علاء الدین خلجی

ریاض فردوسی

نام۔ علاء الدین خلجی۔ ۔ ۔ پیدائشی نام علی گرشاسپ خلجی۔  سنہ پیدائش۔ ۔ 14 اکتوبر 1266ءمورخین دہلی کے نواحی علاقوں یا ترکی کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایک جگہ افغانستان بھی درج ہے۔  حکومت۔ 1296 – 1316 تک وفات کی تاریخ۔ ۔ 4جنوری 1316ء۔ ۔ دہلی۔

خلجی افغانستان میں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے۔ انہوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ چوتھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیوں کہ یہ خوارزم شاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے۔ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہو گیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا۔ (منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 526۔ 117)خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لیے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لیے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے۔

خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہو گئے۔ خود اس پر دہلی کے امرا اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ یہ پہلاحکمران تھا جس نے جنوبی ہند کو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا۔

علی گرشاسپ عرف علاوالدین کابچین سے ہی تعلیم سے زیادہ  حرب، تلوارزنی، نیزہ بازی اورگھڑ سواری کی جانب رجحان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں نوعمری میں ہی بڑے بڑے عہدوں سے نوازاگیا۔ اپنے چچا سلطان جلال الدین خلجی کے دست راست اور لاڈلے سمجھے جاتے تھے اور یہی وجہ تھی جلال الدین خلجی نے سایہ شفقت میں لیتے ہوئے اپنی بیٹی کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا۔ ۔ راجپوتوں اور ہندوتوا سے متاثر مورخین سلطان علاوالدین ہی کو اپنے چچا جلال الدین خلجی کا قاتل مانتے ہیں لیکن مسلم ثقافت اور سلطان علاوالدین خلجی کی فتوحات کے عینی شاہدین کے مطابق جلال الدین خلجی کے قاتل دو افراد تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ جلال الدین خلجی شہنشاہت کے مسند پر مزید رہیں، یہ مئورخین علاوالدین کے اپنے چچا کے قتل میں ملوث ہونے کے امکان یا خدشے کو رد کرتے ہیں۔ ۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 353 تا 204، پروفیسر سید علی ندیم رضوی)

1297ء کے موسم سرما میں منگولوں کے خانیت چغتائی کی جانب سے مامور کادر نامی ایک نویان سلطنت دہلی پر حملہ آور ہوا۔ اس وقت تخت دہلی پر سلطان علاء الدین خلجی متمکن تھے۔ منگولوں کا یہ لشکر خطہ پنجاب کو تاراج کرتے ہوئے بڑھا چلا آ رہا تھا اور قصور تک جا  پہنچا تھا۔ سلطان علاء الدین نے انہیں روکنے کے لیے اپنے بھائی الغ خان (ایک مقام پر  ظفر خان کا بھی ذکر ہے) کی کمان میں اپنا لشکر روانہ کیا۔ 6 فروری 1298ء کو لشکر سلطانی نے منگولوں کے لشکر سے مقابلہ کیا، اس کے ہاتھوں تقریباً بیس ہزار منگول مارے گئے اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا،اور فتنہ ملک ہندوستان سے دور ہو گیا۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے  کہ یہ لشکر ظفر خان اور الغ خان دونوں کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا تھا۔ لیکن امیر خسرو نے ظفر خان کا نام درج نہیں کیا ہے۔ 1299ء میں سندھ میں منگولوں کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔ ظفرخان کی کمان میں منگولوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا بعض مورخین کے مطابق اس معرکے کی کمان خودسلطان علاوالدین خلجی نے سنبھالی۔ ۔ 1303ء میں خلجی کی قیادت میں فوج کی کمان ملک کافور نے سنبھالی اور ہزاروں منگولوں کو جہہنم واصل کیا جبکہ 1305ء میں سلطان کے زیر سایہ ملک نائیک کی کمان میں آٹھ ہزار منگولوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے ہندوستان پر قابض ہونے سے بچایاگیا۔ ۔ یہ سلطان کاہمارے ملک پر احسان عظیم ہے۔ منگول انتہائی طاقتور اور خونخوار جنگجو تھے، روسی حکمراں ہو،فارسی سلطنت ہو،اسلامی حخومت ہو،کوئی  بھی ان کے عتاب سے بچ نہیں پاتا تھا، جہاں جاتے اپنے ظلم و ستم داستانیں رقم کرتے جاتے۔ جنگ فتح ہونے کے بعد منگول اس علاقے میں کچھ باقی نہیں چھوڑتے، قیمتی سامان، کتب، عورتیں، مرد۔ سب کو نیست و نابود کر دیتے، منگول قوم کے وحشی پن کی وجہ سے انہیں۔ اللہ کے عذاب۔ ۔ کے نام سے جانا جاتا، اگر علاوالدین خلجی کے دور حکومت میں منگول ہندوستان پر قبضہ کر جاتے تو آج کا ہندوستان، آج سے کم وبیش دو سو سے تین سو سال پیچھے ہوتا۔ ۔ ہندوستان کی تمام ثقافت تباہ کر دی جاتی، ہر لائیبریری، ہر مندر ہر مسجد، تمام عبادت گاہیں، ہر اسکول زمین دوز کر دیا جاتا۔ ۔ اس کی عظیم مثال شہر بغداد ہے، ہلاکو خان نے جب بغداد پر قبضہ کیا تو پورے کے پورے شہر کو ملامیٹ کر دیا۔ عباسی دور کی تمام لائیبریوں کو ایسے برباد کیا کہ ان کا نام ونشان تک نہ چھوڑا۔

فوجی اخراجات کو قابو میں رکھنے کے لیے اس نے بازار میں ہر چیز کی قیمت مقرر کر دی اور اور اس پر سختی سے عمل کروایا۔ اس زمانے کے روپے کو تنکہ کہتے تھے اور وزن کے اعتبار سے ایک تنکہ ایک روپے کے بالکل برابر ہوتا تھا یعنی 96 رتی کا ہوتا تھا۔ ایک تنکہ تانبے کے بنے 500 جتال کے برابر ہوتا تھا۔ روزمرہ استعمال کی چیزیں سستی ہونے سے لوگ خوشحال ہو گئے اور علاء الدین خلجی کے مرنے کے بعد بھی عرصہ تک اس کے عہد کو یاد کیا کرتے تھے۔ علاء الدین خلجی نے دلال (middle man) کا کردار بالکل ختم کر دیا تھا اور ذخیرہ اندوزی کی سخت ترین سزا مقرر کی تھی۔ جاسوسی کاایک ایسا نظام مرتب کیا تھا کہ بادشاہ کو منڈی کی خبریں براہ راست پہنچائی جاتی تھیں۔ بازار کی قیمتیں یہ ہیں۔

گندم دیڑھ روپے میں۔ دس من

جوایک روپیے میں۔ ساڑھے بارہ من

چناایک روپے میں۔ دس من

چاولایک روپے میں۔ دس من

ماش ایک روپے میں۔ دس من

دالیں ایک روپے میں۔ دس من

چینی ایک روپے میں۔ 38.5سیر

گڑ ایک روپے میں۔ 166 سیر

گھی/مکھنایک روپے میں۔ 125 سیر

تلایک روپے میں۔ 150 سیر

عمدہ سوتی کپڑا ایک روپے میں۔ 20 گز

کھدر کپڑا ایک روپے میں۔ 40 گز

چادر۔ ایک روپے میں

 پانچ بہترین گھوڑا۔ 100 سے 120 روپے تک

درمیانی گھوڑا۔ 80 سے 90 روپے تک

عام گھوڑا 65 سے 70 روپے تک

گھوڑے کا بچہ 10 سے 25 روپے تک

عمدہ بیل 4 سے 5 روپے تک

گائے گوشت کے لیے 1.5 سے 2 روپے تک

دودھ دینے والی گائے 3 سے 4 روپے

بھینسا گوشت کے لیے 5 سے 6 روپے

بھینس دودھ دینے والی10 سے 12 روپے

بکری روپے میں چار سے پانچ تک۔ وغیرہ

پدماوت (دیوناگری: पद्मावत) اودھی زبان کا پہلا رزمیہ ہے۔ جو 1540 میں ملک محمد جائسی نے لکھا۔ یہ چتوڑ کے راجپوت راجا رتن سین اور رانی پدمنی کی محبت کا قصہ اور علاؤ الدین خلجی کے رانی کے عشق میں مبتلا  ہونے اور چتوڑ قلعے پر چڑھائی کرنے کی داستان ہے۔ کہانی کی تاریخی حیثیت متنازع ہے۔ (ایک بات ذہن نشین رہے کہ

سلطان علاؤالدین خلجی کے زمانے میں چتوڑکے راجا رتن سین نہیں بلکہ لکھم سین تھے.تاریخ قاسم فرشتہ کے مطابق غیاث الدین خلجی کے زمانے میں چتوڑ کے راجا رتن سین تھے اور عورتوں کے حُسن کا پرستار علاؤالدین خلجی نہیں بلکہ غیاث الدین خلجی تھا، اور یہی وجہ ہے کہ اُس کے بارے میں تو یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اِس طرح کی حرکت میں ملوث ہوسکتا ہے، مگر سلطان علاؤالدین خلجی کا اِس قصے میں دور دور تک کوئی وجود نہیں ہے.)

مؤرخین نے اس واقعے کی تاریخی حیثیت سے بہت اختلاف کیا ہے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی سے اس واقعے کے تعلق سے  مؤرخین اس کی صحت کو رد کرتے ہیں۔ علاؤ الدین کی تواریخ میں اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ تاریخ محمدی اور تاریخ مبارک شاہی میں پدمنی کا کوئی زکر نہیں ہے۔ ضیا الدین برنی نے بھی اپنی تواریخ میں اس طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ خواجہ نظام الدین احمد نے طبقات اکبری میں اور مولانا عصامی دہلوی  نے شاہنامہ موسوم بہ "فتوح السلاطین” میں  چتوڑ کی فتح کا زکر تو کیا ہے لیکن پدمنی کے وجود کو اس کا سبب قرار نہیں دیا۔ امیر خسرو نے "خزائن الفتوح”  میں چتوڑ کی فتح کو مفصل بیان کیا ہے لیکن وہ بھی اس واقعے کا زکر جائسی کی طرح نہیں کرتے۔ خسرو فتح  چتوڑ کے عینی شاہد تھے لیکن ان کے ہاں پدمنی کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر جنگ کی تہ میں واقعی پدمنی کی کشش کارفرما ہوتی تو امیر خسرو جیسا بے ریا شاعر اسے ضرور بیان کرتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ اس واقعے کے بیان کرنے میں سلطان کی توہین اور خفت تھی اس لیے ہم عصر مؤرخین نے اسے خلاف مصلحت قرار دے کر بیان ہی نہ کیا۔ (ان میں زیادہ تر اہل تشعہ حضرات ہیں ) "تاریخ فیروز شاہی” عہد علاؤ الدین خلجی کے بہت عرصہ بعد فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں لکھی گئی۔ اس میں علاؤ الدین خلجی کے جملہ نقائص اور عیوب پوست کندہ بیان کر دیے گئے ہیں۔ اگر پدمنی والا واقعہ سچ ہوتا تو اسے صاف صاف لکھ دینے میں تاریخ فیروز شاہی کے مصنف کو کوئ تامل  نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ تاریخی ناقدین اس قصے کو رد کرتے ہیں۔ اور مزید برآں درج زیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔

جائسی کا بیان ہے کہ علاؤ الدین خلجی اور رتن سین میں متواتر آٹھ سال جنگ ہوتی رہی۔ اس کے برعکس خزائن الفتوح اور تاریخ فیروز شاہی متفق ہیں کہ علاؤ الدین خلجی نے چتوڑ کو ایک ہی حملے میں فتح کر لیا۔ جائسی نے رتن سین کو چوہان  بتایا ہے جبکہ علاؤ الدین خلجی کے زمانے میں چتوڑ میں ششودھیا خاندان کی حکومت تھی۔ اس زمانے میں لنکا کا راجا پراکرمابھو چہارم تھا، لیکن جائسی نے لنکا کے معاصر بادشاہ کا نام گورودھن بتایا ہے۔ (تاریخ سلاطین خلجی، ص 139) کھمان راسا کی لوک روایت میں علا الدین خلجی کے ہم عصر چتوڑ کے راجا کا نام رتن سین نہیں، بلکہ "لکہم سی” اور اس کے چچا کا نام "بھیم سی” آیا ہے۔

واقعے کے حقیقی ہونے پر شبہ ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اصحاب نے اس کہانی کو ماخوذ بھی قرار دیا ہے۔ جیمز ٹوڈ کے بقول یہ کہانی راجپوتوں کی قومی گاتھا "کھمان راسو” سے اخذ کی گئی ہے۔

محمد احتشام الدین دہلوی کا خیال ہے  کہ اس کہانی میں بیان کردہ واقعات کو سچ تسلیم کر لیا جائے تو کچھ تاریخی وجوہ کی بنا پر اس واقعے کو سلطان غیاث الدین خلجی سے مانا جا سکتا ہے جو علا الدین خلجی کے دو سو برس بعد مالوہ کا تاجدار ہو گزرا  ہے۔ اس کی حدود سلطنت چتوڑ سے باہم ملی ہوئی تھیں اور ان میں باہم لڑائیاں بڑے تواتر کے ساتھ تاریخ میں ملتی ہیں، آخر میں اہم بات یہ ہے کہ علاؤالدین خلجی 1296ء میں دہلی کے سلطان بنے تھے.جبکہ ملک محمد جائسی کی نظم 1540ء میں لکھی گئی، جب ہندوستان کا حکمران شیر شاہ سوری تھا. علاؤالدین خلجی نے جب چتوڑ فتح کیا تو اُن کے ہمراہ معروف موسیقار اور عالم امیر خسرو بھی تھے. اُس وقت کے مورخین میں، امیر خسرو سمیت کسی کی لکھی ہوئی تاریخ میں اِس قصے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا.سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلم حکمراں ایک دو مثالوں کو چھوڑ کر نہایت نیک اور متقی تھے۔

سید صباح الدین عبد الرحمن لکھتے ہیں :

”فخرمدبر کابیان ہے کہ قطب الدین ایبک نے سخاوت میں حضرت ابوبکر کی اور عدل میں حضرت عمر کی تقلید کرنے کی کوشش کی، حضرت بختیار کاکی کے ملفوظات فوائد السالکین میں ہے کہ التمش کی طرف سے عام اجازت تھی کہ جولوگ بھی فاقہ کرتے ہوں اس کے پاس لائے جائیں اور جب وہ آتے تو ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتا اور ان کو قسمیں دے کرتلقین کرتا کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہے یا ان پر کوئی ظلم کرے تو وہ یہاں آکر عدل وانصاف کی زنجیر جوباہر لٹکی ہوئی ہے ہلائیں تاکہ وہ ان کے ساتھ انصاف کرسکے،ورنہ قیامت کے روز ان کی فریاد کا بار اس کی طاقت برداشت نہ کرسکے گی۔ غیاث الدین کے بارے میں مولانا ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی داددہی اور انصاف پروری میں بھائیوں، لڑکوں اور مقربوں کامطلق لحاظ نہ کرتااور جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہ کرلیتا،اس کے دل کو آرام نہ پہونچتا۔ انصاف کرتے وقت اس کی نظر اس پر نہ ہوتی کہ ظلم کرنے والا اس کاحامی و مددگارہے۔ اس کے لڑکے، اعزہ مخصوصین، والی اور مقطع اس کی عدل پروری سے واقف تھے، اس لیے کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کریں، اس کے عدل وانصاف کے قصے بہت مشہور ہیں، خود اس زمانہ کے ہندوؤں نے اس کی حکومت کو دل کھول کر سراہاہے۔ 1337بکرمی مطابق 1280ء کا ایک سنسکرت کتبہ پالم میں درج ہے جس میں لکھا ہے کہ بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔ اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اوردراوڈسے رامیشورم تک ہرجگہ زمین پربہار ہی بہار کی دل آویزی ہے، اس کی فوجوں نے ایساامن و امان قائم کیا ہے جوہر شخص کو حاصل ہے، سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری ایسی اچھی طرح کرتاہے کہ خود و شنو دنیا کی فکر میں آزاد ہوکر دودھ کے سمندر میں جاکرسورہے ہیں۔ امیرخسرو علاء الدین خلجی کے بارے میں خزائن الفتوح میں لکھتے ہیں کہ اس نے حضرت عمر کے نقص قدم کی پیروی کرنے کی کوشش کرکے  ایساعدل قائم کررکھاہے اور عوام کے معاملات میں وہ المستنصر باللہ اور المستعصم بناہوہے۔ محمد بن تغلق کے بارے میں سلاطین دہلی اور مغل بادشاہوں کے دورکے موٴرخین لکھتے ہیں کہ وہ عدل نوازی کے سلسلہ میں مشائخ اور علماء کی بھی رورعایت نہ کرتے، وہ اگر مجرم ہوتے تو ان کو بھی بلاتامل سزائیں دیتے۔ مسالک الابصار میں ہے کہ سلطان محمد ابن تغلق ہفتہ میں شنبہ کو دربارعام منعقد کرتا اور اس کے افتتاح کے موقعہ پر ایک نقیب بلند آوازسے پکارتا تاکہ مظلومین اپنی فریادسنائیں، اہل حاجت اپنی ضرورتیں پیش کریں، جس کو کوئی شکایت ہو یاجوحاجت ہووہ حاضرہوجائے، نقیب کے خاموش ہوتے ہی اہل غرض بلاتکلف سامنے آجاتے اور سامنے کھڑے ہوکر نہایت صفائی سے حالات بیان کرتے، اثنائے بیان میں کسی کوکسی کے روکنے کی مجال نہ تھی۔ تاریخ مبارک شاہی اور ملا عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ دونوں میں ہے کہ سلطان نے اپنے شاہی محل کے اندر چار مفتی مامور کر رکھے تھے، جب کوئی فریادی آتاتو سلطان ان مفتیوں سے مشورے کرتااور ان کو تنبیہ کررکھی تھی کہ اگرکوئی معصوم ان کی فیصلہ کی بدولت تہ تیغ ہواتواس کاخون ناحق ان کے گردن پر ہوگا۔ اس لیے مفتیوں سے کوئی معمولی سی غلطی نہ ہوتی۔ موجودہ دور کے ہندو موٴرخین بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ فیروز شاہ کی حکومت عدل وانصاف کی حکومت تھی،کسی شخص کو بھی دوسرے پر ظلم وتعدی کرنے کاحق نہ تھا،تمام ملک میں امن وسکون تھا، چیزوں کی فراوانی تھی،اعلیٰ وادنیٰ ہرطبقہ کے لوگ مطمئن تھے،عام رعایاقانع اوردولت مندہوگئی تھی۔

ہم خون کی قسطیں بہت دے چکےلیکن

اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

علاؤ الدین خلجی کے بعد اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور بالآخر تغلقوں کے ہاتھوں  خاندان خلجی کا خاتمہ ہوا۔ خلجی دراصل ایک افغان قبیلے  غلجئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی غلجئی نام ہندوستان میں خلجی کی صورت اختیار کر گیا۔

(ماخوذ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پدماوت منظوم از ضیاء الدین عبرت و غلام علی عشرت۔ مرتبہ: ڈاکٹر گوہر نوشاہی۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔

 مثنوی شمع و پروانہ۔

 گوپی چند نارنگ، مثنویات پدماوت۔

 (تاریخ مبارک شاہی، یحیی بن احمد بن عبد اللہ۔ ایسہرندی۔ مرتبہ محمد ہدایت حسین۔ کلکتہ 1931ء)

 طبقات اکبری، خواجہ نظام الدین احمد، مرتبہ بی۔ ڈے، جلد اول۔ کلکتہ 1927ء۔

 فتوح السلاطین، مولانا عصامی، مرتبہ ڈاکٹر مہدی حسین، 1938ء آگرہ۔

 خزائن الفتوح۔ امیر خسرو، مرتبہ محمد حبیب (انگریزی)

  افسانۂ پدمنی، محمد احتشام الدین دہلوی۔ ص 146۔ ۔ ۔ مضمون جمیل فاروقی صاحب۔

James Tod, ‘Annal and Antiquities of (Rajisthan. جلد اول، مطبوعہ 191

(Arabic and Persian Epigraphical Studies – Archaeological Survey of India)

 Kishori Saran Lal 1950، صفحہ۔ 152.

 Peter Jackson 2003، صفحہ۔ 221.

 Banarsi Prasad Saksena 1992، صفحہ۔ 332.

مضمون۔ ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی صاحب۔

"The Khaljis: Alauddin Khalji”۔

 A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206–1526) 5 (اشاعت Second)۔ The Indian History Congress / People’s Publishing House۔ 1992 [1970]۔ او سی ایل سی 31870180۔

History of the Khaljis (1290–1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ 1950۔ او سی ایل سی 685167335۔

The Tabaqat-i-Akbari۔

 Bibliotheca Indica

1۔ Calcutta: Asiatic Society of Bengal۔ 1927۔

The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ 2003۔ آئی ایس بی این 978-0-521-54329-3۔

2 تبصرے
  1. وصی احمد ایم اے کہتے ہیں

    حیرت کی بات هے کوءی بهی قصه کهانی اور واقعه

    جو مشهور و معروف هے اس میں یهی بتایا جاتا هے
    که علاءالدین خلجی نے اپنے چچا کو قتل کرکے حکومت اپنے قبضے میں لے لی ۔تاریخ اسلام میں بهی
    یهی لکها هے۔موصوف کا یه کهنا که راجپوتوں سے متاثر مورخین نے اسے قاتل بتایا یقین نهیں هوتا۔۔۔
    ۔لیکن ایک بات جگ ظاهر هے که وه انتهاءیی متضاد
    خصوصیات کا حامل شخص تها۔۔اس کے اندر اعلیٰ و
    ادنیٰ قسم کی خصلتیں موجود تهیں ۔وه ایک ضدی
    قسم کا انسان تها۔اور اسی ضدی طبیعت کی بناء
    پر هی اس نے دیو گری آج کا دولت آباد کا قلعه
    فتح کیا تها ۔چونکه قلعے کے حفاظتی انتظامات
    انتهاءی پخته جسے کوءیی فتح نه کرسکا۔۔۔۔۔

  2. محمد ریاض الدین فردوسی کہتے ہیں

    السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔۔دراصل تاریخ وہی لکھی جاتی ہے ،جس میں کسی کو برا کردار اور کسی کو اچھا کردار مثلا جلال الدین اکبر کے معاملات میں مذہب سے کوئ تعلق نہ تھا لیکن اس کو کوئ تاریخ داں برا کردار لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا،لیکن مغلوں سے قبل تمام مسلم بادشاہوں کی نیک نامی کو فروغ ہی نہیں دیا گیا،حتی کہ تمام تر خوبیوں کے باوجود محمد ابن تغلق کا بھی مذاق ہی اڑایا گیا،جب کہ آج اسی کے فارمولے پر کام ہو رہا ہے۔یہ تاریخی بددیانتی ہے۔چند تاریخ نویسوں نے ایماندارانہ کوشش کی ہے۔مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔