طلال و بلال کا بکرا، راہ خدا میں قربان ہوگیا
عائشہ صدیقی
اسد!بابا جانی نے وعدہ کیا تھا کہ آج وہ ہمارے لئے بکرا لے کر آئیں گے۔ پھر میں بھیا اور آپ چرانے لے کر جایا کریں گے۔بہت مزہ آئے گا۔”بلال نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں ہاں !ہم بھی کچھ دنوں میں لے آئیں گے پھر تو ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ ” بلال کے چچا زاد بھائی اسد نے بھی اس کی طرح خیالی پلائو میں چمچہ چلاتے ہوئے کہا۔
"بابا جی!آپ کہاں جا رہے ہیں؟ "شام میں طلال نے بابا جانی کو تیار ہوتے دیکھ کر انجان بن کر پوچھا۔
"بیٹا جی!آج منڈی لگی ہے۔ آپ کے لئے بکرا لینے جا رہا ہوں۔”
” بابا جانی میں اور بھیا بھی چلیں پلیز۔”
طلال نے التجایا نظروں سے بابا جانی کی طرف دیکھا ۔ "بیٹا!!وہاں کافی رش ہوتا ہے۔ اور بڑے بڑے جانور بھی ہوتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہیں نقصان نا پہنچا دیں آپ کو۔۔۔۔!
"نہیں بابا جانی آپ کو خواہ مخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیںہے، اب ہم بڑے ہوچکے ہیں اور ویسے بھی بابا جانی یہ عید تو سال میں ایک مرتبہ ہی آتی ہے تو ہمیں لے چلیں ناں پلیز۔”
بلال نے معصومانہ لہجے میں درخواست کی۔
"اچھا میرے پیارے بچو۔۔۔۔جلدی سے تیار ہو جائو پھر، ہم نماز کے فوری بعد منڈی جانے کے لیے نکلتے ہیں۔”بابا جانی نے پیار سے اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا بابا جانی۔ دونوں نے خوشی سے یک زبان ہوکر کہا تو بابا بھی مسکرا دیے۔
بھیا یہ دیکھو یہ بکرا کتنا موٹا تازہ ہے اور وہ والا دیکھو کیسے مہندی لگائی ہے اس بچارے کو۔۔۔!
طلال نے لطف اندوذ ہوتے ایک اور بکرے کی طرف اشارہ کیا۔
"کتنے پیارے پیارے ہیں ناں بھیا دل کرتا ہے سب اٹھا کر لے جائوں۔۔ "
"ہاں صحیح کہہ رہے ہو طلال۔۔۔ارے یے یے یے باپ رییے۔۔۔۔۔ وہ دیکھو ایسے سجایا ہے جیسے دولہا ہو۔” بلال نے بالکل طلال کا انداز اپنایا تو بابا جانی بھی ان کے ہنس پڑے۔
"ارے بچو!ادھر آئو ہم یہ والا بکرا لینے لگے ہیں کیسا ہے؟” بابا جانی نے ایک صحت مند بکرے کی کمر سہلاتے ہوئے دونوں کی رائے طلب کی۔
"بھئی واہ۔۔۔۔ ماشااللہ ۔۔۔۔بابا جانی بہت پیارا ہے ،کیا بات ہے۔۔۔اور پر اس کو کیسے لیکر جائیں گے؟”طلال نے معصومیت سے معصومانہ سوال کیا
"ہاں بھئی یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ چلو اب ایسا کرتے ہیں بکرے کو طلال کی سیٹ پر بیٹھا دیں گے۔۔۔۔ ” بابا جانی نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
"نہیں نہیں میری جگہ کوئی نہیں بیٹھے گا۔” طلال گھبرا کر تیزی سے گاڑی کی جانب دوڑ پڑا بلال اور بابا طلال کی اس حرکت پر ہنس پڑے۔
"بھیا۔۔۔۔۔۔ بھیا۔۔۔۔۔۔ اٹھو نا، دیکھو شام ہوگئی ہے۔ بیچارا بکرا بھی اس انتظار میں ہے کہ مجھے باہر گھومانے پھرانے لیکر جائو۔ وہ دیکھو بار بار یہی کہہ رہا ہے۔ کہیں ناراض نا ہوجائے ہم سے۔ "طلال نے اپنے بھائی کو جھنجھوڑا۔اب اٹھیں اور چلیں جلدی۔”
"اچھا بابا منہ ہاتھ تو دھونے دو، پھر چلتے ہیں۔”
بلال نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر بعد دونوں بھائی اپنے بکرے کے ساتھ اسد کے گھر پہنچ چکے تھے۔
"اسد۔۔۔یہ دیکھو ہمارا بکرا۔۔۔۔ کیسا ہے ؟طلال نے بکرے کی کمر سہلاتے ہوئے پوچھا۔
"وا ہ کتنا پیارا ہے، بڑا تگڑا بکرا ہے بھئی۔”اسد نے سراہتے ہوئے کہا۔
” ماشااللہ تو کہہ دو کہیں نظر نا لگ جائے ہمارے پیارے بکرے کو۔”بلال نے پیار سے دونوں کانوں پر ہاتھی پھیرتے ہوئے کہا۔
"چلو اب اسے سامنے گھاس پر چرانے لے چلتے ہیں۔” طلال رسی پکڑ کر آگے چل پڑا تھا۔
اب یہ ان کا روز کا معمول بن چکا تھا، وہ اسے شام کے وقت باہر چرانے کے لیے لے جاتے، پانی پلاتے، لاڈ پیار کرتے، رات کو دیر تک اس کے ساتھ کھیلتے رہتے۔۔۔۔
ان کو اپنے لاڈلے کے ساتھ بہت انسیت ہوگئی تھی۔پتا ہی نا چلا اور عید الاضحی کا دن آپہنچا۔
دونوں بھائی نہا دھو کر تیار ہوئے اور بابا جانی کے ساتھ عید گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔
جب وہ پہنچے تو امام صاحب کا بیان جاری تھا۔
"تو میرے بھائیو!عید سب مسلمانوں کے لئے خوشی کا موقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایک بات یاد رکھیں، اپنی خوشی میں غرباء، مساکین، اور تمام دوسرے احباب کو برابر کا شریک رکھنا چاہیے۔۔۔ہم سب مسلمان اللہ کی رضا کے لیے اس کے حضور اپنے جانور قربان کرتے ہیں، اور اس قربانی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لیے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے۔۔۔۔کوشش کریں کوئی بھی غریب یا آپ کا ہمسایہ عید پر بھی گوشت سے محروم نا رہ جائے۔۔۔۔ پھر دیکھنا جب غریب پیٹ بھر کر کھائے گا تو آپ کو بھی عید کی حقیقی خوشی نصیب ہو گی۔۔۔۔۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔۔۔۔۔۔”
عید کی نماز سے فارغ ہو کر باپ،بیٹا تینوں سیدھا گھر آئے سب سے عید ملے۔ اتنے میں بیل بجی۔
” ٹھہرو !میں دیکھتا ہوں.” بابا جانی دروازے کی طرف لپکے۔
یہ قصائی تھا جو ان کی قربانی کرنے آیا تھا۔
امی نے بھی بکرے پر ہاتھ پھیرا اور دونوں بھائی اپنے ابو کے ساتھ بکرا لے کر قربان گاہ کی طرف چل دیے۔۔۔۔
بابا نے قصائی کے ساتھ مل کر بکرے کو زمین پر لٹایا،چھری اٹھائی۔ تکبیر کی صدا بلند ہوئی اور بکرے کے گردن پر چھری چلا دی۔ ابھی چھری نیچے رکھی ہی تھی کہ پیچھے سے سسکیوں کی آواز ابھری۔
"یہ کیا ۔۔۔۔۔؟ بچو آپ کو کیا ہوا…. "بابا نے حیران ہوکر پوچھا۔
"بابا جی ہمارا بکرا….”!!!طلال نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور بابا کے ساتھ چمٹ گیا۔
"ارے میرے پیارے بیٹو!اس کو تو اسی دن کے لئے لیاتھا۔اب تو اس نے جانا ہی تھا۔اور مولوی صاحب مسجد میں بھی قربانی کا مقصد ہمیں بتارہے تھے اور میں نے بھی کل رات آپ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ سنایا تھا۔آپ کو تو خوش ہونا چاہے کہ آج ہم نے سنت ابراھیمی کی پیروی کی۔اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہماری اس قربانی کو قبول فرمائے۔۔۔چلو جلدی سے آنسو صاف کرو شاباش۔آج شام کہیں جانا بھی ہے۔” "کہاں بابا جانی؟” طلال ایک دم خوش ہوکر بولا۔
"یہ ایک سرپرائز ہے شام کو ہی پتا چلے گا۔” بابا جانی نے معنی خیز انداز میں کہا۔
گوشت گھر آچکا تھا، ماما نے اسے تین برابر حصوں میں تقسیم کیا،
ایک حصہ میں غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے پیکٹ بنائے گئے، دوسرا رشتہ داروں میں تقسیم کیا۔۔۔۔۔اس نیک کام میں بلال اور طلال نے بابا جانی کا بھر پور ساتھ دیا۔
اس دوران ماما نے کلیجی، بریانی، دھواں گوشت اور مزیدار کھانے پکائے۔
گوشت کی تقسیم کے بعد سب لوگ فارغ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔بلال اور طلال کے دو دوست بھی ان کے گھر آئے تھے۔۔پھر سب نے مل کر کھانا کھایا۔۔۔
سب کے چہروں پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔۔یقینا ان کا دل کہہ رہا تھا کہ ہمارا قربانی کا مقصد پورا ہوچکا ہے۔۔اور بیشک یہی حقیقی خوشی ہے۔۔۔اور ابھی شام کے وقت انھوں نے پارک میں گھومنے بھی جانا تھا۔۔جو بابا جانی کی طرف سے بچو ںکے لیے ایک سر پرائز تھا۔
تبصرے بند ہیں۔