نقاب میں بھی انقلاب دیکھا دنیا کی نگاہوں نے!

جاوید اختر بھارتی

عورتوں کے لئے پردہ تو تقریباً ہر مذہب میں ہے فرق اتنا ہے کہ کسی میں کم تو کسی میں زیادہ اور کسی مذہب میں مکمل پردے کا حکم بھی ہے، اہتمام بھی ہے اور طریقہ بھی ہے اسی لئے اس کا معیار بھی الگ الگ ہے لیکن مذہب اسلام نے عورتوں کے لئے جو پردے کا حکم دیا ہے تو اس پردے کو طبیعت کی روشنی میں نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں نافذ کیا ہے اس کی ایک خاص وجہ ہے بھی ہے کہ مذہب اسلام نے عورت کو اتنا بلند اور باوقار بنایا ہے کہ دوسرے کسی مذہب میں عورتوں کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا ہے،، عورت بیٹی کی شکل میں ہے تو اس کی بہترین تعلیم و تربیت اور شادی کرنے پر باپ کے لئے جنت کی ضمانت، عورت بیوی بن گئی تو اس کے منہ میں ایک لقمہ ڈالنے پر شوہر کے لئے نیکی، عورت ماں بن گئی تو اس کے قدموں تلے جنت،، ماں اپنے بیٹے کے لئے دل سے دعاکرے تو اس کی کامیابی کی ضمانت، حضرت ہاجرہ صفا و مروہ پر دوڑ لگادیں تو حج و عمرہ کرنے والی ہر عورت کے لئے دوڑ نہ لگانے کی چھوٹ یعنی ان کا دوڑنا ہر عورت کا دوڑنا،، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اتنا باوقار اور بااختیار بنادیا کہ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا پیر،ولی، امام، محدث، مناظر، مفکر،مقرر ہی کیوں نہ ہو اسے نکاح کرنے اور نکاح پڑھانے سے پہلے عورت سے اجازت لینی ہوگی،، کیونکہ عورت کی اجازت کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔

 غرضیکہ مذہب اسلام نے عورت کو بیش قیمتی خزانہ بنایا ہے تو اب ظاہر سی بات ہے کہ خزانے کی حفاظت ضروری ہے تاکہ کسی کی بری نظر نہ لگے اور ہر قیمتی چیز پردے میں رکھی جاتی ہے اس پر لحاف چڑھایا جاتا ہے اب احساس کرنا نہ کرنا ہمارے اوپر منحصر ہے مگر جزا اور سزا یہ اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ پورا پورا انصاف کرنے والا ہے۔

آجکل کرناٹک سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں، جمہوریت پر شرپسند عناصر دھبہ لگارہے ہیں، ملک کے تانے بانے کو بکھیر رہے ہیں، جے شری رام کا نعرہ لگاکر خواتین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور حجاب کو نشانہ بنارہے ہیں،، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نفرت کس سے ہے حجاب سے یا اسلام سے بظاہر تو یہی ثابت ہوتاہے کہ حجاب ایک بہانہ ہے اور مسلمان اصل نشانہ ہے سیکڑوں کی تعداد میں بھگوا پرچم لہراتے ہوئے غنڈے تنہا ایک خاتون کو گھیریں، بدزبانی کریں، خوفزدہ کریں اور جے شری رام کا نعرہ لگائیں آخر کیا مطلب اور کیا مقصد ہے،، آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں رام بھکتی یا دیش بھکتی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ تم جمہوریت کا جنازہ نکالنے پر تلے ہوئے ہو، تم رام کا نام بھی بدنام کررہے ہو، تم دستور ہند کی خلاف ورزی کررہے ہو،، اس لئے کہ دستور ہند کی روشنی میں سب کو اپنے اپنے مذہبی رسومات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے،، اور مذہبی نعرہ تو مذہب کی حقانیت اور صداقت کا اعلان کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے اور مذہبی بنیاد پر کوئی عظیم الشان کارنامہ انجام دیتا ہے تو لگایا جاتا ہے اب تم خود فیصلہ کرسکتے ہو کہ کسی کو مارتے وقت نعرہ لگاؤ اور سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر تنہا کسی لڑکی کو گھیر کر نعرہ لگاؤ تو اس سے مذہب کی شان بڑھتی ہے یا نفرت کا اظہار ہوتا ہے،، اور آج نتیجہ سامنے ہے،، حق جھکتا نہیں ہے، حق بکتا نہیں ہے جب تم نے ڈرانے کے لئے جے شری رام کا نعرہ لگایا تو حوا کی بیٹی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اس وقت ایک طرف بھگوا غنڈوں کی بھیڑ تھی تو دوسری طرف تنہا مسکان کے ساتھ غیبی مدد تھی کہ اس نے جو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو اس نعرے کو اللہ نے فلک شگاف نعرہ بنادیا اور تھوڑی ہی دیر میں پوری دنیا میں بنت حوا کے ذریعے لگائے گئے نعرے کی صدا گونجنے لگی اور جو چیز یکا یک پوری دنیا میں گونجنے لگے اور حمایت ملنے لگے تو یہ حق و صداقت کی پہچان ہے اور دلیل ہے ورنہ آج تو پوری پوری رات جلسے میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نعرے لگتے ہیں مگر صبح ہوتے ہی کوئی اثرات نظر نہیں آتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نعرہ خدا پرستی کی بنیاد پر نہیں لگتا ہے بلکہ کسی مخصوص شخصیت کو خوش کرنے کے لئے لگتا ہے اور مخصوص شخصیت کے استقبال کیلئے لگتا ہے چاہے وہ اس لائق و قابل رہے کہ نہ رہے،، مگر اس نقاب پوش طالبہ نے خدا پرستی کی بنیاد پر نعرہ لگایا، اللہ کی مدد طلب کرنے کے لئے نعرہ لگایا تو اللہ نے اس کی حفاظت بھی کی اور اس کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات کو پوری دنیا کو سنوا بھی دیا اسلام کی ایسی بہادر بیٹی کو سلام، اس کی جرأت و حوصلے کو سلام جس نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ شریعت کے فیصلے پر عملدرآمد کرو اور ثابت قدم رہو چاہے تمہیں حضرت سمیہ کی طرح ظلم و ستم ہی کیوں نہ سہنا پڑے، امام مالک و امام حنبل رحمہم اللہ کی طرح کوڑوں کی سزا ہی کیوں نہ کھانا پڑے،، اور یاد رکھیں عورتوں کے لئے پردے کا حکم شریعت نے دیا ہے۔

اسلام کی بہادر دوشیزہ مسکان کو آخر حجاب کس نے دیا یہ بات خود مسکان سے پوچھا جائے تو اس کا یہی جواب ہوگا کہ حجاب میرے باپ نے دیا اور حجاب اوڑھنے نقاب پہننے کا طریقہ میری ماں نے سکھایا،، اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حجاب کی مخالفت کرنا کس نے سکھایا، نقاب پوش خاتون کو ڈرانے اور دھمکانے کا طریقہ کس نے سکھایا، حجاب کی مخالفت کرنے کے لئے ہاتھوں میں بھگوا پرچم کس نے دیا اور کرناٹک کی اس یونیورسٹی میں ترنگا قومی پرچم اتارکر بھگوا پرچم لہرانے کا طریقہ کس نے سکھایا اور بھگوا پرچم کس نے دیا ؟ان سوالوں کا جواب کون دے گا۔

ملک کی خوبصورت تصویر کو بد صورت بنانے کے لئے جو لوگ فرقہ پرستی کا ننگا ناچ،، ناچ رہے ہیں تو ان کی پشت پناہی کون کررہا ہے آخر ایسے غنڈوں کے خلاف کارروائی کب ہوگی، ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے والے کب گرفت میں آئیں گے کیا انہیں ایسی ہی چھوٹ دی جاتی رہے گی کہ یہ نفرت کی چنگاری سلگاتے رہیں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب سلگ جائے اور امن و امان کا گہوارہ،، بغض و عداوت میں بدل جائے ملک کے ہر امن پسند انسان کا حکومت سے یہی سوال ہے ۔

یقیناً فرقہ پرست بھیڑوں کے بیچ میں اسلام کی بہادر بیٹی نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ بھروسہ اللہ پر کرو کیونکہ اللہ کی طرف سے جو نظام بنایا گیا ہے تو اس پر عمل کرنے سے دنیاوی کوئی مشکل بھی آئے گی تو اس دوران بھی کامیابی اور حفاظت کا دروازہ اللہ کی طرف سے ہی کھلے گا اور یہ منظر دیکھا بھی گیا،، خود مسکان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی ڈر محسوس ہوتا ہے تو میں اللہ اکبر کہتی ہوں اور میرے اندر ہمت و جرأت آجاتی ہے۔

حجابی دختر مسکان کی تعریف تو ہورہی ہے یقیناً اس نے قابل تعریف کام بھی کیا ہے مگر اس کے اس کام کا انعام کیا ہے اور اس کا پیغام کیا ہے اس پر بھی غور کرنا ہوگا اس حوصلہ مند مسکان کا یہی پیغام ہے کہ پردہ عورت کا اور اس کے حسن کا وقار ہے، پردہ عورت کا زیور ہے، پردہ عورت کا تحفظ ہے، پردہ عورت کی شان ہے اور خواتین اسلام کو گلاب کا پھول بننے کے بجائے موتی بننے کا شوق اور جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کیونکہ گلاب کے پھول کو لوگ سونگھتے بھی ہیں اور دوسرے ہاتھوں میں دیتے بھی ہیں اور مسل کر پھینک بھی دیتے ہیں مگر موتی کی تلاش میں لوگ سمندر کی تہوں میں بھی جاتے ہیں اور موتی جسے ملتا ہے وہ چھپاتا ہے صاف کپڑوں میں رکھتا ہے اس کی قدر و عزت کرتا ہے۔

اب آئیے مسکان کی ہمت و شجاعت کا اصل انعام کیا ہونا چاہئے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو اسے پانچ لاکھ روپے کی رقم دی گئی ہے اس کی مخالفت نہیں مگر اس سے کہیں زیادہ بہتر اور مناسب ہوتا کہ یونیورسٹی کے قیام و تعمیر کا اعلان کیا گیا ہوتا ایک کالج کی طالبہ مسکان نے جو عظیم الشان تاریخ رقم کی تو اس کا صلہ ایسا ہونا چاہئے کہ قد، حوصلہ، سوچ و جذبہ اور نظریہ بلند ترین ہو ۔،، کیا مسلمانوں میں صاحب ثروت نہیں ہیں،، ہیں بالکل ہیں مگر انہیں صاحب ثروت کے ساتھ ساتھ صاحب سخاوت بننے کی ضرورت ہے،، اب تک تو جمعیۃ علماء ہند، مسلم پرسنل لا بورڈ، آل انڈیا ملی کونسل، علماء مشائخ بورڈ، بڑی بڑی خانقاہیں، ملی تنظیمیں اور اس کے علاوہ مسلم ممبران پارلیمنٹ و مسلم ممبران اسمبلی یعنی ان تمام شعبوں، اداروں اور افراد کی جانب سے بلکہ چہار جانب سے یونیورسٹیوں کے قیام و تعمیر کا ایسے اعلان ہونا چاہیے تھا کہ حجاب کے دشمنوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں کہیں مسکان یونیورسٹی کی تعمیر کا اعلان ہوتا تو کہیں حجابی یونیورسٹی کی تعمیر کا اعلان ہوتا اس کے لئے مذکورہ ادارے و تنظیمیں متحرک ہوگئی ہوتیں یا اب سے ہو جائیں تو فرقہ پرست غنڈوں کے جھرمٹ میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے والی بہادر بیٹی مسکان کے لئے یہی بیش قیمتی انعام ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔