چار بوندیں کیا گرا دیں جیسے بادل ہو گیا

عبدالکریم شاد

چار بوندیں کیا گرا دیں جیسے بادل ہو گیا

وہم ہر ناقص کو ہوتا ہے کہ اکمل ہو گیا

غم رفو چکر ہوئے جنگل میں منگل ہو گیا

تجھ سے مل کر نا مکمل میں مکمل ہو گیا

تم نے پہلی بار جب دیکھا مجھے ایسا لگا

جیسے میری زندگی کا مسئلہ حل ہو گیا

میں سرِ محفل کروں ان کی جفاؤں کا گلہ

وہ کہیں: چھوڑیں اِسے, یہ شخص پاگل ہو گیا

تیرے جانے سے مرے دل کی یہ حالت ہو گئی

کمرہ خالی اور دروازہ مقفل ہو گیا

میرا دشمن کے غضب پر مسکرا کر دیکھنا

آگ سے اٹھا دھواں پل بھر میں بادل ہو گیا

ایک بچی کو پکارا تو وہ بھاگی چیخ کر

حیف یوں مشکوک دنیا کا ہر انکل ہو گیا

آج جنگل سے ہوا اعلان، انسانو! سنو!

مان لو دنیا میں اب حیوان افضل ہو گیا

زندگی کی دھوپ سے مجھ کو سدا راحت ملی

شاد! جب سایہ فگن امی کا آنچل ہو گیا

تبصرے بند ہیں۔