چار بوندیں کیا گرا دیں جیسے بادل ہو گیا
عبدالکریم شاد
چار بوندیں کیا گرا دیں جیسے بادل ہو گیا
وہم ہر ناقص کو ہوتا ہے کہ اکمل ہو گیا
…
غم رفو چکر ہوئے جنگل میں منگل ہو گیا
تجھ سے مل کر نا مکمل میں مکمل ہو گیا
…
تم نے پہلی بار جب دیکھا مجھے ایسا لگا
جیسے میری زندگی کا مسئلہ حل ہو گیا
…
میں سرِ محفل کروں ان کی جفاؤں کا گلہ
وہ کہیں: چھوڑیں اِسے, یہ شخص پاگل ہو گیا
…
تیرے جانے سے مرے دل کی یہ حالت ہو گئی
کمرہ خالی اور دروازہ مقفل ہو گیا
…
میرا دشمن کے غضب پر مسکرا کر دیکھنا
آگ سے اٹھا دھواں پل بھر میں بادل ہو گیا
…
ایک بچی کو پکارا تو وہ بھاگی چیخ کر
حیف یوں مشکوک دنیا کا ہر انکل ہو گیا
…
آج جنگل سے ہوا اعلان، انسانو! سنو!
مان لو دنیا میں اب حیوان افضل ہو گیا
…
زندگی کی دھوپ سے مجھ کو سدا راحت ملی
شاد! جب سایہ فگن امی کا آنچل ہو گیا
تبصرے بند ہیں۔