ضمنی اثرات (Side Effects) بھی کم سے کم یا نہیں کے برابر ہوتے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ کہ اس میں ہر مرض کے علاج کے لئے متعدد نسخے درج کئے گئے ہیں تاکہ مختلف علاقوں میں جو دوائیں بآسانی دستیاب ہوں، جن کا استعمال آسان ہو، لوگ اپنی سہولت کے لحاظ سے انہیں استعمال کر سکیں۔ اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن A Handbook of Common Remedies in Unani System of Medicine. کے نام سے سی سی آر یو ایم سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا جبکہ اس کا اردو ایڈیشن ’’طب یونانی میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب ‘‘قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو۔ نئی دہلی سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ اس کے دیباچہ میں طبیبہ ام الفضل صاحبہ لکھتی ہیں کہ
’’سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کی طرف سے عام بیماریوں کے معمولی علاج کے کتابچے تیار کرنے کی اسکیم کے تحت یہ کتاب اردو، انگریزی اور تمل زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ ‘‘ (۷)
میرے خیال سے سی سی آر یو ایم کی یہ واحدایسی کتاب ہے جو عوام الناس میں اس قدر مقبول ہوئی۔ اس کتاب کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو، انگریزی اور تمل زبانوں میں اشاعت کے علاوہ، ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ساتھ ہی عربی، فارسی اور روسی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے۔ بقول حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی
’’بعد میں اس کا ۱۱ ہندوستانی زبانوں کے علاوہ عربی فارسی اور روسی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ‘‘(۱)
طبیبہ ام الفضل سی سی آر یو ایم کے پہلے ڈائرکٹر حکیم عبدالرزاق کی شریک حیات تھیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی بدولت ہی ام الفضل نے بھی طبی دنیا میں ایک مقام حاصل کیااور حکیم عبدالرزاق کے شانہ بشانہ طب یونانی کے فروغ اور اس کی فلاح و بہبودکے لئے کام کیا۔ گھر سے لے کر آفس تک ہر جگہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ اس تعلق سے طبیبہ ام الفضل صاحبہ خود رقمطراز ہیں۔
’’مجھے بجا طور پر فخر ہے کہ میں ان کی شریک حیات بھی رہی اور شریک کار بھی۔ ‘‘ (۴)
طبیبہ ام الفضل نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد عبدالرزاق کی وفات کے بعد ان کی حیات و طبی خدمات کے اعتراف میں ایک کتاب ’’مجاہد طب۔ حکیم محمد عبدالرزاق ‘‘ کے عنوان سے، حکیم سید غلام مہدی رازؔ کے اشتراک سے ترتیب دی جو ۲۰۱۰ء میں حکیم محمد عبدالرزاق ریسرچ فائونڈیشن برائے یونانی میڈیسن، حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے اس وقت کے اہل قلم کے ساتھ ساتھ حکیم عبدالرزاق کے کے رفقاء کار و ان کے ہم عصروں سے بھی مضامین و تاثرات لکھوائے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں اخلاق الرحمن قدوائی صاحب رقمطراز ہیں۔
’’مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ ام الفضل نے اس کتاب کے ذریعہ ان کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ ‘‘ (۴)
اس کتاب کے نام کے تعلق سے طبیبہ ام الفضل صاحبہ یوں رقمطراز ہیں۔
’’اس کتاب کا نام ’’مجاہدطب۔ حکیم عبدالرزاق‘‘ اس بناء پر رکھا ہے کہ کئی حضرات نے اپنےمضامین میں اور اپنے تعزیتی خطوط میں حکیم صاحب کو جانباز مجاہدیا مجاہد و مفکر کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ ‘‘ اکتوبر ۱۹۹۲ء نعمت سائنس اکیڈمی (مدراس) نے بھی حکیم عبدالرزاق صاحب کو ’’مجاہدطب‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ ‘‘(۴)
کورونا کی وباء نے نہ جانے کتنے انسانوں کو موت کی نیند سلادیا۔ اسی کورونا وباء کی وجہ سے طبیبہ ام الفضل بھی اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔ حالانکہ کورونا سے تو وہ پوری طرح صحت یاب ہو چکی تھیں لیکن چندماہ بعد اس کے عوارضات کی وجہ سے ۲۱ اگست ۲۰۲۱ء کو دہلی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ہندوستان کے بیشتر اخباروں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ ہی ان کی طبی خدمات پر بھی خبریں شائع کیں۔ اس موقع پر آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سید احمد خاں نے بھی اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
’’مرحومہ کی رحلت سے طبی حلقہ میں جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ نا قابل تلافی معلوم ہوتا ہے۔ان کا شمار طب یونانی کی بزرگ اور رہنما شخصیات میں تھا۔ اب ان کے چلے جانے سے ایک سر پرست کے کھونے کا احساس ہو رہا ہے۔ (۲)(۳)
اسی تعزیتی پیغام میں انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ
’’مرحومہ کا یونانی کونسل سے جو دیرینہ تعلق رہا ہے اور اس ادارہ کے تئیں ان کی جو خدمات رہی ہیں، ان کے اعتراف کی ایک اچھی شکل یہ ہے کہ کونسل سے شائع ہونے والے ’جہان طب‘‘ کے ایک شمارے کوطبیبہ ام الفضل کے نام سے موسوم کیا جائے۔ یہ کونسل کی طرف سے ایک اچھا خراج عقیدت ہو گا۔ ‘‘ (۲) (۳)
خدا کرے !کونسل کے ارباب حل و عقد ڈاکٹر سید احمد صاحب کی اس تجویز پر طبیبہ ام الفضل کی طبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’جہان طب ‘‘کا کوئی شمارہ ان کے نام موسوم کرسکیں۔ تاکہ طب یونانی کے مرکزی تحقیقاتی ادارہ(CCRUM ) اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں اس کے ذ یلی اداروں کی تعمیر و ترقی میں ان کی انتھک کوششوں اور قربانیوں کے ساتھ ہی ان کی زندگی کے دیگر مخفی گوشے بھی منظر عام پر آ سکیں۔ مزید برآں، ان کی معالجاتی تحقیقات(Clinical Research) اور طب یونانی کے تئیں ان کی خدمات اور کارنامے بھی دنیا کے سامنے آ سکیں تاکہ طب یونانی کے شائقین، اطباء کرام اور آنے والی نسلیں نہ صرف ان کی تحقیقات اور ان کے طبی کارناموں سے واقف ہو سکیں بلکہ طب یونانی کے محققین و ماہرین ان کے ادھورے کاموں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
مصادر و مراجع
۱۔ طبی تذکرے۔ حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۲۰۱۹ء ۔ ص ۳۰۔ ۲۲۹
۲۔ سید احمد خاں۔ طبیبہ ام الفضل کی وفات پر آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کا اظہار تعزیت۔ انڈین آواز۔ ۲۲ اگست ۲۰۲۱ء
۳۔ سید احمد خاں۔ طبیبہ ام الفضل کی وفات پر آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کا اظہار تعزیت۔ روز نامہ، خبریں، دہلی۔ ۲۳ اگست ۲۰۲۱ء
۴۔ مجاہد طب۔ مرتبہ۔ طبیبہ ام الفضل و حکیم سید غلام مہدی راز۔ حکیم محمد عبدالرزاق ریسرچ فائونڈیشن برائے یونانی میڈیسن، حیدرآباد۔ ۲۰۱۰ء۔ ص، ۳، ۹، ۱۲، ۱۳، ۱۴
۵۔ نیشنل ہیرالڈ (انگریزی روزنامہ) ۳۰ اگست ۲۰۲۱ء
۶۔ طب یونانی میں مانع حمل ادویہ اور تدابیر۔ حکیم ام الفضل۔ ڈپٹی ڈائریکٹر، سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن نئی دہلی۔ مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو۔ نئی دہلی۔ ۱۹۸۷ء۔ ص ۱۰۔ ۱۱
۷۔ طب یونانی میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب۔ مقدمہ۔ ام الفضل۔ سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی۔ ۱۹۷۹ء۔ ص، ۷
تبصرے بند ہیں۔