طلاق زحمت نہیں رحمت ہے! (قسط سوم)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

  کچھ نام نہاد دانشوروں اور اسلام دشمن عناصر کے ذریعہ یہ پروپگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ عورتوں کو طلاق کے معاملہ میں اسلام میں مساوی حق نہیں دیا گیاجو کہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ اسلام نے کسی عورت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ زندگی بھر کسی مرد کے ظلم کو برداشت کرتی رہے یا اگر کسی کے ساتھ زندگی گزارنا اسے بالکل ہی ناپسند ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ وہ خاوند کے حقوق کے سلسلہ میں اللہ کے احکام کی رعایت نہیں کر پائے گی پھر بھی وہ اس کی زوجیت میں رہنے پر مجبور ہو۔ان صورتوں میں اسے یہ حق حاصل ہے کہ جو مال اس کے شوہر نے اس نکاح پر (مہر کے طور پر) خرچ کیا ہے اس کا بدلہ دے کر اس سے آزادی یا طلاق کا مطالبہ کرے، شریعت کی اصطلاح میں اس کو خلع کہتے ہیں ۔ اگر شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو وہ حاکم شرعی کی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے،پھر عدالت اس مرد کو بیوی کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ پھر بھی نہ مانے گا تو عدالت ہی نکاح کو فسخ کردے گی۔گویا خلع طلاق کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ نکاح بھی۔ خلع کی مشروعیت یعنی اس کا جواز کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے اور سنت نبوی سے بھی۔قرآن میں اس کاحکم اسی آیت میں ہے جس میں رجعی طلا ق کی تحدید کی گئی ہے یعنی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229۔الفاظ یہ ہیں : (فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ ط) ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناہ نہیں “۔(البقرۃ:229)۔

سنت سے اس کا ثبوت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ”ثابت بن قیسؓ کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ثابت بن قیسؓ کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے البتہ میں اسلام میں کفر (ناشکری) کو پسند نہیں کرتی (کیوں کہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کرسکتی)۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا، کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں ۔رسول اللہ ﷺ نے (ثابتؓ سے) فرمایاکہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو“۔ (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب الخُلعِ و کیف  الطلاق فیہ)۔اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عورت کو طلاق کا آزادانہ اختیار نہیں دیا گیاجس کی وجہ ایک تو مرد کی قوامیت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عورت مرد کی بنسبت وقتی تاثرات سے جلد مغلوب ہوجاتی ہے اس لئے اس میں ایک طرح کی حفاظت بھی ہے کہ کہیں وقتی تاثرات رشتوں کے انقطاع کا سبب نہ بن جائیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی شریعت بالکل ہی عدل و انصاف اور حکمت پر مبنی ہے گو کسی حکم کی حکمت ہمیں سمجھ میں نہ آئے۔قرآن اعلان کر رہا ہے:(وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً)”اور آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے“۔ (انعام:115)۔ یہی نہیں قرآن یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ اللہ رب العزت نے کل کائنات کی تخلیق عدل و حکمت ہی کی بنیاد پر کی ہے (خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ) ”اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا“۔ (التغابن:2)۔اس نے اپنے بندوں کے لئے بھی عدل و انصاف کو ہی پسند کیا ہے (وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ)”اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو“۔  (النسآء:58)۔،بلکہ اس نے تو اسلامی معاشرہ کی تشکیل عدل و احسان کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا ہے: (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ) ”بیشک تمہیں اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے“۔(النحل:90)۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے اپنے بندوں کو عدل و احسان کا حکم دیا ہو وہ خود ایسے احکام صادر کرے جو عدل و انصاف اور حکمت پر مبنی نہ ہوں اور جس میں بندوں پر آسانی کو ملحوظ نہ رکھاگیا ہو؟ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔جو لوگ اپنے ایمان و ضمیر کا سودہ کرچکے ہیں اور وہ حکومت یا عدلیہ سے طلاق سے متعلق معاملہ میں مداخلت اور متعلقہ قوانین میں اصلاح کرنے کی درخواست کررہے ہیں ان کے بارے میں راقم کو کچھ نہیں کہنا لیکن جو لوگ مخلص ہیں ان کییہ بات سمجھنے سے راقم قاصر ہے کہ آیا وہ اس مسئلہ کی حساسیت سے واقف بھی ہیں یا یہ فقط ان کی سادہ لوحی ہے؟

 جاننا چاہیے کہ شریعت کے اندر حکم جاری کرنے کا حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا،صرف اپنے پاس رکھا ہے۔قرآن کی کئی آیتیں اس پر شاہد ہیں ۔مثلاً: (إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّٰہِ) ”حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا“۔(یوسف:47)۔ایک جگہ ارشاد ہے:(وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہِ أَحَداً) ترجمہ: ”اور وہ (اللہ تعالیٰ) اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا“۔(سورۃ الکہف:26)۔اور ایک جگہ یوں فرمایا: (اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْر) ”یاد رکھو کہ اُسی (اللہ) کے لئے خاص ہے پیدا کرنا اور حکم دینا“۔(الأعراف:54)۔ شیخ عاشق الٰہی مدنیؒ اس آیت کی تفسیر صاحب روح المعانی کے حوالہ سے یوں لکھتے ہیں : ”مطلب یہ ہے کہ اسی کی مخلوقات ہے کہ اسی نے انہیں پیدا کیا ہے اور اسی کو اپنے ارادہ کے مطابق انہیں حکم کرنے کا اختیار ہے۔خالق ہونا اور حاکم ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے، اس کے علاوہ کوئی نہ ادنیٰ چیز کو پیدا کرسکتا ہے اور نہ تکوینی اور تشریعی طور پراس کے علاوہ کسی کو حکم دینے کا اختیار ہے“۔(تفسیرانوار البیان فی کشف اسرار القرآن،ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1424، جلد 3، صفحہ 355)۔

شیخ ابونعمان سیف اللہ خالد،صاحب تفسیر دعوت القرآن اس آیت کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں : ”یعنی جس طرح خلق (پیدا کرنے میں) اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح حکم بھی اسی کاہے، کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ۔خواہ تکوینی حکم ہو جو ساری کائنات میں چلتا ہے، یا تشریعی یعنی شریعت کا (قانون) جو اس نے اپنے بندوں کو ایک حد تک اختیار دے کر دیا ہے اور جس پر عمل کے مطابق جنت یا جہنم کی جزا یا سزا ملے گی۔“ (تفسیر دعوۃ القرآن، مطبوعہ دارالاندلس،لاہور، 1431،جلد 2، حصہ 1، صفحہ321)۔سید قطب شہیدؒ اس آیت کی تفسیر یوں کرتے ہیں : ”۔۔۔وہی خالق ہے، وہی حاکم ہے۔جس طرح اس کے ساتھ خلق میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کے ساتھ سیاسی حاکمیت میں کوئی شریک نہیں ۔یہی وہ اصل مسئلہ ہے جو اس سبق کی روح ہے۔الوہیت، ربوبیت، سیاسی حاکمیت، اور اقتدار اعلیٰ میں اللہ کو وحدہٗ لاشریک سمجھنا وغیرہ۔ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں اللہ کی شریعت کاپابند ہو اور اس پوری سورۃ کا اصل موضوع یہی ہے۔۔۔“۔ (فی ظلال القرآن اردو ترجمہ ازسید معروف شاہ شیرازی، ادارہ منشورات اسلامی، لاہور، جلد2، صفحہ 1222)۔

 ان تفاسیر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ شریعت کے اندر احکام جاری کرنے کا حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا حتیٰ کہ رسولوں کو بھی نہیں ۔رسول صرف اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ جو احکام اللہ کی طرف سے جاری ہوں انہیں وہ بلا کم و کاست اس کے بندوں تک پہنچادیں ۔اپنی طرف سے انہیں بھی کوئی حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ۔ نبی کریم اللہ ﷺ  کے سلسلہ میں قرآن نے یوں گواہی دی ہے: (وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی٭ إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی٭)”اور وہ نہیں کہتے کوئی بات اپنی خواہش نفسانی سے۔ یہ تو حکم الٰہی ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے“۔(سورۃ النجم:3-4)۔اور ایک جگہ تو اس کے امکان کو بھی رد کردیا گیا ہے کہ رسولؐ اپنی طرف سے کوئی بات کریں ۔(وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ٭ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ٭ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ٭ فَمَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ ٭)۔ ”اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ان کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی (ہمیں ) اس سے روکنے والا نہ ہوتا“۔ (الحاقۃ:44-47)۔مفتی شفیع صاحبؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :”اس آیت میں بطور فرض محال کہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ رسول کوئی قول بھی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کران کی رگ جان کاٹ ڈالتے اور پھر ہماری سزا سے ان کو کوئی بھی نہ بچا سکتا۔یہاں یہ شدت کے الفاظ ان جاہلوں (مشرکین عرب) کو سنانے کے لئے فرض محال کے طور پرا ستعمال فرمائے ہیں “۔(معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، 2008، جلد 8، صفحہ 548)۔

غور کیجئے! جب رسول ؐ کو یہ حق حاصل نہیں کہ رضائے الٰہی کے بغیر اپنی جانب سے کوئی حکم چلا سکیں تو کسی اور کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوجائے گا؟علماء اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی تشریح و ترجمانی تو کرسکتے ہیں لیکن جس چیز کو اللہ نے جائز رکھا ہے اسے ناجائزنہیں ٹھہرا سکتے اور نہ ہی وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے سکتے ہیں ۔اگر وہ ایسا کریں یہ تو ان کا ظلم ہوگا اور ان کے اس فتویٰ کو ماننا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہوگا۔یہی کام بنی اسرائیل کے علماء نے کیا تھا اور بنی اسرائیلیوں نے اسے تسلیم کرلیا تو اللہ رب العزت نے قرآن میں انہیں اپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنالینے کامجرم ٹھہرایا۔(اِتَّخَذُواْ أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِیَعْبُدُواْ إِلٰہاًوَاحِداً لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ) ترجمہ:”انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اُسکے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے“۔ (التوبۃ:31)۔

یہ آیت جب عدی بن حاتمؓ (جو مسیحیت سے اسلام کی طرف آئے تھے) نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تو انہوں نے عرض کیاکہ ہم تو علماء و مشائخ کی عبادت نہیں کرتے تھے؟ تو آپؐ نے فرمایا کیا ایسی بات نہ تھی کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو جب علماء و مشائخ حرام قرار دیتے تھے تو تم اس کو حرام سمجھتے تھے اور اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کو جب وہ حلال قرار دیتے تھے توتم اس کو حلال سمجھ لیتے تھے۔انہوں نے عرض کیا ایسا تو ضرور ہوتا تھا۔تو آپؐ نے فرمایا یہی ان کی عبادت تھی۔(مفہوم روایت عدی بن حاتمؓ،سنن ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، باب من سورۃ التّوبۃ؛ نیز سنن الکبریٰ بیہقی،کتاب أدب القاضی، باب ما یقضی بہ القاضی و یفتی بہ المفتی فانّہ غیر جائزٍلہ أن یقلّد أحدًا من اھل دھرہ ولا أن یحکم أو یفتی بالاستحسان)۔مذکورہ آیت و روایت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں کسی اور کے صادر کردہ جائز و ناجائز کے فرمان کو تسلیم کرلینا گویا اس کی عبادت کرنا اور اس کو اپنا رب مان لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء جس کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہے میں کسی قسم کی مداخلت کی کوشش کی ہمارے علماء سختی کے ساتھ مخالفت کرتے رہے ہیں ۔ہم کسی لیڈر، کسی جج یا کسی ادارہ کو وہ مقام نہیں دے سکتے جسے اللہ نے اپنے لئے مخصوص کیا ہے۔ جس نے اس بنیادی نکتہ کو نہیں سمجھا اس کی وحدانیت کی سمجھ ہی ناقص ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اپنے نزاعات کے حل کے لئے اللہ اور اس کے رسولؐ سے رجوع کرو۔ارشاد ہے: (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً)  ترجمہ:  ”مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب ِ حکومت ہیں اُن کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اُس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کاانجام بھی اچھا ہے“ ۔ (النسآء:59)۔اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب قرآن و سنت سے رجوع کرنا ہے یعنی اپنے نزاعات کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کرنا ہے۔

پھر قرآن نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اللہ اور رسول ؐکے فیصلہ کے بعد ایک مومن کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ اس معاملہ میں اب اپنا کوئی بھی اختیار نہ سمجھیں بلکہ اسے دل و جان سے تسلیم کرلیں ۔(وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِھِمْ وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً) ”اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی اَمر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہو گیا۔(الأحزاب:34)۔ اور ایک جگہ قرآن نے یہ کہا کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے فیصلہ سے دل تنگ ہو وہ مومن کہلانے کا ہی مستحق نہیں ۔ (فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما) ترجمہ: ”تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔“ (النسآء:۶۵)۔نیزرسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ“  یعنی ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات نفس میری لائی ہوئی ہدایات کے تابع نہ ہوجائے“۔(مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،بروایت عبد اللہؓ بن عمروبن العاصؓ بحوالہ شرح السنۃ للبغوی)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔